(نیویارک) ایک نئی امریکی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ چین، بھارت اور پاکستان کے رہنما، جوہری ممالک کے درمیان مسلح تصادم کے خدشات اور قیمت سے واقف ہیں لیکن خطے میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی جنگ کی آگ کو بھڑکا سکتی ہے۔ امریکہ کے وفاقی ادارے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) نے یہ مشاہدہ رواں ہفتے جاری ہونے والے اپنے سینئر اسکالرز کے مطالعے کی حتمی رپورٹ میں کیا۔ رپورٹ میں جنوبی ایشیا میں تزویراتی حالات کی تبدیلی کے سبب درپیش چیلنجوں کا جائزہ لیا گیا ہے، امریکی پالیسی کے متعدد پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور امریکی پالیسی سازوں کے لیے ترجیحی سفارشات کا ایک سیٹ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں امریکا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جوہری خطرے میں کمی کے اقدامات پر ازسرنو توجہ مرکوز کرے، جس کا آغاز دوطرفہ معاہدوں اور طریقوں کی معاونت سے بھارت-پاکستان جوہری ہاٹ لائن کے قیام سے ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ واشنگٹن میں پالیسی سازوں کو بھارت اور چین دونوں پر زور دینا چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اسٹریٹجک استحکام کے لیے مذاکرات کریں اور انہیں علاقائی اور عالمی تزویراتی استحکام پر ایک نئے عبوری علاقائی فورم کا خیال بھی اٹھانا چاہیے جس میں نیوکلیئر-7 (این 7) ممالک چین، فرانس، بھارت، پاکستان، روس، برطانیہ اور امریکا شامل ہوں گے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس فورم کو جوہری اصولوں کو مستحکم کرنے کے بارے میں بات کرنی چاہیے اور اسے مضبوط کرنا چاہیے۔ رپورٹ میں یہ تصور کیا گیا کہ امریکا اور بھارت کے درمیان مضبوط دفاعی تعلقات علاقائی ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافے یا جوہری بحران کے امکانات میں اضافے کے بغیر روایتی اور جوہری رکاوٹ کو مستحکم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یو ایس آئی پی، بائیڈن انتظامیہ پر یہ بھی زور دیتا ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان میں مقیم دہشت گردوں کی جانب سے علاقائی استحکام کو لاحق خطرات کم کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ اپنے جاری مذاکرات اور پاکستان کے ساتھ اقتصادی اور مالی فائدے کا استعمال کرے، اس نکتے پر مزید زور دینے کے لیے رپورٹ میں بھارت مخالف دہشت گردوں کو امریکی خدشات اور اہداف کی ترجیح قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ قومی سرحدوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے رپورٹ کا استدلال ہے کہ ڈیٹرنس منطق یہ بتاتی ہے کہ بیجنگ، اسلام آباد اور نئی دہلی کو اپنی سرحدوں پر کمزور نظر آنے کے لیے بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ہمسایوں کی جانب سے مہم جوئی یا غنڈہ گردی کی حوصلہ افزائی کا خوف قوموں کے لیے تنازعات کو اس انداز میں آگے بڑھانے کے زیادہ امکان کا سبب بنتا ہے جس سے معمولی جھڑپوں کو بڑے تعطل میں بدلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس میں نشاندہی کی گئی کہ کشمیر میں 2019میں عسکریت پسندانہ حملے جواب میں پاکستان میں بھارتی فضائی حملوں کا سبب بنے جس کے بعد پاکستان نے بھارت میں جوابی کارروائی کی۔ اسی طرح 2020 میں بھارت اور چینی سرحدی دستوں کے درمیان خطرناک جھڑپوں نے دونوں فریقین کو بلند پہاڑی سطح پر ٹینک اور توپ خانے بھیجنے پر اکسایا۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ مارچ 2022 جیسے حادثات غیرمتوقع طور پر اس سلسلے کا حصہ بن جاتے ہیں جب ایک بھارتی ہائپرسونک کروز میزائل کے پاکستانی علاقے میں فائر کیا گیا تھا۔ جنوبی ایشیا کی جوہری طاقت سے لیس ریاستوں کے درمیان بحرانوں کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے لیے رپورٹ میں امریکا پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے پالیسی سازوں کو انٹیلی جنس کمیونٹی کے اندر گیمنگ مشقیں کر کے خطے میں پیچیدہ جوہری بحران ڈپلومیسی کے لیے تیار کرے۔ رپورٹ میں بھارت-پاکستان، بھارت-چین اور بھارت-پاکستان-چین بحرانو ں سے نمٹنے کے لیے ایک عمومی پالیسی پلے بک تیار کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے، ایک اور تجویز یہ ہے کہ ان منصوبہ بندی کی دستاویزات کی تفصیلات کو تمام آنے والے سینئر حکام کے ساتھ معمول کے مطابق شیئر کیا جائے۔ رپورٹ میں واشنگٹن پر زور دیا گیا ہے کہ وہ علاقائی بحرانوں کے لیے اپنے اشارے اور انتباہ کو بہتر بنائے اور معلومات کو عوامی طور پر اور علاقائی ذمہ داران کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار ہو تاکہ ایسی صورتحال میں غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے جہاں اس سے تنازع کو روکا یا اس کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میں واشنگٹن پر زور دیا گیا ہے کہ وہ نئی دہلی کی معلومات اور مواصلاتی چینلز کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کرے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ چین، بھارت، اور پاکستان نے زیادہ طاقتور مخالفین کے ساتھ تنازعات کو روکنے کے ایک طریقے کے طور پر جوہری صلاحیتیں تیار کی ہیں جن میں بالترتیب امریکا، چین اور بھارت شامل ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سب یقین دہانی کرائی گئی سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیتوں کے ساتھ جوہری ٹرائیڈ فیلڈ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں سیکیورٹی کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوا ہے، ہتھیاروں کی دوڑ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، علاقائی تزویراتی استحکام میں خلل پڑتا ہے اور بحران کے جوہری حد کو عبور کرنے کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