چینی کیمونسٹ پارٹی کی بنیاد 1921 میں شنگھائی کے ایک گرلز سکول میں رکھی گئی۔ اس دور میں یہ عالمی سطح کا ایک اہم واقعہ تھا جس کی بدولت طبقاتی جبر اورسامراجی تسلط کے خلاف چینی عوام کی طویل جدوجہد میں ایک اہم موڑ آیا، جس کا محرک 1917 کاروسی انقلاب تھا۔ گزشتہ دنوں چینی کیمونسٹ پارٹی کے صد سالہ تقریبات کے موقع پر ایک منظور ہونے والی قرارداد کے بعد موجودہ چینی صدر شی جن پنگ کا رتبہ کیمونسٹ نظریہ ساز مائوزے تنگ اور ڈینگ زیاؤپنگ کے برابر ہوگیا جنہوں نے 1978سے 1989تک ملک کی قیادت کی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے شی جن کی اقتدار پر گرفت ہمیشہ کے لیے مضبوط ہو گئی ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی 100سالہ تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی تیسری قرارداد ہے۔ اس سے قبل 1945میں مائوزے تنگ اور1981 میں ڈینگ زیاؤ پنگ کے دور میں اس طرح کی قراردادیں منظور کی گئی تھیں۔
قرارداد میں کیا کہا گیا ؟
اس طویل ترین دستاویز میں پارٹی کی تاریخ کے درست نقطہ نظرکو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں چینی سماج اور اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ صدر کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلیں کیونکہ شی جن پنگ کی آئیڈیالوجی چینی ثقافت اور روح کا نچوڑ ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ چینی قوم میں ایک نئی روح اور جوش پیدا کرنے کے تاریخی عمل کو فروغ دینے کے حوالے سے حکمران جماعت میں شی پنگ کی موجودگی فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔ قرارداد میں پارٹی کی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز سنٹرل کمیٹی نے پوری جماعت، پوری فوج اور تمام نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو کامریڈ شی جن پنگ کی قیادت میں پارٹی سینٹرل کمیٹی کے ساتھ پوری طرح متحد ہوجانے کی اپیل کی تاکہ چینی روایات والے شی جن پنگ کے سوشلزم کے نئے دور کو مکمل طور پرنافذ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قرارداد کی وجہ سے شی جن پنگ کو چین کے حوالے سے اپنے نظریات کو نافذ کرنے اور سابق رہنماوں کے کرداروں کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پہلی قرارداد جو 1945 میں منظور کی گئی تھی اس سے کمیونسٹ پارٹی پر مائو کے اقتدار اعلیٰ کو مضبوط کرنے میں مدد ملی تھی۔ دوسری قرارداد سے ڈینگ کو اقتصادی اصلاحات کی اجازت مل گئی تھی اور اس میں مائو کے طریقہ کار کو بھی تسلیم کیا گیا تھا۔
کیا یہ قرارداد ضروری تھی؟
شی جن پنگ چیئرمین مائو کے جرنیلوں میں سے ایک کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے ڈینگ زیائوپنگ کے بعد کسی بھی رہنما کے مقابلے میں سب سے زیادہ ذاتی اختیار حاصل کر لیا ہے۔ پارٹی نے 2018 میں صدر کے عہدے کے لیے زیادہ سے زیادہ 68 برس کی عمر کی حد ختم کر دی تھی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شی جن پنگ اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا بظاہر کوئی حریف بھی موجود نہیں ہے۔ ان کی مدت کار میں توسیع سے پارٹی کی دو دہائی پرانی روایت ٹوٹ جائے گی۔ اس روایت کے تحت جنرل سکریٹری کی دوسری پانچ سالہ مدت کے اختتام پر اگلے برس انہیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑتا۔ یاد رہے کہ شی جن پنگ نے بدعنوانی کے خلاف سخت مہم چلائی اور سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ جیسے علاقوں کے حوالے سے جارحانہ پالیسیوں پر عمل کیا۔ شی جن پنگ کے سیاسی نظریات آج چین میں سکول نصاب کا حصہ ہیں اور سات برس کی عمر سے ہی بچوں کو ان نظریات کے بارے میں پڑھا یا جاتا ہے۔
