سری نگر// جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے فلاح عام ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اسکولوں پر پابندی عائد کرنے کو امتیازی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں نوے فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے یہاں ان کی ہر سرگرمی پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو اپنے ملک کے مسلمان اچھے نہیں لگتے ہیں جبکہ وہ باہر کے مسلمانوں کے ساتھ گلے ملتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر فائلز نامی فلم سے کشمیری پنڈتوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا لکین اس کے بنانے والے نے دو سو کروڑ روپیے کما لئے۔
موصوف صدر نے ان باتوں کا اظہار بدھ کے روز یہاں نامہ نگاروں کے سوالوں کئے جواب دینے کے دوران کیا۔
فلاح عام ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اسکولوں پر پابندی کے بارے پوچھے جانے پر انہوں نے کہا: ’یہ غلط ہے یہ ایک امتیازی قدم ہے کہیں نہ کہیں کشمیر کو ٹارگیٹ بنایا جا رہا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ اتر پردیش یا گجرات نہیں ہے یہاں نوے فیصد مسلمان رہتے ہیں ان کی ہر سرگرمی پر کیسے پابندی لگائی جا سکتی ہے‘۔
بی جے پی لیڈروں کی مبینہ توہین رسالت کے بارے میں پوچھے جانے پر مسٹر لون نے کہا کہ بھاجپا کو ملک کے مسلمان اچھے نہیں لگتے ہیں لیکن وہ باہر کے مسلمانوں کے ساتھ گلے ملتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ان کو خلیجی ممالک کا اللہ اچھا لگتا ہے لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کو اللہ اچھا نہیں لگتا ہے ان کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ ہمارا اللہ، ہمارے رسول(ص) ایک ہیں‘۔
حالیہ ٹارگیٹ ہلاکتوں کے حوالے سے سجاد لون نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا: ’کشمیری پنڈتوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے وہ شکار بن رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا: ’کوئی فلم لے کر آتا ہے اس فلم کے بنانے والے کو دو سو کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے لیکن کشمیری پنڈتوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا: ’یہ لوگ نفرتوں کے سودا گر ہیں اور یہاں نفرتیں پھیلانے سے ہی کچھ لوگوں کی دکانیں چل رہی ہیں‘۔
انتخابات کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف صدر نے کہا کہ عوامی حکومت ہی سب سے اچھی حکومت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا: ’لوگ پریشان ہوں یا نہ ہوں الیکشن ہونے چاہئے کیونکہ عوامی حکومت ہی سب سے اچھی حکومت ہوتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں جموں وکشمیر کے لوگوں میں سے ہی کوئی حکمران ہونا چاہئے کیونکہ وہی یہاں کے مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہے۔
سجاد لون کا کہنا تھا: ’سیکورٹی فورسز پچھلے بیس برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ یہاں دو سو ملی ٹنٹ موجود ہیں تب سے پانچ ہزار مارے گئے لیکن دو سو کی تعداد کم نہیں ہو رہی ہے‘۔
انہوں نے کہا: ’ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ دو سو ماریں گے تو دو سو پیدا ہوں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کی تاریخ میں غیر کشمیری ہی کشمیر کے امور کا ماہر ہوسکتا ہے۔