امت نیوز ڈیسک : پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت زیر حراست صحافی فہد شاہ کی تحویل کو ریاستی تحقیقاتی ایجنسی کی طرف سے ایک کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر (جے آئی سی) جموں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق "یہ معاملہ 11 سال قبل فہد کی آن لائن نیوز میگزین ( thekashmirwalla.com) پر ایک پی ایچ ڈی اسکالر کی جانب سے لکھے گئے مضمون سے متعلقہ ہے۔ اس اسکالر کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ 6 نومبر 2011 کو شائع ہونے والا یہ مضمون "انتہائی اشتعال انگیز، فتنہ انگیز اور جموں و کشمیر میں بدامنی پھیلانے کے ارادے سے لکھا گیا ہے۔”
وہیں تیسرے ایڈیشنل سیشن جج، جموں کی طرف سے 18 مئی کو ایک حکم جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ پوچھ گچھ کے دوران، مصنف/ اسکالر (عبدالعلا فاضلی) نے "دی شاکلس آف سلوری ویل بریک” کے عنوان سے مضمون لکھنے سے انکار کیا ہے، لہٰذا، ” تحقیقاتی ایجنسی حقائق سامنے لانے کے لیے ‘thekashmirwalla.com’ کے ایڈیٹر انچیف (فہد شاہ) کی تحویل ضروری ہے۔” تین اضلاع پلوامہ، شوپیاں اور سرینگر کی طرف سے مختلف مقدمات میں گرفتار کیے جانے کے بعد شاہ کے خلاف پی ایس اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ یہ پانچواں معاملہ ہے جس میں ان پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اب جے آئی سی میں ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔
فہد کے بڑے بھائی عاقب شاہ کا کہنا ہے کہ "میرے بھائی فہد شاہ کو کشمیر والا میں 2011 میں عبدالعلا فاضلی کے لکھے ہوئے ایک مضمون کے لیے ریمانڈ پر لیا گیا ہے۔ جہاں تک پی ایچ ڈی اسکالر کا تعلق ہے تو ان کی مختلف مطبوعات میں تحریریں موجود ہیں۔ حیرت ہے کہ ان ایڈیٹرز کو طلب یا ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جاتی؟” واضح رہے کہ 33 سالہ شاہ مارچ 2022 سے ڈسٹرکٹ جیل کپواڑہ میں قید تھے۔ اس کے بعد ان کی تین بار گرفتاری ہوئی اور دو بار ضمانت ملی۔ شاہ کے خلاف پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ "صحافت کی اخلاقیات کے خلاف کام کر رہے ہیں” اور "ملک دشمن مواد پوسٹ کر کے پیشے کا غلط استعمال کرتے ہیں جس سے ملک کی خودمختاری اور اتحاد پر منفی اثر پڑتا ہے۔”