صدر آئزن ہاور نے کہا کہ جو کام فوجیں بےپناہ نقصان اٹھا کر کرتی ہیں، وہ سی آئی اے چند ملین ڈالر میں کر دکھاتی ہے۔
ڈاکٹر مصدق 1951 میں امریکی صدر ہیری ٹرومین کے ساتھ (پبلک ڈومین)
عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت بدلنے کے پیچھے امریکی ہاتھ کی موجودگی میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا، اس کا تصفیہ تو آنے والا وقت کرے گا، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے سرد جنگ کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں 72 بار حکومتیں بدلنے کی کوشش کی ہے، اور اس کا پہلی بار انکشاف وکی لیکس میں سامنے آیا تھا۔
1947 سے 1989 کے دوران امریکہ نے 72 حکومتوں کو بدلنے کی کوشش کی۔ وکی لیکس کے مطابق ان میں سے 66 آپریشنز خفیہ تھے جبکہ چھ ایسے تھے جہاں امریکہ نے سرعام حکومتیں گرانے کی کوششیں کیں۔ یہ تمام کے تمام آپریشنز سرد جنگ کے دوران کیے گئے تھے جس میں ایک جانب اگر روس کوئی حکومت بنا رہا تھا تو دوسری جانب امریکہ اسی حکومت کو گرانے کی کوشش میں شریک تھا۔
بغیر جانی نقصان حکومتوں کی تبدیلی
امریکہ نے جن حکومتوں کے تختے الٹے، ان میں سے شاید سب سے معروف واقعہ ایران میں ڈاکٹر مصدق کی منتخب حکومت کی معزولی ہے۔ اس آپریشن کے سربراہ کرمٹ روزویلٹ نے جب اپنے مشن کی کامیابی کی خبر امریکی صدر آئزن ہاور کو دی تو صدر، جو دوسری جنگِ عظیم میں متحدہ فوج کے سپریم کمانڈر تھے، حیرت زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے روزویلٹ سے کہا کہ جو کام فوجیں بےپناہ جانی اور مالی نقصان اٹھا کر کرتی ہیں، وہ سی آئی اے نے ایک بھی امریکی جانی نقصان کے بغیر صرف چند ملین ڈالر میں کر دکھایا ہے۔
ایسا نہیں کہ ہر بار امریکہ فاتح رہا ہو۔ وکی لیکس کے مطابق 72 میں سے صرف 26 حکومتوں کو بدلنے میں امریکہ کو کامیابی ملی جبکہ 40 میں وہ ناکام رہا۔ امریکہ کی جانب سے 36 حکومتیں گرانے کی کوششیں مختلف عسکری و سیاسی گروہوں کی مدد سے کی گئیں۔ سیاسی طور پر صرف پانچ میں کامیابی ملی جبکہ براہ راست فوج کی مدد سے اسے 14 حکومتیں گرانے میں کامیابی ملی۔ حکومتیں گرانے کے 16 واقعات ایسے تھے جہاں انتخابات کے ذریعے من پسند پارٹیوں کو فنڈز دے کر اور مخالف حکومتوں کے خلاف پراپیگنڈا کر کے انہیں ختم کیا گیا۔
تاہم یہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ اگر امریکہ ان امیدواروں کی بر وقت امداد نہ کرتا تو وہ انتخابات جیت پاتے؟ اس حوالے سے سی آئی اے کے ڈائریکٹر رے ایس کلائن نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ حکومتیں بدلنے میں کامیابی کا انحصار صحیح وقت اور درست حکمت عملی پر ہے۔
یہ شان و شوکت تھوڑی دیر کی ہے
مختار مسعود جب آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل تھے تو وہ تنظیم کے ہیڈ کوارٹر واقع تہران میں ان دنوں تعینات رہے جب شاہ ایران کا تختہ الٹا جا رہا تھا۔ انہوں نے ایران میں اپنے قیام کی یادادشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’لوحِ ایام‘ لکھی۔
اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ آر سی ڈی کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے انہیں شہنشاہ ایران نے ایک بار خصوصی دعوت پر اپنے خاص جزیرے پر مدعو کیا۔ تہران سے جو جہاز انہیں اس جزیرے پر لے کر جا رہا تھا اس کا پائلٹ پاکستان ائیر فورس کا سابق آفیسر تھا۔ اس نے راستے میں مجھے اس جزیر ے کی خاصیت اور یہاں ٹھہرائے جانے والے خاص مہمانوں کے بارے میں بتانا شروع کیا کیونکہ یہ اس کے فرائضِ منصبی کا حصہ تھا۔
جب وہ یہ سب کچھ بتا چکا تو کہنے لگا، ’سر، اس جزیرے پر شہنشاہ کے پچھلے مہمان سی آئی اے کے چیف تھے۔ جب میں انہیں یہ ساری باتیں بتا رہا تھا تو ان کے منہ سے نکل گیا کہ ’اب یہ شان و شوکت تھوڑی دیر کی ہے۔‘
