حال ہی میں جموں و کشمیر میں یہ خبریں گردش کر رہی تھی کہ مرکزی سرکار نے اب اکتوبر-نومبر میں بلدیاتی و پنچایتی چناو نہ کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔اور مرکزی سرکار نے کہا کہ جموںو کشمیر میں سبھی چناو بشمول اسمبلی چناو ‘ پارلیمانی چناؤ2024کے بعد ہی کروائے جائیں گے۔اپوزیشن جماعتوں نے ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بھاجپا جموں وکشمیر میں ہار کے ڈر سے چناو کروانے سے کتراتی ہے۔جسکے بعد فاروق عبداللہ کی سربراہی میں جموںو کشمیر کی اپوزیشن جماعتوں نے جموں میں تین اکتوبر کو ایک اجلاس منعقد کیا جس میں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، کانگریس، سی پی آئی (ایم)، شیو سینا، عوامی نیشنل کانفرنس، ڈوگرہ صدر سبھا کے علاوہ کچھ دیگر چھوٹی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔تاہم جموں وکشمیر اپنی پارٹی، ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی اور پیپلز کانفرنس کو اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
اجلاس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ جموں وکشمیر میں چناو نہ کروانے کے خلاف 10 اکتوبر کو جموں میںپرامن احتجاج کی کال دی گئی۔اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ میں جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس کے بعد سب نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ 10 اکتوبر کو حکومت کے خلاف پُرامن احتجاج کیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ سبھی سیاسی جماعتوں نے دس اکتوبر کو پر امن احتجاج کرنے کا فیصلہ لیا ہے جس میں سبھی پارٹیوں کے نمائندے ایک ہی مقام پر احتجاج کریں گے۔انہوں نے کہا کہ احتجاج کی اجازت کی خاطر صوبائی کمشنر جموں کو خط روانہ کیا جائے گا۔فاروق عبداللہ نے کہا کہ ریاست کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جموں و کشمیر میں آئین کو معطل کر دیا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر، وزیر داخلہ، پی ایم مودی بار بار کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے، پھر الیکشن کیوں نہیں ہو رہے؟ فاروق عبداللہ نے سوال کیا کہ حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹ کی تیاری کے بعد بھی جموں وکشمیر میں انتخابات کیوں نہیں کرائے جا رہے ہیں۔اس دوران جب فاروق عبداللہ سے آزاد پارٹی، پیپلز کانفرنس اور اپنی پارٹی کے اجلاس میں شامل نہ ہونے کے متعلق سوال کیا تو فاروق عبداللہ نے غلام نبی آزاد اور الطاف بخاری کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میں صاف کہوں گا کہ یہ پارٹیاں(مودی) حکومت کی پارٹیاں ہیں۔
فاروق عبداللہ کے بیان پر ردعمل کرتے ہوئے آزاد پارٹی کے ترجمان سلمان نظامی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ” دفعہ 370 کی منسوخی سے دو روز قبل وزیراعظم مودی سے فاروق عبداللہ ہی ملے اور انکے ساتھ ان لوگوں نے ہی اتحاد کیا تھا“۔انہوں نے مزید کہا کہ فاروق عبداللہ دلی میں کون سے نعرے لگاتے ہیں وہ سب کو پتہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں پی ایس اے انہوں نے ہی لایا اور یہاں ہوئے قتل غارت کی ذمہ دار بھی یہی این سی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جموںو کشمیر میں اب غلام نبی آزاد کے علاوہ کوئی متبادل نہیں اس لیے اب وہ بوکھلا گئے ہیں۔نظامی نے مزید کہا کہ یہ اب کرسی کی لالچ کےلیےیہ الیکشن کروانے کےلیے احتجاج کریں گے۔
واضح رہے جون 2018ءمیں پی ڈی پی بھاجپا کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد سے جموں و کشمیر اسمبلی کے بغیر ہے۔اگر چہ مرکزی سرکار نے دفعہ 370 منسوخی کے بعد اسمبلی حلقوں کی حد بندی اور ووٹر لسٹ کے بعد الیکشن کروانے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم ایسا ابھی تک دیکھنے میں نظر نہیں آرہا۔حال ہی میں ایک مقامی نیوز ایجنسی میں شائع رپورٹ کے مطابق نئی دہلی نے راجوری، پونچھ اور کو کرناگ میں حالیہ ملی ٹینٹ حملوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور ذرائع نے نیوز ایجنسی کو بتا یا ملی ٹنٹ انتخابات کے دوران لوگوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ2024ء میں پارلیمانی انتخابات ہونے تک جموں و کشمیر میں یو ایل بی اور اسمبلی کے انتخابات نہیں ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق ایک بھاجپا لیڈر نے بتایا کہ” کشمیریوں کی زندگی انتخابات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے“۔ ان خدشات کے باعث اب رواں سال یوایل بی اور پنچایتی انتخابات کےکرائے جانے کا امکان بہت ہی کم ہے۔ وہیں کچھ رپورٹس میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے ہے جموں وکشمیر کے بھاجپا لیڈران بھی چناو کےلیے تیار نہیں ہیں کیوں کہ انکے مطابق جموں کے لوگ ان سے شدید ناراض ہیں۔جموں سمارٹ میٹرز، سرور ٹول پلازہ اور انہدامی کارروائی کے فیصلوں کے خلاف وادی کشمیرکے ساتھ جموں کے لوگ بھی ناراض ہیں اور جموں میں ایک دن اسکے خلاف ہڑتال بھی کی گئی تھی۔
ادھر ان رپورٹس کے بعد اپوزیشن جماعتیں بھاجپا پر شدید تنقید کر رہی ہیں اور بھاجپا پر الزام عائد کر رہی ہیں کہ بھاجپا اس لیے الیکشن سے بھاگ رہی ہے کیون کہ اسے پتہ ہے کشمیری ہی نہیں بلکہ جموں والے بھی ان سے ناراض ہیں۔ الیکشن موخر کرائے جانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے الگ الگ بیانات میں بھاجپا کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ بی جے پی کو احساس ہو گیا ہے کہ جموں میں ان کا صفایا ہو جائے گا اور وہ پارٹیاں اور نظام جو انہوں نے کشمیر میں قائم کرنے کی کوشش کی ہے کام نہیں کر رہی ہے کیونکہ لوگ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے وہ انتخابات کو موخر کر رہے ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا کہ بھاجپا کو پتہ ہے کہ لوگ انہیں جموں و میں ووٹ کے ذریعے سبق سکھائے گے اسی لیے یہ انتخابات کرانے سے ڈرتے ہیں۔وہیں ہریانہ کے کیتھل میں انڈین نیشنل لوک دل پارٹی کے بانی دیوی لال کی 110 سالگِرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ بھاجپا جموں میں ہار کے ڈر سے اب انتخابات موخر کرا رہی ہے۔