امت نیوز ڈیسک //
نئی دہلی:دہلی کی ایک عدالت نے حریت رہنما نعیم احمد خان کی طرف سے مبینہ طور پر عسکریت پسندی کی فنڈنگ کے معاملے میں دائر ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
نعیم خان 14 اگست 2017 سے عدالتی حراست ہیں اور انہیں دلی کی تہاڑ جیل میں دیگر کئی علیحدگی پسند لیڈروں سمیت نظر بند رکھا گیا ہے۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ وادی کشمیر میں "بدامنی پیدا کرنے” میں ملوث ہیں۔ انہیں سرینگر میں واقع ان کی رہائش گاہ سے 24 جولائی 2017 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اس حقیقت کا نوٹس لیتے ہوئے کہ خان کے خلاف پہلے ہی الزامات عائد کیے جا چکے ہیں، جن پر ہائی کورٹ نے روک نہیں لگائی ہے اور نہ ہی اسے الگ کیا ہے، پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج شیلندر ملک نے کہا کہ عدالت اس مرحلے پر شواہد کی دوبارہ پڑتال نہیں کر سکتی۔
فاضل جج کے مطابق درخواست گزار کے خلاف جو ثبوت پہلے ہی پیش کیے گئے ہیں وہ ناکافی نہیں ہیں اور کوئی بھی آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ ملزم کے خلاف الزام پہلی نظر میں درست معلوم ہوتے ہیں اور اسی حساب سے ان کی درخواست ضمانت کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔جج نے مزید کہا کہ الزامات عائد کرنے کے وقت شواہد اور مختلف گواہوں کے بیانات کی تفصیلی چھان بین کی گئی تھی، اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ خان کے ملوث ہونے کے حوالے سے ایسے بین ثبوت موجود ہیں جن سے "سنگین شکوک” پیدا ہورہے ہیں۔
ہم، چونکہ خان کے وکیل نے مقدمے کی سماعت میں تاخیر کا معاملہ اٹھایا تھا، عدالت نے کہا کہ مقدمے کی جلد سماعت کے لیے "مضبوط کوششیں کی جائیں گی” تاکہ مقدمے کی تکمیل میں غیر ضروری تاخیر نہ ہو۔اور یہ عدالت درخواست گزار سمیت مختلف ملزمان کی قید کی مدت کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہے۔ تاہم مذکورہ وجوہات کی بناء پر، ملزم/درخواست گزار کی درخواست ضمانت مسترد کر دی گئی ہے