پائلٹ نے کہا، ’سر، بظاہر شاہ مضبوط ہے اور ابھی تو اس نے اپنی شہنشاہیت کا اڑھائی ہزار سالہ جشن بھی منایا ہے، پھر سی آئی اے چیف یہ کیوں کہہ رہا تھا؟‘
لیکن بعد کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ ایران میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہاں ایک اسلام پسند حکومت برسر اقتدار آ گئی۔
لیکن یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ امریکہ کا شہنشاہ کی حکومت ختم کرانے میں اگر کوئی کردار تھا تو اس کے بعد جو حکومت برسر اقتدار آئی اس نے تو اب تک ہر جگہ امریکہ کو چیلنج ہی کیا ہے۔
ایران 1953
امریکہ کے معروف جریدے فارن پالیسی میگزین نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا کہ امریکہ نے حکومتیں بدلنے کی روش کا آغاز ایران سے کیا جو بعد میں رکا نہیں بلکہ اب تک جاری و ساری ہے۔
اگرچہ اس سے پہلے شام میں 1949 میں فوجی حکومت کے قیام کے پیچھے بھی امریکی ہاتھ ہی بتایا جاتا ہے، تاہم ایرانی وزیراعظم ڈاکٹر مصدق سرد جنگ کے دوران امریکہ کا پہلا نشانہ بنے۔ 1953 میں جب ایران کے وزیراعظم ڈاکٹر مصدق نے شاہ کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت، جس کا انتظام پہلے برطانوی کمپنیاں چلا رہی تھیں، اسے قومیا لیا تو انہیں نہ صرف حکومت سے بے دخل کر دیا گیا بلکہ گرفتار بھی کر لیا گیا جہاں ان کی باقی زندگی نظر بندی میں گزری۔ بعد ازاں اس حوالے سے امریکہ نے جو خفیہ دستاویزات افشا کیں ان میں کہا گیا تھا کہ اگر اس وقت یہ قدم نہ اٹھایا جاتا تو ایران روسی بلاک میں چلا جاتا۔ یہ وقت تھا جب سرد جنگ عروج پر تھی اور امریکہ کوریا میں روسی اور چینی فوجوں کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ جنگ میں شریک تھا۔
گوئٹے مالا 1954
امریکہ ابتدا میں گوئٹے مالا کے صدر جیکب آربنز کی مدد کر رہا تھا، تاہم جب گوئٹے مالا کے صدر نے زرعی اصلاحات کیں تو امریکی کمپنیوں کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس کے بعد امریکہ نے گوئٹے مالا کے صدر کے مخالف باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا گیا۔ گوئٹے مالا کی بندرگاہ کی ناکہ بندی کر دی گئی جس پر صدر آربنز اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔
انڈونیشیا 1958
اندونیشیا میں سوئیکارنو کی حکو مت کو اس وقت مشکلات پیش آئیں جب اس کے کئی علاقائی کمانڈروں نے جکارتہ سے خودمختاری کا مطالبہ کر دیا۔ فروری 1958 میں سماٹرا اور سلاویسی نے سوئیکارنو کے خلاف اتحاد قائم کر لیا جس میں کئی سیاسی رہنما بھی شامل ہو گئے۔ امریکہ نے کمیونسٹ پارٹی کے خلاف اس اتحاد کو اسلحہ فراہم کیا۔ سوئیکارنو کے حامی اور مخالفین میں جنگ چھڑ گئی اس دوران ایک امریکی جہاز بھی مار گرایا گیا۔
سوئیکارنو نے 1958 تک بغاوت کو کچل دیا جس کے بعد صدر جان ایف کینیڈی نے سوئیکارنو کو واشنگٹن بلایا اور اسے اربوں ڈالر کی امداد دی۔
امریکہ نے کیوبا میں فیدل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی متعدد بار کوشش کی لیکن ناکام رہا
کیوبا 1959
امریکی صدر آئزن ہاور اور کینیڈی نے کیوبا کے صدرفیڈل کاسترو کے مخالف رہنماؤ ں کو اسلحہ اور مالی مدد فراہم کی تاکہ وہ کاسترو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر سکیں۔ سی آئی اے نے فیڈل کاسترو کو مارنے کے لیے کئی بار کوششیں کیں مگر اسے ہر بار ناکامی ہوئی۔
کانگو 1960
