امت نیوز ڈیسک //
سرینگر : لوک سبھا انتخابات 2024 کے چوتھے مرحلے میں آج جموں اور کشمیر سمیت 10 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پھیلے ہوئے 96 حلقوں میں ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں صرف سرینگر پارلیمانی نشست پر آج ووٹنگ ہو رہی ہے جس میں 17 لاکھ سے زیادہ اہل رائے دہندگان پارلیمانی نشست کے 24 دعویداروں کے لیے اپنا حق رائے دیہی استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ انتخابات ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ جموں و کشمیر میں اگست 2019 میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پہلی مرتبہ منعقد ہونے والے پہلے عام انتخابات ہیں۔ دفعہ 370کی تنسیخ کے تحت سابق ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا اور اس خطے کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں – جموں کشمیر اور لداخ – میں تقسیم کیا گیا۔
سرینگر پارلیمانی سیٹ، جو 1962 میں قائم کی گئی تھی، پانچ اضلاع پر محیط ہے: سرینگر، بڈگام، گاندربل، پلوامہ، اور شوپیاں؛ جہاں 17.47 لاکھ سے زیادہ ووٹرز ہیں۔ سرینگر پارلیمانی نشست نیشنل کانفرنس (این سی) کے لیئے روایتی طور پر ایک مضبوط گڑھ رہی ہے۔ پارٹی نے اس سیٹ کے لیے اب تک ہونے والے 13 میں سے 10 انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور بیگم اکبر جہاں عبداللہ جیسی قابل ذکر شخصیات نے اس حلقے کی نمائندگی کی ہے۔ تاہم کانگریس پارٹی واحد قومی پارٹی ہے جس نے یہاں کامیابی حاصل کی ہے، جسے غلام محمد میر ماگامی نے 1996 میں حاصل کیا تھا۔ حالیہ برسوں میں جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے طارق حمید قرہ نے اس سیٹ کو 2014 کے عام انتخابات میں جیتنا تھا تاہم بعد میں استعفیٰ دے کر انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔
موجودہ انتخابی معرکہ کے دوران سرینگر حلقہ میں انتخابی مہم کا ایک متحرک ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے، یہاں تک کہ ڈاؤن ٹاؤن، سرینگر میں بھی سیاسی جماعتوں نے ریلیز اور روڑ شوز کا اہتمام کیا۔ سال 1996سے علیحدگی پسند رہنماؤں کی جانب سے لگاتار الیکشن بائیکاٹ کی کال کا خاصا اثر شہر خاص میں دیکھنے کو ملتا تھا حتیٰ کہ سال 2019کے لوک سبھا انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 14.4 فیصد رہی۔
اس بار کے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایاں امیدوار اپنی سیاسی قسمت آزما رہے ہیں، جن میں این سی کے آغا سید روح اللہ مہدی، پی ڈی پی کے وحید الرحمان پرہ اور جموں و کشمیر اپنی پارٹی (اے پی) کے محمد اشرف میر قابل ذکر ہیں۔ اے پی 2020 میں اپنی تشکیل دی گئی اور اس بار پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی نے تین دہائیوں میں پہلی بار تین کشمیری حلقوں سرینگر، بارہمولہ اور اننت ناگ- راجوری میں امیدوار کھڑے کرنے سے گریز کیا ہے، کیونکہ سال 2019کے عام انتخابات میں بی جے پی کشمیر کی سبھی نشستوں پر کل ملا کر محض بیس ہزار ووٹ ہی حاصل کیے تھے۔
این سی کے آغا روح اللہ مہدی وسطی کشمیر کے بڈگام اسمبلی حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں تاہم انہوں وہ سرینگر نشست کے لیے انتخابات میں شرکت کر رہے ہیں،اور وہ آج اپنے لیے ووٹ نہیں ڈالیں گے تاہم بارہمولہ لوک سبھا سیٹ کے لیے ان کی پارٹی کے امیدوار عمر عبداللہ کے لیے وہ پانچویں مرحلے میں ووٹ ڈالیں گے۔ تاہم، عمر عبداللہ آج الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) پر مہدی کے نام کا بٹن دبائیں گے۔ عمر عبداللہ، سرینگر لوک سبھا سیٹ کے تحت لال چوک اسمبلی حلقہ میں بطور ووٹر رجسٹر ہے۔
سرینگر کا حلقہ 18 اسمبلی حلقوں پر محیط ہے۔ چیف الیکٹورل آفیسر (جموں اور کشمیر)، پانڈورنگ کے پولے نے کہا ہے کہ تقریباً 8.76 لاکھ مرد، 8.72 لاکھ خواتین، اور 64 تیسری جنس کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ 11,682 معذور افراد اور 705 صد سالہ افراد آج ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ پانچ اضلاع میں 2,135 سے زیادہ پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، جن میں خواتین کے لیے گلابی پولنگ اسٹیشن، خصوصی طور پر معذور افراد کے لئے نیلے بوتھ، اور ماحولیاتی بیداری کی وکالت کرنے والے گرین (سبز) پولنگ اسٹیشن کے خصوصی انتظامات ہیں۔ انتخابات کی تیاریوں کے حوالہ سے وادی کشمیر خاص کر سرینگر میں سیکورٹی کے سخت ترین اقدامات کیے گئے ہیں، جس سے ووٹروں کی حفاظت اور انتخابی عمل کی سالمیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔
بیشتر علیحدگی پسند رہنما جیلوں میں بند ہیں جس کے سبب ان انتخابات کے لیے بائیکاٹ کی کال نہیں دی گئی، جس سے کشمیر خاص طور پر سرینگر میں انتخابات دلچسپ ہو گئے ہیں۔ علیحدگی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین اور میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق کے واحد ایسے علیحدگی پسند رہنما ہے جو جیل میں نہیں، تاہم انہوں نے ماضی کے برعکس الیکشن بائیکاٹ کی کال نہیں دی اور خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی۔
انتظامیہ کی جانب سے انتخابات کو شفاف اور پر امن طور منعقد کرنے کے حوالہ سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے اعلانات کے بیچ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور اپنی پارٹی نے حکام خاص کر جموں کشمیر پولیس پر ان کے کارکنان کو ہراساں کرنے اور بعض کارکنان کو حراست میں لینے کے سخت ترین انتظامات عائد کیے ہیں۔ پی ڈی پی نے حراست میں لیے گئے کارکنان کے نام بھی مشتہر کیے ہیں تاہم جموں و کشمیر پولیس نے ان سبھی الزامات کی تردید کی ہے۔