اگر موازنہ کیا جائے ماؤ زے تنگ (پیدائش: 26 دسمبر 1893 – وفات: 9 ستمبر 1976ء) ایک چینی مارکسی عسکری و سیاسی رہنما تھے، انہوں نے چینی خانہ جنگی میں چینی کمیونسٹ جماعت کی قیادت کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور یکم اکتوبر 1949ء کو بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی۔ ماؤ زے تنگ 1945ء سے 1976ء تک چین کی کمیونسٹ جماعت کے چیئرمین رہے جبکہ 1954ء سے 1959 تک عوامی جمہوریہ چین کی صدارت سنبھالی۔ ماؤ زے تنگ جدید تاریخ کی موثر ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں اور’’ ٹائم میگزین ” نے انہیں20 ویں صدی کی 100 موثر ترین شخصیات میں شمار کیا تھا۔
شی جن چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری، صدر عوامی جمہوریہ چین اور مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ وہ 15 جون 1953 کوفوپنگ کاؤنٹی شانکسی صوبہ چین میں پیدا ہوئے۔ پیپلز رپبلک چین کے نائب صدر کی حیثیت سے 2008 سے2013 تک کام کیا۔ 2012 سے جنرل سیکرٹری چین کمیونسٹ پارٹی رہے اور 2013 سے چین کے صدر ہیں۔ شی چن پنگ کے والد کا نام شی زونگ شن تھا جنھوں نے نائب وزیر اعظم چین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ماؤ زیڈونگ کے مسلح کامریڈ بھی تھے۔ مگر جلد ہی پارٹی اور حکومت کی کرم نوازیوں سے محروم ہو گئے، خصوصا ثقافتی انقلاب سے پہلے اور جب انہوں نے ٹیاننمن اسکوائر حادثہ پر کھل کر تنقید کی۔ شی چن پنگ کا بچپن زیادہ تر بیجنگ کی حکمران کلاس کے درمیان گزرا۔ ثقافتی انقلاب کے بعد 1969 میں شی چن پنگ شانکسی صوبے میں چلے گئے اور وہاں چھ سال زراعت کے شعبے سے وابستہ رہے۔
کیمونسٹ پارٹی چین میں شمولیت
1974 میں شی سرکاری طور پر پارٹی کے رکن بن گئے اور برانچ سیکرٹری کے طور پر فرائض سر انجام دینے لگے۔ اس سے اگلے سال بیجنگ سنگھوا یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئر کی پڑھائی شروع کر دی۔ 1979 میں گریجویٹ ہونے کے بعد گینگ بیاؤ کے سیکرٹری کے طور پر تین سال کام کیا جو اس وقت مرکزی چینی حکومت میں نیشنل ڈیفنس کے وزیر تھے۔ 1982میں شی نے بیجنگ چھوڑا اور ہیبائے صوبے میں نائب سیکرٹری کے طور پر تین سال تک کام کرتے رہے۔ 1985 میں پارٹی کمیٹی ممبر اور نائب میئر شیامن (فوجیان صوبہ) تعینات ہوئے۔ اسی صوبے میں شی نے مشہور فوک گائیک پینگ لی یویان سے 1987 میں شادی کر لی۔ 1995 میں صوبے کے نائب پارٹی سیکرٹری کے عہدے تک جا پہنچے۔ 1999 میں شی فوجیان کے عارضی گورنر بنے اور اگلے سال وہ مستقل گورنر بن گئے۔ فوجیان کے سربراہ کے طور پر انہوں نے دو موضوعات ماحولیات اور تائیوان کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کر دی۔ نائب سیکرٹری اور گورنر کے عہدے 2002 تک ان کے پاس رہے، اس کے بعد وہ زی جیانگ صوبے میں وقتی گورنر تعینات ہوئے۔ 2003 میں پارٹی سیکرٹری بن گئے اور اپنی توجہ صوبے کے صنعتی ڈھانچے کو بہتر بنانے پر لگانی شروع کی تاکہ ترقی و بہبود مستقل بنیادوں پر استوار ہو سکے،2007 میں شنگھائی میں مرکزی قیادت کا ایک بحران پیدا ہوا جب پارٹی پنشن فنڈ سکیم کے گھپلے میں ملوث پائے گئے۔
