عرب دنیا سمیت مسلم ممالک کا اسرائیل کے خلاف ردعمل لیکن امریکہ،پوروپ اور اس کے اتحادی اسرائیل کے حامی؛غزہ میں انسانی المیہ جنم لےچکا ہےاور اس آگ کی آنچ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے
1973 ءکی عرب اسرائیل جنگ جس میں مصر کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کرکے 1967 عیسوی کی چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران مصر سے چھینی گئی وادی ء سینا وغیرہ دُوبارہ بازیاب کرالی تھی اور کسی حد تک1967ء کی شکست کا بدلہ لیا تھا ‘ کے بعد 7اکتوبر 2023ء کا دن ایک تاریخی دن بن گیا کہ جب’’ حماس‘‘ نامی شدت پسند عسکری تحریک نے اسرائیلی علاقوں پر ہزاروں راکٹ داغ کر اور اسرائیل کی تعمیر کردہ ہر رکاوٹ کو درکنار کرتے ہوئے اسرائیلی حدود میں داخل ہوکر نہ صرف سینکڑوں اسرائیلی لوگوں جن میں فوجی بھی شامل تھے کو تہہ تیغ کردیا بلکہ کئی سو کو اپنی تحویل میں لےکر قیدی بناڈالا۔ یہ حملہ اتنا اچانک اور حیران کن تھا کہ اسرائیلی فوج اور سیکورٹی اداروں کو سنبھلنے تک کاموقع نہیں ملا اور عرصہء دراز سے جو بھاگم دوڑ اور جلائو گھیرائو کے دلخراش مناظر ہمیں فلسطینی علاقوں میں دیکھنے کو ملتے تھے وہ اسرائیلی شہروں میں بھی دیکھے گئے۔
یہ مناظر بہرحال کہیں کے بھی ہوں دلخراش ہی کہلاسکتے ہیں اور کوئی ذی ہوش انسان ان سے خوش نہیں ہوسکتا ۔ انسان کا خون ہر حال میں مقدس و محترم ہے اسلئے جہاں اور جس کا بھی ہے قابل مذمت ہے لیکن جب بہنے والے خون کے تقدس میں امتیاز و فرق برتا جائے تو انسانیت شرم سار ہوجاتی ہے۔موجودہ تنازعے میں رونما ہونے والے واقعات اور بیانات کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں امریکہ سے لیکر یوروپ کے لیڈران کی اسرائیل کےحق دفاع کے تحت غزہ پر بمباری اور حملے کی کھلی چھوٹ ملتی نظر آتی ہے وہیں پر روس کے طاقت ور صدر ولادمیر پوتن کا بیان جس میں انہوں نے غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کو ہٹلر کے لینن گراڈ محاصرے سے تعبیر کیا ہے اور اسرائیل کو اس سے باز رہنے کی تلقین کی ہے حیران کردینے والا ہے۔ آج تو پوتن نے ایک قدم آگے بڑھ کر اسرائیل کو دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ غزہ پر اسکی جارحیت مغربی ایشیا سے نکل کر دوسرے خطوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین ،ترکی، سعودی عرب سمیت دوسرے بیسیوں ممالک کی جانب سے اسرائیلی ردعمل کی نفی اور مذمت بھی قابل ذکر ہے۔فلسطین کا عرب سرزمین ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پر اسرائیلی حملے کا ردعمل اس خطے میں کیا ہوتا ہے اس پر بھی غور کیا جائے۔یوں تو عرب دنیا کے لیڈران امریکہ و پوروپ کے کافی قریب مانے جاتے ہیں اور حماس کے ایران و ترکی کے تئیں دوستی کی وجہ سے عربوں کی اس کے ساتھ دوری کوئی نئی بات نہیں لیکن حیران کن طور پر اس بار عرب ممالک کا موقف اور ردعمل کافی سخت دکھائی دیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب فلسطین مسئلے پر کبھی آپس میں فون کرکے مشترکہ موقف اپنانے کی سعی کریں گے بھی ایک حیران کن معاملہ ہے جس سے اس بار اس خطے کی بدلی سی سیاست کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عرب لیڈران کے موقف کو سمجھنے جاننے کےلئے ان کے حالیہ بیانات کا جائزہ لیاجائے تو واقعتاً کافی حیرت ہوتی ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ دوئم کا قاہرہ امن اجلاس سے خطاب، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے انٹلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل کی ایک تقریب میں کی گئی باتیںاور ساتھ ساتھ امریکہ کے وزیر خارجہ کے دورئہ مصر کے وقت مصری آمر عبدالفتح السیسی کی ان کے ساتھ کی گئی بےباکانہ گفتگو کو ملاحظہ کیا جائےتو ان تینوںبیانات کا ملغوبہ عرب دنیا کی فلسطین سے متعلق سوچ اور واضح موقف کا عکاس نظر آتا ہے۔ ان تینوں نے اگرچہ باتیں الگ الگ کی ہیں لیکن ان کا ہدف، سوچ اور زاویہ نگاہ یکسان ہے ۔شاہ ِ اُردن تو ویسے ہی ایک با کمال مقرر ہیں ۔ مصر میں منعقدہ اجلاس کے دوران جس میںجنیوا کنونشن سے ایک ہزار برس سے زائد عرصہ قبل یروشلم کے دروازے پرہونے والے معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے شاہ عبداللہ کا کہناتھا کہ جب دنیا میں انسانی حقوق کا تصور بھی نہیں تھا مسلمانوں کو دوران جنگ بچوں، عورتوں،نہتوں اور غیر مسلم عبادت گزاروں پر تلوار نہ چلانے، بستیاں نہ اجاڑنے یہاں تک کہ ہرے بھرے درخت نہ کاٹنے، کسی عبادت گاہ خاص طور پر کلیسا ئوں کو نقصان نہ پہنچانے کا حکم ہوتا تھا۔یہی وہ راہنما اصول ہیں جن کا ہر مسلمان پابند ہے کیونکہ بحیثیت ایک انسان سبھی انسانی جانیں قیمتی ہیں۔ شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ غزہ، مغربی کنارے اور اسرائیل میں جس طرح سے معصوم انسانوں پر حملے کئے جارہے ہیں ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل جو بمباری غزہ پٹی میں کررہا ہے وہ ظالمانہ ،بہیمانہ اور فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کی ایک مذموم مہم ہے۔یہ ایک جنگی جرم ہے اور انسانی اصولوں اور عالمی قوانین کی کھلی توہین ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کہیں بھی انسانی بستیوں پر بم باری ہوگی، کہیں بھی انسانوں پر راشن،پانی اور بجلی بند کی جائے گی اور جان بوجھ کر لوگوں کو بھوک پیاس کا شکار بنایا جائے گا،اسکی مذمت کی جائے گی، اور مواخذے کو فوراً اور یکسان طور پر نافذ کیا جائے گا اور ایسا حال ہی کے ایک تنازعے(روس یوکرین تنازعے) میں کیا بھی گیا ہے لیکن ایسا کچھ غزہ کے حوالے سے نہیں کیا جارہا ۔شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ آج دو ہفتے سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو محاصرے میں لےرکھا ہے لیکن دنیا کی اکثریت خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔آج عرب دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ فلسطینی جان‘ اسرائیلی جان سے کم تر قیمت رکھتی ہے یعنی عربوں کی جان اسرائیلیوں کی جان سے کمتر ہے۔عالمی قوانین کا نفاذ اختیاری ہے اور انسانی حقوق کی ’حد بندیاں ‘ مقررہیں ۔یہ حقوق سرحدوں پر رک جاتے ہیں یامذہب اور نسل کی بنیاد پر رُک جاتے ہیں۔شاہ عبداللہ کا کہنا تھا یہ ایک خطرناک پیغام ہے اور اس طرح کی عالمی جانبداری ہم سب کےلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کو پورے عرب دنیا کےلئے ’سرخ لکیر‘ قرار دیتے ہوئے شاہ عبداللہ نے اسے عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ دنیا کو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو امن و استحکام کی زندگیاں دینا ہے تو دو ملکی نظریہ کی بنیاد پر دو الگ ریاستوں کےلئے کام کرنا پڑے گا۔اسی طرح کے خیالات سعودی عرب کے سابق انٹلی جنس چیف اور برطانیہ و امریکہ میں سابق سفیر شہزادہ ترکی الفیصل نےبھی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ان کا کہناتھا کہ ان کا ملک فلسطین کے مسئلے کا حل پرامن جدوجہد میں مضمر مانتا ہے اور ہر قسم کی عسکری جدوجہدکو بے سود مانتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حماس پر لگے الزامات اگر صحیح ہیںتووہ حماس کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ نہتے انسانوں پر حملہ اسلام کی تعلیمات کے منافی عمل ہے۔