(نیویارک) اقوام متحدہ کے عہدیدار نے روس یوکرین جنگ کو فوری طور پر روکنے اور یوکرینی بندرگاہ کھولنے کا مطالبہ کردیا جس سے ماہانہ بنیادوں پر 45 لاکھ ٹن زرعی مصنوعات برآمد کی جاتی تھیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر روس یوکرین جنگ کے بحران پر قابو نہ پایا گیا تو عالمی سطح پر قحط سالی، عدم استحکام اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو جہنم بننے سے روکنے کےلیے روس یوکرین جنگ کو فوری طور پر روکنا ہوگا اور یوکرین کی بندرگاہ کھولنا ہوگی جہاں سے ہر ماہ 45 لاکھ ٹن زرعی مصنوعات برآمد کی جاتی تھیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر کے مطابق برآمد کی جانے والی زرعی مصنوعات میں 12 فیصد گندم، 15 فیصد کورن آئل اور 50 فیصد سن فلاور سمیت کئی مصنوعات شامل ہیں۔ ڈیوڈ بیسلے نے کہا کہ دنیا بھر میں 40 کروڑ افراد نے گزشتہ برس یوکرینی اجناس سے پیٹ بھرا تھا اور اب کروڑوں افراد غذا کی عدم فراہمی کا شکار ہیں۔
دریں اثنا برطانوی فوج کے آرمی چیف نے فوجیوں کو میدان جنگ میں روس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا۔ بی بی سی کے مطابق جنرل سر پیٹرک سینڈرز، جنہوں نے گزشتہ ہفتے ہی بحیثیت فوج کے سربراہ کے عہدہ سنبھالا ہے، نے کہا کہ وہ 1941 کے بعد سے پہلے چیف آف دی جنرل اسٹاف ہیں جنہوں نے یورپ میں ایک بڑی براعظمی طاقت پر مشتمل زمینی جنگ کے سائے میں فوج کی کمان سنبھالی۔ انہوں نے مزید کہا کہ روس کا یوکرین پر حملہ ہمارے بنیادی مقصد کی نشاندہی کرتا ہے؛ برطانیہ کی حفاظت کرنا اور زمین پر جنگ لڑنے اور جیتنے کے لیے تیار رہنا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین جنگ طاقت کے ذریعے روسی جارحیت کو روکنے کے جذبے کو تقویت دیتا ہے۔ جنرل سر پیٹرک نے “نیٹو کے دائرہ کار کو وسعت دینے اور روس کو یورپ پر مزید قبضے سے روکنے کے لیے برطانوی فوج کی نقل و حرکت اور اس میں جدت لانے کا اپنا ہدف بھی بیان کیا۔ انہوں نے کہا، ’ہم وہ نسل ہیں جو فوج کو یورپ میں ایک بار پھر لڑنے کے لیے تیار کرے گی‘۔ واضح رہے کہ اس سے قبل نیٹو چیف اسٹولٹنبرگ نے بھی یوکرین کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ جنگ سالوں پر محیط ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب برطانوی وزیرِ اعظم اور نیٹو سربراہ جانز اسٹولٹنبرگ نے بھی یوکرین کو اپنی بھرپور مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