زندگی شروع ہوئی تو خبر نہ تھی کیسے ہوئی۔ جو مدت حیات کے دن پورے ہوئے تو رخت سفر باندھ کر ہم چل پڑھتے ہیں! چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اس دوران ایک وقت آتا ہے جسے جوانی کہتے ہیں اور یہی جوانی کے دن ہوتے ہیں اپنے اندر فطری جذبات و احساسات کے ساتھ وفا کرنے کے، جن میں ایک فطری اصول نکاح کا ہے جسے فطرت میں رکھا گیا ہے کہ یا تو ایک آدمی جائز صورت نکاح کی اختیار کرکے فلاح کی اور جاتا ہے یا پھر لذت نفسی کی تکمیل کے لئے جانوروں کی خصائل و نظریات کی پیروی کرتا ہے۔
خیر نکاح سے جہاں انسان کی زندگی میں قرار آتا ہے، احساس ذمہ داری پیدا ہوجاتا ہے، وہیں نکاح کا مرکزی سبب افزائش نسل ہے جو ہر سماج اور ہر مذہب، ملت میں کار خیر تصور کیا جاتا ہے۔
نکاح کے بعد میاں بیوی کا سب سے خوبصورت احساس یہی پنپتا ہے کہ ہمیں ایک خوبصورت اولاد نصیب ہو، اس اولاد کی گلکاری اس کی چہچاہٹ سننے کو دونوں میاں بیوی ہزار خواب سجا لیتے ہیں۔ نگاہوں میں اس میں جہاں مرد اپنی کمائی کی ایک ایک پائی لٹا دیتا ہے وہیں عورت اس بچے کے بوجھ کو لئے پورے نو مہینے انتہائی صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنی کوکھ میں لئے رہتی ہے۔ ماں اسی احساس، اسی کرب کے برداشت کرنے کا نام ہے جو احساس و اُمید گرچہ ماں کو سونے نہیں دیتا، اس کی بھوک مٹا دیتا ہے، اس کے رگ و ریشہ میں درد کا احساس پیدا کردیتا ہے، پر ماں اپنی اس اولاد کو پانے کی خوشی میں ہر تکلیف سہہ لیتی ہے۔
ہم وادی کشمیر کی بات کریں تو یہاں ہم نے اپنے بڑوں سے جو قصے کہانیاں سن رکھی ہیں، ان کا لب لباب یہی ہے کہ بچے کی پیدائش ہونے پر گاؤں یا محلے کی ایک تجربہ کار خاتون کے سامنے ہوتی تھی جو اس ماں بننے والی خاتون کو سہارا دیتی، اس کی ہمت بڑھاتی اور اس کے بچے کی پیدائش کے لئے اس کے سرہانے رہتی جب تک کہ بچہ پیدا نہ ہوجاتا۔ یہ تجربہ کار خواتین محلے اور پوری بستی میں قابل عزت و احترام ہوتی، ہر کوئی ان کی عزت کرتا، ان کی تکریم کرتا۔
پھر دور جدید نے جہاں کئی سماجی معاملات کا گلہ گھونٹ دیا وہیں اس کا بھی گلہ گھونٹ دیا گیا اور زچہ بچہ اسپتال وجود میں آئے جو کہ ایک بہترین کاوش کہلانے کی مستحق تھی، جہاں ہر وقت ماں اور بچے کی دیکھ بال کی جاتی ہے۔ اب خیر سے ہر ملک میں اس کا بہتر اور جدید نظام متحرک ہے اور مختلف سہولیات بھی میسر رہتی ہیں۔
خبر سرینگر کے لل دید اسپتال میں بچے کی موت کی
خیر اس تمہید کے بعد اگر ہم وادی کشمیر میں دیکھیں تو ایک بات ماننی پڑے گی کہ یہاں ہٹ دھرمی اور انانیت کا بھوت ہر جگہ پھن پھلائے ہوئے ہے اور انسانیت شرافت احساس کو مسل رہا ہے، آئے دن ہم یہاں سسکتی انسانیت کو دیکھتے رہتے ہیں اور سرد آہ بھرنے کے سوا کوئی سبیل دیکھائی نہیں دیتی۔ اس آسیب سے چھٹکارا پانے کی سرکاری سطح پر گرچہ بیماروں کی سہولت کے لئے مختلف اقدامات کئے جاتے ہیں، پر سرکاری کارندوں میں کچھ لوگ ایسے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو لباس فاخرہ میں بھیڑیوں کے ساتھی ہی کہلانے کے مستحق ہیں۔