ترکی الفیصل کا کہنا تھا ’’میں حماس کے حملے کی مذمت کرتا ہوں کیونکہ اس نے ایک بدترین اسرائیلی حکومت کو غزہ میں نہتے شہریوں پر بم برسانے کا جواز فراہم کیاہے۔ ساتھ ہی میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مردوزن ،بچوں بوڑھوں اور عورتوں پر میزائیل داغنے ،ان کو ٹارگٹ بناکر قتل کرنے اور قید میں ڈالنے کی سخت مذمت کرتا ہوں۔میںفلسطینیوں پر بم برساکر انہیں اپنے گھروں سے نکال کر وادی سینا میں منتقل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت کرتا ہوں‘‘ ۔ترکی الفیصل کا مذید کہنا تھا کہ وہ آج کل امریکی میڈیا پر ایک جملہ سن رہے ہیںجس میں حماس کے حملے کو ’بلا اشتعال‘ قرار دیا جارہا ہے ۔’’میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس ’اشتعال‘ کی بات کررہے ہیں ۔کیا پچھلے 70 برس کا اسرائیلی ظلم و جبر اور قتل و غارت گری واضح اشتعال نہیں ہے‘‘۔ترکی الفیصل کا کہنا تھا کہ’’ میں اسرائیل کے فلسطینی زمینیں چُرانے اور ہتھیانے کی مذمت کرتا ہوں ۔ میں مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی فوج اور پولیس کے حملوں کی مذمت کرتا ہوں۔میں مغرب کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی مذمت کرتا ہوں کہ جو فلسطینیوں کے ہاتھوں کسی اسرائیلی کے مارے جانے پر آنسو بہاتے ہیں لیکن دوسری جانب اسرائیلوں کے ہاتھوں مارے جارہے فلسطینیوں پر اظہار افسوس بھی نہیں کرتے‘‘۔ان کا مذید کہنا تھا کہ یاد رکھیں اس تنازعے میں کوئی ہیرو نہیں ہے بلکہ سبھی متاثرین ہیں۔ عربوں میں سے سب سے حیران کردینے والا موقف مصر کے صدر السیسی کا تھا جسے مغرب اور اسرائیل کے کافی قریب مانا جاتا ہے۔ ہوا یہ کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مسٹرانٹونی بلنکن وہاں اسرائیل کےلئے حمایت بٹورنے پہنچے اور ان کی ملاقات صدر السیسی سے ہوئی جنہوں نے حیران کن طور پر امریکی وزیرخارجہ کو منہ پر کھری کھری سنادی۔ انہوں نے انٹونی بلنکن سے کہا کہ ’’آپ کہتے ہیں کہ آپ ایک یہودی ہیں تو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں میں ایک مصری ہوں اور یہاں مصر میں میرے ہمسائے یہودی تھے جن کے ساتھ میں پلا بڑا ہوں۔ ہمارے مصر میں کسی یہودی پر کبھی ظلم نہیں ہوا۔ اَلسیسی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا حق دفاع اپنے حدود سے تجاوز کرکے اب فلسطینیوں کےلئے اجتماعی سزا بن چکا ہے جسے فی الفور روکنا چاہئے۔ انہوں نے فلسطینیوں کی اپنے گھروں سے بے دخلی کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی بھی قرار دیا۔ حق یہ ہے کہ اسرائیل کےلئے حمایت جوڑنے کی غرض سے عرب ممالک کا دورہ کرنے والے امریکی وزیرخارجہ کو اس بار عرب دنیا سے جس شدید قسم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہےوہ تاریخی ہے اور اس سے ثابت ہورہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے حوالے سے اپنی جانب دارانہ پالیسیوں کے نتیجے میں رفتہ رفتہ اس خطے میں اپنی ساخت اور اثر کھو رہا ہے۔