شی جن پارٹی سیکرٹری بن گئے اور انہوں نے اپنی توجہ شنگھائی کے مالیاتی تاثر کو بہتر بنانے پر مرکوز کی۔ یہ عہدہ کچھ دیر ہی شی کے پاس رہا کیونکہ وہ اکتوبر 2007 میں کیمونسٹ پارٹی چین سیاسی بیورو کی مجلس قائمہ کے رکن منتخب ہو گئے۔ شی اس سیاسی ترقی سے ہو جن تاؤ کے متوقع جانشینوں کی فہرست میں شامل ہو گئے جو 2002 سے جنرل سیکرٹری اور 2003 سے عوامی جمہوری چین کے صدر تھے۔ مارچ 2008 میں شی چین کے نائب صدر کے طور پر منتخب ہو گئے، اس دور میں انہوں نے اپنی توجہ کا مرکز بین الاقوامی تعلقات کی بہتری پر رکھا۔ شی کو سنٹرل ملٹری کمیشن کا وائس چیئرمین بنا دیا گیا یہ ایسی پوسٹ ہے جسے ہو نے 2004 سے سنبھالا ہوا تھا اور صدر بننے کے لیے اسے ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ نومبر 2012 میں سی سی پی کی اٹھارویں کانگریس پارٹی میں شی جن دوبارہ مجلس قائمہ کے رکن منتخب ہو گئے، اس کے ساتھ وہ ہو (Hu) کی جگہ جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے۔ اس موقع پر ہو (Hu) نے CMC کی کرسی بھی شی جن کے حوالے کر دی۔ شی 14 مارچ 2013 کو نیشنل پیپلز کانگریس کے صدر منتخب ہو گئے۔
صدر بنتے ہی انہوں نے پہلا بڑا کام ملک بھر میں کرپشن کے خلاف مہم چلا کر کیا۔ چھوٹے بڑے ہزاروں سرکاری افسران کو فارغ کیا گیا۔ شی جن نے قانون کی حکمرانی پر زور دیا اور ساتھ ہی چینی آئین کے ساتھ جڑے رہنے اور عدلیہ میں زیادہ پیشہ ورانہ مہارت کے فروغ کو ضروری قرار دیا تاکہ چینی روایات کے ساتھ سوشلزم کو پروان چڑھایا جاسکے۔ چین نے بین الاقوامی معاملات میں اپنا جارحانہ کردار ادا کرنا شروع کیا جس میں ساؤتھ چائنا سمندر پر اپنی مکمل حاکمیت قرار دینا جبکہ ہیگ میں ثالثی کی مستقل عدالت میں اس کے خلاف فیصلہ آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ "ایک بیلٹ ایک سڑک” اقدام کے تحت مشرقی، مرکزی ایشیا اور یورپی ممالک سے مشترکہ تجارت، انفراسٹرکچر، ترقیاتی پروگراموں کو فروغ دیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے صد سالہ تقریبات کی قرارداد کے بعد شی جن تاریخ کے طاقت ور ترین صدر بن گئے ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران بہت ٹھوس لہجہ اپناتے ہوئے انہوں نے عوام سے کہا کہ چینی قوم اب اس تاریخی راستے پر گامزن ہو چکی ہے جسے پلٹا نہیں جا سکتا۔ چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ وہ دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے جب چینیوں کو قتل کیا یا پھر ڈرایا دھمکایا جاتا تھا۔ چینی قوم کی عظیم الشان زندگی تاریخی شاہراہ پر رواں دواں ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے گزشتہ ایک سو برس کے دوران نہ صرف کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا بلکہ بہت سے جدید اور خوشحال شہر بھی تعمیر کیے۔ چینی عوام صرف پرانی دنیا کو ختم کرنے میں ہی اچھے نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ایک نئی دنیا بھی تشکیل دی اورصرف سوشلزم ہی چین کو بچا سکتا ہے۔ ملک کی سکیورٹی کے حوالے سے صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ ملک کوقومی دفاع اور مسلح افواج کی تجدید کاری کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