کانگو کی آزادی کے بعد جب وہاں کے وزیراعظم پیٹریس لمومبا کی جانب سے بیلجیئم کے معاشی مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو کانگو کے صدر نے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جس پر برطرف وزیراعظم نے روس کی طرف رجوع کر کے فوجی مدد حاصل کر نے کی کوشش کی تو انہیں سی آئی اے نے نشانہ بنایا۔ اسے پہلے زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکامی پر انہیں پہلے گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں مار دیا گیا۔
عراق 1960-63
عراقی وزیراعظم عبد الکریم قاسم نے دو سال پہلے مغربی حمایت یافتہ عراقی آمر فیصل دوم کو نکال باہر کیا تھا۔ ان کی حکومت میں کمیونسٹ پارٹی کا اثر رو رسوخ بڑھ رہا تھا اور وہ کویت پر حملہ کرنے کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے جس پر عراق اور برطانیہ کے درمیان جنگ کی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔
امریکہ نے قاسم کو قتل کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی۔ قاسم کی کابینہ کے 16 ممبران میں سے 12 بعث پارٹی کے ارکان تھے جب قاسم نے جمال عبد الناصر کی جانب سے متحدہ عرب رپبلک قائم کرنے کی تجویز کی حمایت نہیں کی تو وہ اس کے خلاف ہو گئے اور آٹھ فروری 1963 کو قاسم کو بعث پارٹی کے ایک سکواڈ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
امریکہ نے نئی حکومت کے ساتھ اتحاد بنا لیا مگر جلد ہی احمد حسن البکر نے امریکی حمایت یافتہ صدر عبد السلام کو نکال باہر کیا۔
ڈومینکن رپبلک1961
رافیل تراجیلو کی آمریت کے دوران ڈومینکن رپبلک میں ہیٹی کے ہزاروں باشندوں کو نسل پرستانہ فسادات کے دوران مار دیا گیا اور وینزویلا کے صدر کو بھی ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی جس پر اسے سیاسی مخالفین کی جانب سے قتل کر دیا گیا۔ اگرچہ ا س کے قاتل نے بیان دیا کہ اس نے یہ قتل کسی کے کہنے پر نہیں کیا مگر بعد ازاں معلوم ہوا کہ اسے تین پستول اور گولیاں امریکہ کی جانب سے فراہم کی گئی تھیں۔
جنوبی ویت نام 1963
امریکہ جنوبی ویت نام میں کافی اثر رسوخ حاصل کر چکا تھا کہ وہاں کے صدر ناگو دن نے بدھ مت سے تعلق رکھنے والے مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا جس پر امریکہ اور اس کے درمیان تناؤ پیدا ہو گیا۔
پینٹا گان پیپرز کے مطابق 23 اگست 1963 کو جنوبی ویت نام کے کچھ جرنیلوں نے ایک پلان امریکی حکام کے سامنے رکھا جس کے بعد جرنیلوں نے اسی سال یکم نومبر کو صدر کو ہلاک کر دیا۔ اس کے لیے سی آئی اے فنڈز سے 40 ہزار ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔
برازیل 1964
امریکہ کے برازیل میں سفیر لنکن گورڈن نے لکھا کہ برازیلی صدر جاؤ گولارٹ برازیل کو چین کی طرز پر آگے لے کر جا رہے ہیں۔ جس پر امریکہ نے برازیل کی فوج کے سربراہ کاسٹیلو برانکو کے ذریعے 1964 میں برازیل کے صدر کا تختہ الٹ دیا۔ اس دوران سی آئی اے نے صدر کے خلاف مظاہرین کو پیسہ اور اسلحہ دیا۔ اس وقت کے امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے حکم دیا تھا کہ برازیلی صدر کو اس کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے۔ جس کے بعد 1985 تک برازیلی فوج نے ملک پر حکومت کی۔
11 ستمبر 1973 کو چلی کے صدارتی محل پر حملہ
چلی 1973
1970 میں جب ایک سوشلسٹ رہنما سالواڈور الیاندے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے صدر بن گئے تو صدر رچرڈ نکسن نے سی آئی اے کو ہدایت کی کہ چلی کی معیشت کو تباہ کر دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے سی آئی اے نے چلی کے تین گروہوں کے ساتھ کام کیا اور انہیں اسلحہ فراہم کیا، مگر یہ سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد جنرل آگستو پنوشے کے ذریعے صدر کے خلاف 1973 میں بغاوت کروائی گئی جس نے اپنے مخالفین کو چن چن کر قتل کیا مگر سی آئی اے نے نئی حکومت کی مدد جاری رکھی۔
افغانستان 1979-89