حماس کے حملے اور اس کے ردعمل میں اسرائیلی حملوں کے ضمن میں کئی نکتہ ہائے نظر ہیں ۔ کئی مبصرین حماس کے حملوں کو فلسطینیوں کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں جو عرصہ دراز کے محاصرے سے تباہ حال ہوچکے ہیں اور جنہیں دنیا کی بے رخی نے بھی مایوس کردیا ہے۔ بقول ایک مقامی مبصر کے’’جب فلسطینیوں کے بے دریغ قتل کو اسرائیل کےلئے حق دفاع مانا جائے اورکسی اسرائیلی کے قتل کو دہشت گردی قرار دیا جائےتو اسے عدل و انصاف کے برعکس ہی تصور کیا جائے گا۔حماس کے حالیہ حملے میں اسرائیل میں مارے گئے معصوم انسانوں کے لہو کی ارزانی پر کوئی ذی ہوش خوش نہیں ہوسکتا لیکن حماس کے اس خونین حملے کے محرکات اور پس پردہ عوامل کو بھی کسی صورت نظر انداز کرنا بھی انسانیت کی کوئی خدمت نہیں کہلاسکتا۔رواں برس کے اعداد و شمار کوہی لیں تو اس دوران اخباری اطلاعات کے مطابق مختلف واقعات میں اسرائیلی فوج، پولیس اور بندوقیں ہاتھ میں لئے آبادکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے کئی سو معصوم فلسطینی شہریوں کو قتل کیا لیکن نہ امریکہ کے بائیڈن کے کان پر جوں رینگی،نہ برطانیہ کے ریشی سونک کی انسانیت بیدار ہوئی، نہ فرانس کے مسلم دشمن میکرون کو شرم آئی اور نا ہی ماضی میں یہودیوں کے لہو سے ہاتھ رنگنے والے جرمنی کے چانسلر کی زبان کھلی۔ اور تو اور آرگنائزآف اسلامک کنٹریز یعنی او آئی سی نے بھی ہورہے مظالم کو روکنے کی کوئی سعی نہ کی بلکہ سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک تو اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے قریب تر پہنچ چکے تھے‘‘۔مذکورہ مبصر کا کہنا ہے کہ’’ ہم عربوں کی نیت پر کوئی شک نہیں کرنا چاہتے بلکہ اُن کے اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی اس بات چیت میں پنہاں خیر کے پہلوؤں کے ہی متمنی تھے لیکن یہ بات سچ ہے کہ غزہ کی پٹی کے گرد تنگ و تاریک اسرائیلی محاصرے جس میں پینے کا پانی تک اسرائیل کے رحم و کرم پر ہی منحصر ہے‘ میں پیدا ہونے والے اور جوانی کی دہلیز پر دستک دینے والے فلسطینی بچوں کو مایوسی سے نکالنے کی نہ ہی عربوں کی کوئی کوشش کی اور نا ہی ایران،پاکستان اور ترکی کے بڑےبول اس ضمن میں کچھ کرپائے ہیں‘‘ ۔ یونی ورسٹی میں تاریخ کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’’7 اکتوبر2023ء کے حماس حملوں کو اس زاویہ نگاہ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جب کوئی آپ پر ڈھائے جارہے مظالم پر دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی۔ جب آپ کے خون کو کم تر اور آپ کے مخالف کے لہو کو برتر مانا جائے گا۔ جب آپ کی ہر پرُامن سیاسی کاوش کوتسلیم کرنے سے انکار کیا جائے گا تو آپ کہاں جائیں گے؟ عالمی قائد اور پرامن جدوجہد کے عظیم داعی نیلسن منڈیلا کے مطابق مظلوم نہیں بلکہ ظالم ہی مظلوم کی جدوجہد کے نقوش و پیکر طے کرتا ہے اور سچ یہی ہے کہ فلسطینیوں کے ضمن میں یہی بات سچ ہے۔ 7 اکتوبر کے حماس حملے یقیناً بلاجواز اور قابل مذمت ہیں لیکن اس سے قبل اس خطے میں جو فلسطینی قتل ہورہے تھے ان کے قاتلوں کو کیا نام دیا جائے۔ پھر حماس حملے کے ردعمل میں جس طرح سے اسرائیلی حکومت نے غزہ پٹی میں رہنے والے لاکھوں فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کا سلسلہ دراز کررکھا ہے جس کے نتیجے میں اب تک پانچ چھے ہزار فلسطینی جن میں بچے بوڑھے اور عورتیں بڑی تعداد میں شامل ہیں‘مارے جاچکے ہیں اور ہزاروں گھر اور بستیاں راکھ و دھول کا ڈھیر بن چکے ہیں ‘ اس کو کیسے اور کیونکر ’اسرائیل کے حق دفاع‘میں ہونے والے’ ضمنی نقصان‘ یعنی کو’لیٹرل ڈیمیج ‘سے تعبیر کرتے ہوئے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ کئی عالمی مبصرین اور لکھاریوںکے مطابق حماس کا یہ حملہ کئی اہداف رکھتا تھا۔ اس کا ایک ہدف یہ تھا کہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے ممکنہ معاہدے کو سبوتاژ کیا جائے جس میں حماس کو غالباً کامیابی مل چکی ہے۔