اس بچے کی موت کا سبب بتایا جارہا ہے کہ دو سو روپیہ چائے پانی مطلب رشوت دینے کے لئے میسر نہیں تھے اور بروقت علاج میں آڑے وہ آئے جو اس بیماروں کی معاونت کے لئے موجود رہتے ہیں! یہ جیب کترے کمینہ پن کی انتہا کو تب پہنچ گئے جب انہوں نے بچے کو علاج و معالجہ کے بجائے اپنی جیب بھرنے کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اگریہ سب صحیح ہے تو ان کو معطل کرنا ہماری سمجھ سے آگئے کچھ اور ہے کیوں کہ ان کی غلطی کے سبب بچے کی جان چلی گئی، اس لئے یہ قاتل ہیں اور ان سے قاتلوں سا ہی سلوک مناسب ہے۔
یہ جیب کترے احساس مروت ہمدردی سے عاری ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ دندناتے ہوتے ہیں، جیسے کہ ایک بیوہ نے کہا کہ وہ سخت بیمار تھی اس کی بیوہ گی فنڈ میں کچھ خرابی ہوگی تھی، اب اسے ٹھیک کرنا تھا جس کے لئے فائل ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل تک جانے کے لئے اس کے پاؤں سن ہوگئے اور جب اسے خبر ہوئی کہ چائے پانی کے بنا یہ فائل نہیں سرکتی تب تک تو اسے کچھ اور بیماریوں نے آ دبوچا تھا۔
میں ایک عام کشمیری ہوں، ایسی جگہوں پر آنا جانا رہتا ہے خواہ وہ کوئی سا بھی محکمہ ہو، ایک بڑا آفیسر ہو یا چھوٹا سا چپراسی، اکثریت ان میں ایسی ہی ہے کہ کیا صاحب تنخواہ میں گزارہ ہوجاتا ہے؟ تو کہہ دیتے ہیں اس مہنگائی کے دور میں تو ممکن ہی نہیں۔ بس شکر ہے اللہ کا کہ اوپر کی کمائی سہارا دے رہی ہے! البتہ قحط الرجال کے اس دور میں چند لوگ ہیں جو مروت، محبت و خلوص کے پیکر ہوتے ہیں۔ دو تین سال قبل میرے ساتھ ایسا ہی حادثہ ہوا۔ میری بھانجی موت کی آغوش میں چلی گئی اور میں جب بہن کو دیکھنے اسپتال گیا اور روداد سن لی تو بہن کے آنسو اور اس کی بے بسی نے مجبور کردیا کہ شور مچا لوں، پر ڈاکٹر اور ملازمین نے ایک نہ سنی، بس کہا درخواست دیں، یہ ہوگا وہ ہوگا۔ آپ کو اطلاع کریں گئے! جس اطلاع کے انتظار میں اب میری بہن دو بچوں کی خیر سے والدہ بن چکی ہے، پر وہ اطلاع آنی ہنوز تشنہ ہے۔ ہاں اُس وقت ایک نوجوان معالج میرے پاس آئے، جب ہماری روداد سنی تو روتے ہوئے صرف اتنا کہا بھائی انسانیت مر گی ہے!
یہ رشوت ستانی کی وبا اب مضبوط جڑیں جما چکی ہے۔ اس کا تدارک سرکار کرنے کی خواہاں ہے پر مصیبت یہ ہے کہ اس رشوت کے ملوثین تھوڑی ہی غیر سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ وہ تو سرکاری ہی ہیں! رشوت ایک لعنت ہے جس کی بھینٹ چڑھ رہی انسانیت کے حقوق کا احترام لازم ہے، جس کی ہر مذہب تعلیم دیتا ہے پر یہاں تو اہل مکاتب نے مذاہب کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔ چلیں اس بات کو گرہ میں باندھ لیں کہ جو دوسروں کی خوشیاں برباد کر دیتا ہے، کسی کا سکون اُجاڑ دیتا ہے، اس کی بربادی و تباہی کرنے والی بھی ایک ہستی ہے جو کافی ہے۔ مظلوم و مجبوروں کی طرف سے بس سوائے انتظار کے کیا کیا جاسکتا ہے کہ کب ان ظالموں پر یا کہئے جیب کتروں پر اس ہستی کی مار پڑھتی ہے۔
میں اس والد کی صورت دیکھ کر دکھ درد سے دو چار ہوا، اک ہوک سی اٹھی، اس لئے چند الفاظ لکھ دئے۔ کیا ہم بحیثیت انسان اس جیب کترے والی رسم کا گلہ گھونٹ دینے کے لئے متحرک ہوسکتے ہیں؟ نہیں تو انسانیت ہمدردی سے عاری لوگ یوں ہی نوچ نوچ کر انسانیت، بھائی چارے کا گلہ گھونٹ دینے میں دیر نہیں کریں گئے۔ اور پھر انسانیت مر جائے گی۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک ناسور رکھ کر جائیں گئے، یوں نسل انسانی خود بخود برباد ہوکر رہ جائے گی۔