امت نیوز ڈیسک //
سرینگر : جموں و کشمیر میں ووٹ شماری کے پہلے رجحانات میں حیرت انگیز طور پر دلی کی تہاڑ جیل میں مقید سابق اسمبلی ممبر شیخ عبدالرشید المعروف انجینئر رشید بارہمولہ لوک سبھا نشست پر اپنے قریبی حریفوں سے آگے ہیں۔ انکے مقابلے میں سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون کی کارکردگی مایوس کن ہے اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ انجینئر رشید اس سیٹ پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنے میں کامیاب ہونگے۔
عمر عبداللہ گو کہ سرینگر کے باشندے ہیں لیکن انہوں نے الیکشن کیلئے بارہمولہ کا انتخاب کیا کیونکہ پارٹی کو ایسا کوئی امیدوار نہیں ملا تھا جو اس وسیع و عریض حلقے میں اپنی سیاسی ساکھ رکھتا ہو۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عمر عبداللہ انجینئر رشید سے کم و بیش ایک لاکھ 60 ہزار ووٹوں سے پیچھے چل رہے ہیں۔ انجینئر رشید کو 354679 ووٹ حاصل ہوئے ہیں جبکہ عمر عبداللہ 194597 ووٹ حاصل کرچکے ہیں۔ سجاد غنی لون جو کہ پیپلز کانفرنس کے امیدوار ہیں121312 ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور سابق راجیہ سبھا ممبر میر فیاض کو ابھی تک 21378 ملے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انجینئر رشید کو سبھی راؤنڈس میں اچھے ووٹ مل رہے ہیں۔ سجاد لون کو توقعات کے برعکس کافی قلیل تعداد میں ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ عمر عبداللہ نے حتمی نتائج سامنے آنے سے پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں انجینئر رشید کو مبارکباد پیش کی لیکن دبے الفاظ میں کہا کہ اس جیت سے انکا جیل سے باہر آنا ممکن نہیں ہوپائے گا اور بارہمولہ لوک سبھا سیٹ نمائندگی کیلئے تشنہ رہے گی۔
انجینئر رشید اس وقت یو اے پی اے کیس میں تہاڑ جیل میں بند ہے۔ وہ ماضی میں شمالی کشمیر کی لنگیٹ اسمبلی حلقے کی دوبار نمائندگی کر چکے ہیں۔ انکی عدم موجودگی میں انکے دو بیٹوں نے انکے لئے انتخابی مہم چلائی جس میں نوجوانوں نے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ انجینئر رشید کے حق میں بھاری پیمانے پر ووٹنگ ہوئی ہے حالانکہ ابتدائی اندازے یہ لگائے جارہے تھے کہ انجینئر رشید کی بہتر کارکردگی کے باوجود نیشنل کانفرنس اس حلقے میں جیت درج کرسکتی ہے کیونکہ اس پارٹی کے ورکر سبھی علاقہ جات میں موجود ہیں۔
انجینئر رشید کو حکام نے پانچ اگست 2019 سے پہلے ہی گرفتار کیا تھا۔ انہوں نے 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس وقت انکے لئے انڈین ایڈمسٹریٹیو سروس کے افسر شاہ فیصل نے بھی انتخابی مہم چلائی تھی۔ شاہ فیصل نے سروس سے استعفیٰ دیکر سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن 5 اگست کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور رہائی کے بعد انہوں نے سیاست سے تائب ہوکر اپنا استعفیٰ واپس لیا اور اب دلی میں ایک اعلیٰ عہدے پر کام کررہے ہیں۔
انجینئر رشید کو لنگیٹ حلقے میں بھاری عوامی حمایت حاصل ہے لیکن 2019 کے الیکشن کے بعد انکا حلقہ اثر پھیل گیا تھا۔ گزشتہ ساڑھے پانچ سال سے مسلسل جیل میں نظر بند ہونے کے باوجود انکی عوامی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ انجینئر رشید کے بیٹے اپنے عوامی جلسوں میں صرف یہی نعرہ لگا رہے تھے کہ وہ اس الیکشن کے ذریعے اپنے باپ کی رہائی چاہتے ہیں کیونکہ انکے بقول ان کے والد کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں پابند سلاسل کردیا گیا ہے۔