ایک اور موقف یہ ہے کہ اس کا ہدف ممکنہ طور پر اس نئی تجارتی راہداری جسے’ آئی ایم ای سی‘ کا نام دیا جارہا ہے اور کو روکنا ہے جو بھارت سے ہوتے ہوئے اسرائیل اور عرب ممالک سے گرزتاہے۔بظاہر اس معاملے پر بھی اس تجارتی راہداری کے مخالف کامیاب نظر آرہی ہیں۔حماس کے حملے کے پیچھے کیا کیا محرکات ہیں ان سے قطع نظر اس سے حاصل کیا ہوا ہے وہ بھی قابل غور و فکر ہے۔ ایک بھارتی نجی ٹیلی ویژن چینل پر ایک ماہر سیاست و سفارت کی مانیں تو حماس کا یہ حملہ اور اس کے جنگی نتائج کا اسرائیل کے حق میں نکلنا طے شدہ امر ہے لیکن جس بات نے امریکہ ،یوروپ اور خود اسرائیل کو پریشان و پشیمان کردیا ہے وہ اُس ’ہوا ‘کا اُکھڑ جانا ہے کہ جسے بناتے بناتے تقریباً سات دہائیاں لگی تھیں۔ بقول اس ماہر کے اس حملے سے قبل ایک تسلیم شدہ بات ہوا کرتی تھی کہ اسرائیل کا جنگی سازو سامان سب سے اعلیٰ ترین، اسرائیل کی جنگی اور دفاعی حکمت عملی بے لاگ، اسرائیل کاآئرن ڈوم لازوال، اسرائیل کی انٹلی جنس سب سے اوّل،یعنی بالفاظ دیگر اسرائیل ناقابل شکست،ناقابل تسخیر اور ناقابل تنسیخ ہے لیکن 7اکتوبر کے حملے نے اس ساری حقیقت کو محض ایک’ فسانہ‘ بناکر رکھ دیا اور اس بنائی گئی ’ہوا ‘کو اکھاڑ کر بحیرئہ روم میں مانوغرق کردیا ہے۔ موصوف کے مطابق حماس کے خونین حملے کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ کو یہ بڑا نقصان اور دھچکا پہنچا ہے اور اس کی تلافی سالوں میں ہی ممکن ہے۔
حماس حملے اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو بائیڈن انتظامیہ اور امریکہ کےلئے ایک دھچکا قرار دیتے ہوئے ایک سابق بھارتی سفارت کار اور سیاسی و سفارتی امور کے ماہر ایم کے بھدرا کمارکا کہنا ہے کہ اس حملے میں امریکہ کی شکست دراصل اس کے عالمی تسلط کے خاتمے پر ہی منتج ہوجائے گا۔ سابق سفارت کار لکھتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی اور تکونی الائنس کی شکست کے دوران حکمران عثمانی ترکوںکے خلاف عرب بغاوت 1916تا1918ءکے ایک سو سال بعد، عربوں کی طرف سے ایک اور مسلح بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ اس بار یہ اسرائیل کے قبضے کے خلاف ہے اور یہ یوکرائن کی جنگ میں امریکہ اور نیٹو کی شکست کے پس منظر میں، تاریخ دہرانے کاعمل ہورہاہے۔ عرب بغاوت کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ بکھر گئی تھی اسی طرح اب اسرائیل کو بھی اپنے مقبوضہ علاقے خالی کر کے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے جگہ بنانا پڑے گی جو یقیناً امریکہ کے لیے ایک کربناک شکست ہو گی اور اس کے عالمی تسلط کے خاتمے کی علامت ثابت ہوگی۔ موصوف کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ ہفتے کے دوران ہونے والے واقعات کا بہائوطوفانی رہا ہے، جس کی شروعات ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی جانب سے 11اکتوبر کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو کی گئی ایک فون کال سے ہوئی جس میں حماس کے حملے کے بعد رونما ہونے والی صورت حال کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ایک سینئر ایرانی اہلکار نے رائٹرز نامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ رئیسی کا ولی عہد کو فون جس کا مقصد’فلسطین کی حمایت اور خطے میں جنگ کے پھیلاؤ کو روکنا تھا اور یہ کہ کال اچھی اور امید افزا تھی۔سعودی عرب، کے ساتھ وسیع مفاہمت قائم کرنے کے بعدایران کے خارجہ وزیر حسین امیر عبداللہیان نے اپنے اماراتی ہم منصب، شیخ عبداللہ بن زایدسے ملاقات اوربات چیت کی اوراسلامی نیز عرب ممالک کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت پر زور دیا۔