(سرینگر) جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتوں نے منجملہ طور حدبندی کمیشن کی سفارشات کو یکطرفہ اور تعصب پر مبنی قرار دیتے ہوئے انہیں ناقابل قبول قرار دیا۔ اس ضمن میں سیاسی لیڈروں نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجاویز ناقابل قبول ہیں اور انہیں مسترد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے سفارشات کو مسترد کرتے کہا کہ ناقابل قبول ہیں. کمیشن کی سفارشات منظر عام پر آنے کے فوراً بعد ٹویٹر پر لکھا "حد بندی کمیشن کی سفارشات مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔ یہ تعصب پر مبنی ہیں۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ ہے۔”
The recommendations of the delimitation commission are totally unacceptable. They reek of bias. What a shock for those who believe in democracy.
— Sajad Lone (@sajadlone) December 20, 2021
پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نےبھی سفارشات مسترد کرتے ہوئے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا، "حد بندی کمیشن کے بارے میں میرے خدشات غلط نہیں تھے۔ وہ مردم شماری کو نظر انداز کرکے اور ایک خطے کے لیے 6 اور کشمیر کے لیے صرف ایک نشستیں تجویز کرکے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔” قابل ذکر بات یہ ہے کہ محبوبہ نے ہفتہ کے روز جموں و کشمیر کے حد بندی کمیشن کو "بی جے پی کا کمیشن” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں اس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
This commision has been created simply to serve BJPs political interests by dividing people along religious & regional lines. The real game plan is to install a government in J&K which will legitimise the illegal & unconstitutional decisions of August 2019.
— Mehbooba Mufti (@MehboobaMufti) December 20, 2021
جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر، سید محمد الطاف بخاری نے بھی حد بندی کمیشن کی حالیہ تجویز کو مردم شماری 2011 کے ساتھ مطابقت نہیں رکھنے والی قرار دیکر انہیں جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیا۔ حد بندی کمیشن کی تجویز پر میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے، پارٹی صدر نے افسوس کا اظہار کیا کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں عوامی نمائندگی کی خوبیوں اور تقاضوں کو نظرانداز کیا ہے اور اس طرح لوگوں کے خدشات اور خدشات کی تصدیق کی ہے۔ "موجودہ تجویز ملک میں حد بندی کو کنٹرول کرنے والے قوانین کے ذریعہ لازمی عمل اور رہنما خطوط کے بالکل برعکس ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ضلعی علاقوں اور ان کی متعلقہ آبادی کی تعداد کو مدنظر رکھا جانا تھا جو کہ کسی نامعلوم وجہ سے مذکورہ رپورٹ سے غائب ہے،” انہوں نے مزید کہا، نہ صرف آبادی کے معیار کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کمیشن نے موجودہ انتظامی اکائیوں کی نمائندگی کی ضروریات کو ختم کر دیا ہے۔ بخاری نے حکومت ہند پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کمیشن اپنی رپورٹ پر نظرثانی کرے اور میرٹ کو مدنظر رکھے۔ انہوں نے کہا کہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ موجودہ شکل میں ناقابل قبول ہے اوراپنی پارٹی حکومت ہند سے اپیل کرتی ہے کہ وہ اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے تاکہ کمیشن کی رپورٹ کو حتمی شکل دینے سے قبل لوگوں کے درمیان امتیازی سلوک کے خدشات دور ہوجائیں۔
This proposal of the Delimitation Commission is beyond the Constitutional scope and doesn’t seem to be a ‘scientific’ exercise. It also lacks an intellectual integrity
We reject the proposal. Hope that GoI intervenes & ECI revisits its proposal in the interest of people of J&K. https://t.co/7hW8E8IJ6Q
— Altaf Bukhari (@SMAltafBukhari) December 20, 2021
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جموں وکشمیر حد بندی کمیشن کی سفارشات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پر بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا غالب رہا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ کمیشن کی صوبہ جموں کو چھ نشستیں اور کشمیر کے لئے صرف ایک نشست رکھنے کی تجویز سال2011 کی مردم شماری کے مطابق جائز نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’جموں وکشمیر حد بندی کمیشن کی ڈرافٹ سفارشات نا قابل قبول ہیں نئی سیٹوں کی تقسیم کاری میں جموں کو چھ اور کشمیر کے لئے صرف ایک سیٹ سال2011 کی مردم شماری کے مطابق جائز نہیں ہے‘۔ عمر عبداللہ نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا: ’یہ انتہائی مایوس کن بات ہے کہ کمیشن نے اعداد و شمار کے بجائے بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کو غالب رہنے کی اجازت دی ہے‘۔ ان کا ٹویٹ میں مزید کہنا تھا: ’وعدہ کئے گئے سائنسی اپروچ کے برعکس سیاسی اپروچ سے کام لیا گیا ہے۔
It is deeply disappointing that the commission appears to have allowed the political agenda of the BJP to dictate its recommendations rather than the data which should have been it’s only consideration. Contrary to the promised “scientific approach” it’s a political approach.
— Omar Abdullah (@OmarAbdullah) December 20, 2021