معاشرے کی اخلاقیات آج جس تیزی سے بدل رہی ہیں اس میں تصور زندگی اور تصور عورت بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔
جو رسوم کبھی ہماری تہذیب میں بالکل اجنبی تھیں، عام لوگ اب ان کو اور ان کے کرداروں کو اپنانے، اس طرح بننے کی خواہش اور کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہم صنف نازک کی بات کریں، تو ہماری تہذیب اور روایات عورت کو، اس کی صلاحیتوں کو، ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، بلکہ مشرق اسے ایک متوازن طرز حیات اور اجتماعی نظام عدل کی تشکیل میں ضروری سمجھتا ہے اور اس کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ بھی مقرر کرتا ہے۔
عورت ، معاشی جدوجہد کے عنوان سے جو کردار ادا کر رہی ہے، اس میں اخلاقی ضوابط کا لحاظ بہرحال ضروری ہے۔ ورنہ معاشی ترقی ممکن نہیں۔ بحیثیت عورت ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مشرقی معاشرے، مغرب کی طرح نہیں چل سکتے۔ ہماری اپنی روایات و اقدار اور رسوم و رواج ہیں، جنھیں کسی صورت چھوڑا نہیں جا سکتا۔ عورت کو عزت و احترام کی نظر سے جس طرح ہمارے معاشرے میں دیکھا جا تا ہے، وہ نہ کسی مغربی معاشرے میں ہے اور نہ کسی مذہب میں، وہ ہر رشتے اور تعلق میں مہربان اور شفیق ہے، ہماری نسلوں کو سنوارنے کی ذمہ داری مرکزی طور پر اسی کے کندھوں پر ہے۔
اگرچہ معاشی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم ہے، لیکن ہمیں یہاں اس پہلو کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ س کی شرکت سے مراد یہی نہیں کہ وہ ضرور ہی گھر سے باہر نکل کر ملازمت کرے، وہ پس پردہ رہ کر بھی اپنا کردار بخوبی نبھا سکتی ہیں۔
گھر معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ جس کی مضبوطی، خاندان اور اس سے آگے بڑھ کر مستحکم معاشرے کی تشکیل میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ایک عورت گھر بیٹھے سلائی، کڑھائی، بُنائی، یا پکانے میں مہارت رکھتی ہے اور اپنے گھر کو چلانے کی بہترین استعداد رکھتی ہے، تو اس طرح وہ گھر کی خوش حالی کا باعث بنتی ہے۔
ضروری نہیں کہ آپ سماجی رنگوں میں رنگ جائیں اور اس کا جزو بنیں۔ آج کی گلیمرائزڈ دنیا کی ضرورت کہیں یا مجبوری کہ اس میں عورت کو سجا سنوار کر پیش کیا جاتا ہے۔ جس کی ہماری تہذیب میں ضرورت نہیں۔ اگر وہ گھر سے نکل کر معاش کے لیے محنت کر رہی ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے تشخص کو پامال کیا جائے اور اس کی حیثیت کو کم کیا جائے۔
آج کی عورت بہ یک وقت مختلف میدانوں میں سرگرم عمل ہے۔ اگر ایک طرف اسے گھریلو محاذ پر کام کرنا پڑ رہا ہے، تو دوسری طرف بیرونی امور پر بھی وہ ڈٹی ہوئی ہے۔ اپنی جسمانی کیفیت اور کمزوریوں کے سبب اسے خوف و ہراس اور عدم تحفظ کے مسائل بھی درپیش ہیں۔
عورت کو اپنے وقار اور اعتبار کو بھی قائم رکھنا ہے اس کی عزت وتکریم جب تک برقرار ہے، جب تک وہ اپنے گھر کے دائرہ کار کو بھی اتنی ہی اہمیت دے۔ گھر کو گھر ہی رہنے دینا ہے، اسے سرائے نہیں بنائے۔ اسلام عورت کو عدل پر مبنی نظام عطا کرتا ہے۔ اسے معتبر کرتا ہے۔ عورت حقوق کے لحاظ سے تو مرد کی مساوی ہے لیکن فرائض کے حوالے سے مختلف ہے۔ جب فرائض کی آگاہی حاصل ہوتی ہے، تو حقوق خودبخود ملنے لگتے ہیں۔
بس یہ یاد رہے کہ عورت کو اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے مرد بننے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ دونوں ہی اصناف مختلف ہیں، یعنی کوئی تو مصلحت ہے قدرت کی، کہ ہر جگہ جوڑے بنائے، ورنہ خالق کائنات کو کیا مشکل تھا کہ وہ ایک ہی صنف میں ڈھال دیتا، اس لیے ہمیں فطرت کے اس تقاضے کو سمجھنا چاہیے اور اسے ہی سامنے رکھتے ہوئے تسلیم کرانا چاہیے کہ عورت عورت ہے اور مرد مرد ہے۔
ان دونوں کے دائرہ کار مختلف ہیں۔ نہ ان میں مقابلہ ہے، نہ مسابقت۔ اس لیے کوئی ’صنفی جنگ‘ نہیں ہونی چاہیے! دونوں کی ترجیحات کا تعین بھی ان کے معاشی و معاشرتی حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ خصوصاً خواتین کی تعلیم، صحت، تحفظ، ترقی کی پاس داری کرے۔ اس کا استحصال نہ کیا جائے۔ وہ اپنے گھر اور بچوں کی امین ہے ان کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ہیں، جو ایک ساتھ ناتواں بھی ہیں اور حالات کے بدلاؤ میں مضبوط بھی۔ وہ شیشے کی سے نازک بھی ہے، لیکن وقت کی رفتار کے ساتھ چٹان بھی بن جاتی ہے۔
جسمانی طور پر وہ کمزور سہی، لیکن جتنی قوت برداشت وہ رکھتی ہے، اس سے صَرفِ نظر ممکن نہیں۔ وہ سراپا وفا اور امانت دار ہے اور مرد اس پر نگراں، ایک اعتدال پسند معاشرے میں دونوں اصناف میں توازن بے حد ضروری ہے۔ ایک اچھے سماج میں عورت کا مقام بلند ہوتا ہے اور ساتھ اسے مکمل تحفظ اور امان بھی دی جاتی ہے۔