ایرانی وزیر خارجہ اس کے علاوہ دیگر عرب ممالک کے دورے پر بھی گئے اور فلسطینیوں کےلئے سب کو متحد ہونے کی دعوت دی( اور یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ اس دورے کو کافی کامیابی ملی)۔سابق سفارت کار لکھتے ہیں کہ ایران نے اقوام متحدہ کے ذرائع کے ذریعے اسرائیل کو یہ پیغام پہنچادیا ہے کہ غزہ پر مسلسل جارحیت ایران کو براہ راست جنگ میں دھکیل سکتا ہے اور امریکہ بھی اس بات کی صحت سے انکاری نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں، اتوار کو، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے تسلیم کیا کہ امریکہ اس بات کو رد نہیں کر سکتا کہ ایران تنازع میں مداخلت کر سکتا ہے۔ اس دوران، جب ایران عسکری محاذ پر مزاحمتی گروپوں کے ساتھ ہم آہنگی کر رہا تھا، چین اور سعودی عرب سفارتی راستے پر گامزن نظر آرہے ہیں۔ 12اکتوبر کو جب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن تل ابیب میں مذاکرات کے بعد عرب دارالحکومتوں کا رخ کر رہے تھے اور حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مدد مانگ رہے تھے، مشرق وسطیٰ کے لیے چین کے خصوصی ایلچی ژائی جون نے سعودی نائب وزیر برائے سیاسی امور سے رابطہ کیا۔اسی دن چین کی وزارت خارجہ میں ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا جب بیجنگ میں عرب سفیروں نے خصوصی ایلچی ژائی جون کے ساتھ ایک گروپ میٹنگ کی تاکہ ان کے اجتماعی موقف کو اجاگر کیا جا سکے کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایک ’’انتہائی شدید‘‘ انسانی بحران پیدا ہوا ہے اور ’’عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے، امن کے لیے مذاکرات کی بحالی کو فروغ دینے، اور فلسطینی عوام کے جائز قومی حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے‘‘۔ عرب سفیروں نے فلسطین کے سوال پر منصفانہ موقف کو برقرار رکھنے پر چین کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ چین مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔ اس غیر معمولی ملاقات کے بعد، چینی وزارت خارجہ نے آدھی رات کو اپنی ویب سائٹ پر وزیر خارجہ وانگ یی کا ایک بیان شائع کیا جس کا عنوان تھا ’’چین فلسطین کے سوال پر امن اور انسانی ضمیر کے ساتھ کھڑا ہے۔‘‘ مبینہ طور پر اس سے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے وانگ یی کو فون کیا۔ سابق سفارت کار کے مطابق مختصراً، سعودی عرب سے متعلق ان تمام تبادلوں میں، خاص طور پر، سعودی وزیر خارجہ اور ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ریاض میں بلنکن کی ملاقاتوں میں، جب کہ امریکہ نے یرغمالیوں کے معاملے پر توجہ مرکوز کی، سعودی فریق نےغزہ میں انسانی بحران کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ چین کی حمایت یافتہ ایک مربوط سعودی ایرانی حکمت عملی اسرائیل پر جنگ بندی پر راضی ہونے اور کشیدگی میں کمی لانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت اسرائیل کو مزید تنہا کر دیتی ہے۔سابق سفیر کے مطابق اس تناظر میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی رخصتی متوقع ہے لیکن وہ بغیر لڑائی کے اقتدار تیاگ نہیں دیںگے۔ امریکہ اسرائیل تعلقات میں تناؤ آ سکتا ہے۔بائیڈن 1980میں ایران کے یرغمالی بحران کے بارے میں جمی کارٹر کی پریشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک بندھن میں پھنس گئے، جس نے بطور صدر دوسری مدت کے لیے ان کی تقرری ہی ختم کردی تھی یوں بائیڈن پہلے ہی پیچھے ہٹ رہا ہے۔ یہاں سے چیزیں کہاں جاتی ہیں؟ واضح طور پر، غزہ پر اسرائیلی جارحیت جتنی دیر تک جاری رہے گی، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداری کی اجازت دینے کے لیے بین الاقوامی مذمت اور مطالبہ میں شدت آئے گی۔سابق بھارتی سفارت کار کی مانیں تو نہ صرف بھارت جیسے ممالک، جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ ’’یکجہتی‘‘ کا اظہار کیا،عالمی جنوب میںساخت کھو دیں گے، یہاں تک کہ واشنگٹن کے یورپی اتحادی بھی سخت دباؤ کا شکار ہوں گے۔ وہ مذید کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملہ ہوتا ہے یا نہیں۔عرب،ایران،چین کا محور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کی حالت زار کو اٹھاتے رہیں گے۔ حال ہی میں امریکہ نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کر دیا۔ ایک روسی تجویز کردہ قرارداد کا مسودہ پیر کو ناکام ہو گیا۔ دریں اثنا، ’’ابراہیم معاہدے ‘‘کو دوبارہ زندہ کرنے کا امریکی منصوبہ ناکام ہو گیا اور چین کی ثالثی میں سعودی ایران کے تعلقات کو کمزور کرنے کی سازش کو اچانک موت کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق سفارت کار کا مذید کہنا ہے کہ ’جہاں تک مغربی ایشیا میں متحرک طاقت کا تعلق ہے، یہ رجحانات صرف روس اور چین کے فائدے کے لیے کام کر سکتے ہیں، خاص طور پر اگر’’ برکس‘‘ممالک کسی وقت مشرق وسطیٰ کے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اہم کردار ادا کرے جس میں اب امریکہ اجارہ داری نہیں رہی ہے۔یہ روس کے لیے واپسی کا وقت ہے۔ پیٹرو ڈالر کا دور ختم ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ، امریکی عالمی بالادستی بھی دم توڑ رہی ہے۔سابق بھارتی سفارت کار کی باتوں کے ساتھ اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن کچھ حقائق ہیں جن کی موصوف نے بڑی حد تک پردہ کشائی کی ہے۔ موجودہ جنگ کے پہلے ایام میں امریکہ کی اسرائیل کےلئے کھلم کھلا حمایت آہستہ آہستہ کم نہیں تو کمزور ضرور ہورہی ہے۔ مثلاً امریکی صدر جو بائیڈن کا حالیہ بیان جو’’ ایکس‘‘ نامی سماجی ویب سائٹ کے ذریعے شائع ہوا میں امریکہ کے صدر کا بیان ہے کہ’’ امریکہ فلسطینی لوگوں کے حق وقار و عزت اور حق خودارادیت کےلئے عہدہ بند ہے اور حماس کے دہشت گردوں کے اعمال اس حق کو کسی بھی طرح چھین نہیں سکتے‘‘ ۔ اس بیان کو اگر امریکی یو ٹرن نہ بھی سمجھا جائے لیکن اسرائیل کے تئیں اس کے یک طرفہ حمایتی موقف میں بدلائو ضرور کہا جاسکتا ہے جس کی وجہ عالمی سطح اسرائیلی اقدامات کا مسترد ہونا ہے۔ بقول ایک مقامی دانشوروجاہت قاضی جنہوں نے ’’ویون‘‘ نامی نیوز چینل کےلئے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ ’’وقت کا ایک ٹانکا بے وقت کے نو ٹانکوں سے بچاتا ہے؟‘‘ اب بھی امیدکی جاسکتی ہے اور اس کے لیے مغربی سیاسی قیادت کو پہل کرنا ہوگی۔ ان کی (خاص طور پر امریکہ کی) خارجہ پالیسیوں اور میڈیا کو اشرافیہ کی گرفت میں ہمیشہ کے لیے یرغمال نہیں بنایا جانا چاہیے۔ یہ ایک وسیع خاکہ ہے۔ فوری طور پر، اسرائیل کو روکا جانا چاہئے۔ یہ صرف مغرب ہی کر سکتا ہے۔ اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ امن قائم کرے اور اس کا ماحول تیار کرے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تویہ خطہ، مغرب اور دنیا رہنےکے لیے بہتر ہو گی!‘‘۔ اُردو کے معروف شاعر ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔؎
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے