اردو کی ابتدائی درسی کتب میں بچوں کےلیے حروفِ تہجی اور ساتھ ساتھ اردو سیکھنے کےلیے ’الف‘ سے ’ے‘ تک تصویری شکل میں اردو کا قاعدہ پڑھایا جاتا ہے، تاکہ بچوں کو حروف کے ساتھ چیزوں کی بھی آشنائی ہوسکے۔ فدوی نے بہت سی درسی کتب کا بہ نظرِ عمیق مطالعہ کیا تو کچھ چیزوں پر محسوس کیا کہ اِن پر کام کیا جائے تاکہ مزید بہتری آسکے۔ اُن میں سے جس پر سب سے زیادہ کام کی ضرورت محسوس ہوئی وہ حروفِ تہجی میں ’ح‘ ہے۔ حروف تہجی میں ’ح‘ فارسی زبان کا ’آٹھواں‘ جب کہ عربی زبان کا ’چھٹا‘ حرف ہے۔ اکثر اردو کی کتب میں ’ح‘ کے ساتھ ’حقہ‘ کی تصویر موجود ہوتی ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ’ح‘ سے حقہ پڑھایا اور سمجھایا جائے۔ اکثر مائیں یہ سوال پوچھتی ہیں کہ آخر یہ ’حقہ ‘ ہی کیوں شامل کیا ہے؟ تو ہمارا جواب آئیں بائیں شائیں کرنے کے سِوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ہم بھی اگر اپنے ماضی میں جائیں تو ہمیں بھی ح سے ’حقہ‘ ہی پڑھا یا گیا ہے۔ اُس وقت بھی ہم صرف پڑھ کر اور دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور ہمارا ذہن شش و پنج میں مبتلا رہتا کہ آخر یہ ’حقہ‘ ہے کیا بلا؟ والدہ بھی تھوڑا بہت ہی سمجھا پاتیں، کیوں کہ تشریح کرنا وہ بھی ایک تین یا چار سال کے بچے کے سامنے، جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی چھوٹی عمر میں بچوں کو ’حقہ‘ پڑھایا اور سمجھا جایا جائے؟ کیا ایک تین یا چار سال کے بچے کو یہ سمجھانا مناسب رہے گا کہ ’’بیٹا! حقہ سے مراد تمباکونوشی کےلیے استعمال ہونے والا ایک ایسا آلہ ہے، جو بڑے بزرگ استعمال کرتے ہیں‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ کیا ہم یہ توقع کریں کہ ایک تین یا چار سال کا بچہ اسے سمجھے؟ مزید برآں اگر وہ ہم سے یہ پوچھے کہ بابا! ماما! ابو! امی! یہ حقہ آپ کیوں نہیں پیتے/ پیتیں؟ پہلے تو ہم اپنی بغلیں جھانکیں گے پھر اُس کے بعد ہمارا جواب یقیناً یہ ہوگا کہ نہیں، بیٹا! حقہ پینا بُری بات ہے۔ تو جب بُری بات ہے تو ابتدائی عمر سے ہی اُس ناسمجھ کو جس نے ابھی شعور کی منزل کی ابتدا بھی نہیں کی، آشنائی کیوں دی جارہی ہے؟ یعنی ہم ہی اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے غلط راہ پر لے کر جارہے ہیں۔ کچھ لوگ یقیناً یہ کہیں گے کہ اسے پڑھانا ضروری ہے کیوں کہ گاؤں، دیہات وغیرہ کی روایت میں ’حقہ‘ شامل ہے۔ تو کیا ہم اپنے بچوں کو ’س‘ سے ’سگریٹ‘ بھی پڑھائیں؟ اور پھر جب منع کیا جائے تو ہمارا جواب بھی پھر یہ ہو کہ ہمارے شہر کی روایت میں ’سگریٹ نوشی‘ شامل ہے۔ اس حوالے سے اُن لوگوں (ماہرینِ تعلیم) کو بھی سوچنا چاہیے جو اِن کتب کی تالیف میں شراکت دار ہوتے ہیں۔ بچوں کو ابتدا سے ہی وہ چیزیں سکھائی جائیں جن میں اخلاقی اقدار ہوں، وہ اخلاقی روایات ہوں جو معاشرے میں صحت مندانہ طور پر جانی جاتی ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے دین نے جو اخلاقی قدریں سکھائی ہیں اُن سے بھی بچوں کو ابتدائی کتب کے ذریعے آشنائی کرائی جائے، تاکہ بچہ جو چیزیں ماں کی گود سے سیکھنا شروع کرتا ہے جب وہ اپنی کتابوں میں دیکھے گا تو اسے ایک کشش محسوس ہوگی اور اس میں پڑھائی کا شوق مزید بڑھے گا۔ ح سے ’حقہ‘ کے بجائے اگر ’حاجی‘، ’حکومت‘، ’حاکم‘، ’حافظ‘ یا دوسرے عناصر شامل کرلیے جائیں تو کوئی قباحت نہیں ہوگی بلکہ اس سے بچہ کو آشنائی کے ساتھ ساتھ اس کو اُن چیزوں کا شعور ہوگا جو اس کے گِردونواح میں موجود ہیں۔