اپریل 1978 میں کمیونسٹ نظریات رکھنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان اقتدار میں آ گئی جس کے خلاف مشرقی افغانستان میں بغاوت شروع ہو گئی۔
جلد ہی اس بغاوت نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔ روس نے حکومت کی مدد کے لیے اپنی فوجیں بھیج دیں دوسری جانب امریکہ نے پاکستان میں باغیوں کی مدد کے لیے تربیتی کیمپ قائم کر لیے۔ ستمبر1979 میں صدر نور محمد ترکئی کو حافظ اللہ امین کے لوگوں نے قتل کر دیا۔ بعد میں حافظ امین کو روسی فوج نے قتل کر دیا۔
آنے والے سالوں میں افغانستان، امریکہ اور روس کے درمیان میدان جنگ بن گیا۔ امریکہ نے پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کو اربوں ڈالر دیے جس کی وجہ سے سرخ فوج کو افغانستان میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ترکی 1980
ترکی میں 12ستمبر1980 کی فوجی بغاوت سے ایک روز پہلے تین ہزار امریکی فوجی ترکی پہنچے۔ 1981 کے اختتام پر امریکن ٹرکش ڈیفنس کونسل کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ ترکی میں کامیاب فوجی بغاوت کے بارے میں انقرہ میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف پال ہنزے نے تسلیم کیا کہ ترکی کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کارنامہ ہمارے لوگوں نے سر انجام دیا ہے۔
پولینڈ 1980-81
جب پولینڈ میں روسی افواج حرکت میں آئیں تو امریکہ نے پولینڈ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور عوامی رابطہ مہم چلائی اور روسی مداخلت کے خلاف حکومت کی مدد کی۔
نکارا گوا 1981-90
سی آئی اے نے سندنیستا کی حکومت کو ختم کیا، نکارا گوا کی بندرگاہ کو تباہ کر دیا اور حکومت مخالف عسکری گروہوں کو اسلحہ فراہم کیا۔
عالمی عدالت انصاف نے نکارا گوا کی منتخب حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کرنے پر امریکہ کے خلاف فیصلہ دیا، جس کے بعد 1984 کے عام انتخابات میں سندنیستا کی جماعت جیت گئی، لیکن امریکہ نے وہاں مخالف جماعتوں کی مدد جاری رکھی جس کی وجہ سے 1990 میں سندنیستا کی حکومت ختم ہو گئی اور ان پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کر دیے گئے۔
کمبوڈیا 1980-95
امریکہ نے کمبوڈیا میں روسی مخالفین کو مدد فراہم کی اس دوران خانہ جنگی میں چار لاکھ 60 ہزار لوگ مارے گئے۔ کمیونسٹ حکومت کو کمبوڈیا کے بیس لاکھ لوگوں کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
انگولا 1980
انگولا میں کیوبا کی حمایتی حکومت اور جنوبی افریقہ کی حمایت یافتہ عسکری گروہوں کے درمیان خانہ جنگی میں دس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ ریگن انتظامیہ نے کمیونسٹ مخالف باغی گروہوں کو مدد فراہم کی جنہوں نے حکومت کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا اور اقتدار حاصل کر لیا۔ تاہم امریکی حمایت یافتہ رہنما سومبی کو فوج نے 2002 میں قتل کر دیا۔ اس کے بعد سے انگولا دو متحارب گروہوں میں تقسیم ہے۔
فلپائن 1986
امریکہ نے کئی دہائیوں تک صدر مارکوس کی حمایت کی لیکن پھر اچانک اس نے مارکوس کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور اکی ہینو کے حق میں دستبردار کروایا۔
افغانستان 2001
امریکہ نے 11 ستمبر کے حملوں کو جواز بناتے ہوئے طالبان کی حکومت ختم کر کے اقتدار شمالی اتحاد اور دیگر اتحادی رہنماؤں کے سپرد کیا۔ تاہم 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
عراق 2002-03
وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صدام حکومت کا خاتمہ کر دیا اور بعد ازاں صدام حسین کو نئی عراقی کی جانب سے پھانسی دے دی گئی۔
ہیٹی 2004
ہیٹی کے صدر جین برٹرنڈ جب دوسری بار صدر منتخب ہوئے تو ان کے خلاف بغاوت کروائی گئی اور انہیں گرفتار کروا کر امریکی جہاز میں ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔
غزہ 2006
2006 میں فلسطین میں ہونے والے انتخابات میں حماس اور الفتح نے کامیابی حاصل کر کے متحدہ حکومت بنائی جس کی سربراہی اسماعیل ہنیہ کر رہے تھے۔ 2007 میں حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا اور الفتح کے حکام کو برطرف کر دیا جس میں ہونے والی جھڑپوں میں 118 افراد مارے گئے۔ اسی سال امریکہ نے الفتح کے رہنما صدر عباس کو 8.4 کروڑ ڈالر فراہم کیے تا کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکے۔ امریکہ نے حماس کو دہشت قرار دیتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کی مدد کی۔
صومالیہ 2006-07
امریکہ 2006 سے صومالیہ کے اسلام مخالف جنگی سرداروں کی مدد کر رہا ہے۔ صومالیہ میں اگرچہ اسلامک کورٹ یونین کی عمل داری ہے تاہم ا س پر خواتین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔
ایران 2005 تا حال
امریکہ ایرانی حکومت کے خلاف کام کرنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے لوگوں کو سالانہ 30 لاکھ ڈالر دے رہا ہے جو ایران اور ایران سے باہر حکومت کے خلاف سماجی میڈیا اور دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔
امریکی کانگریس نے 2006 میں ایرانی حکومت مخالف گروہوں کی مدد کے لیے ’فریڈم اینڈ سپورٹ ایکٹ‘ منظور کیا جس کے تحت انہیں سالانہ ایک کروڑ ڈالر کی امداد دی جا رہی ہے۔
امریکی چینل اے بی سی نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ 2007 میں صدر بش نے ایران میں بغاوت کے لیے 40 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کی منظوری دی تھی۔
سی آئی اے نے سنی تنظیم جند اللہ کی مدد بھی کی۔ اسی طرح امریکہ ایران میں برسر پیکار تنظیموں کی مدد بھی کر رہا ہے تاکہ وہاں حکومت بدلی جا سکے۔
لیبیا 2011
عرب بہار کے دوران جب لیبیا میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تو امریکہ نے وہاں اپوزیشن کی مدد کے لیے اسلحہ فراہم کیا اور قذافی کی فوجوں پر بمباری کی جس کی وجہ سے کرنل قذافی کی حکومت ختم ہو گئی اور انہیں ہلاک کر دیا گیا۔
شام 2012 تا حال
صدر اوباما نے شام میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنے اداروں کو احکامات دیے۔ 2012 میں ’فری شام‘ نام کی ایک فوجی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور انہیں ہتھیاروں اور دیگر امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی مدد فراہم کی گئی۔ باغیوں کو سی آئی اے نے ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ تاہم امریکی حمایت یافتہ باغی گروہ شام کی خانہ جنگی میں مسلسل شکست سے دوچار ہیں لیکن امریکہ ان کی مدد مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا ہے روس کی افغانستان میں مداخلت سے لے کر 11 ستمبر کے حملوں کے بعد سے افغانستان میں امریکی مفادات کو جب جب خطرہ ہوا پاکستان نے ہمیشہ صف ِ اوّل کا کردار ادا کیا۔
ان دونوں مرحلوں پر اقتدار براہ راست فوجی حکمرانوں کے پاس رہا ہے، اس لیے ایک عام تاثر ہے کہ پاکستان میں فوجی اقتدار کو امریکی مدد حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس بات کا اعتراف امریکہ کی کسی دستاویز میں سامنے نہیں آیا بلکہ 11 ستمبر کے بعد ہونے والی جنگ میں پاکستان پر الزام ہے کہ اس نے درپردہ امریکی مخالفین کو مدد فراہم کی ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاک امریکہ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ لیکن روس یوکرین جنگ کے بعد سے پاکستان پر امریکہ کا شدید دباؤ ہے کہ وہ اس جنگ میں مغرب کا ساتھ دے۔
اسی پس منظر میں عمران خان نے اپنی حکومت کو گرائے جانے کے پیچھے امریکی ہاتھ کی موجودگی کا الزام عائد کیا ہے۔