دفعہ 370کی منسوخی کے بعد اگرچہ سرمایہ کاری کے اندر گوناگوں اضافے کے دعوے کئے گئے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں بلکہ خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے
چند روز قبل مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے پارلیمان میں جموں وکشمیر کی اقتصادی صورت حال سے متعلق کچھ اعداد و شمار پیش کئے گئے جس سے یہ بات مترشح ہوئی کہ تمام تر دعوﺅں کے برعکس گزشتہ تین برسوں کے دوران سرمایہ کاری میں زیادتی نہیں بلکہ کمی واقع ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت سے لیکر جموں وکشمیر انتظامیہ نے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد اگرچہ سرمایہ کاری کے اندر گوناگوں اضافے کے دعوے کئے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں بلکہ خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019تا2020میں296 کروڑ، سنہ 2020 اور2021میں 4121کروڑاور سنہ2021۱اور2022میں 376کروڑ کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق ان تین برسوں سے قبل یعنی دفعہ370 کی منسوخی سے قبل سنہ2017اور2018میں840کروڑ جبکہ سنہ2018اور2019میں 590کروڑ کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔
اعداد و شمار کی مانیں توسنہ2019عیسوی جب جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کی گئی ‘کے بعد سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔حالانکہ مرکزی سرکار اور جموں وکشمیر انتظامیہ جس کی سربراہی لیفٹیننٹ گورنر کرتے ہیں‘ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ دفعہ370 جو جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دلاتی تھی ،جموںو کشمیر کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ تھا اور اسکو منسوخ کرنے سے ترقی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔اس دعوے کے ساتھ ساتھ سرکار نے ماضی قریب میںیہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ جموںو کشمیر میں بیرونی سرمایہ کار بالخصوص متحدہ عرب امارات سے متعلق سرمایہ کار، جموں وکشمیر میں تجارت کریں گے، یہاں بڑی سرمایہ کاری کریں گے ، جس سے یہاں بے روزگاری میں کمی واقع ہوگی اور کلہم ترقی ہوگی۔وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ کو یہ بھی بتایا ہے کہ جموںو کشمیر میں نئی صنعتی پالیسی اور لینڈ پالیسی کی وجہ سے جموں وکشمیر انتظامیہ کو امسال اب تک64ہزار کروڑکی سرمایہ کاری کی تجاویزیا پیشکش موصول ہوئی ہیں۔ ان نئے اعداد و شمار پر بحث و تمحیص سے قبل ضروری ہے کہ ماضی قریب میں کئے گئے کچھ سرکاری دعوﺅں کو بھی سامنے رکھا جائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اقتصادیات کا پہیہ کس رفتار سے رینگ رہا ہے۔ اسی برس یعنی2022 عیسوی میں دعویٰ کیا گیا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کو گزشتہ مالی سال کے دوران یونین ٹیریٹری میں 52551کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئی ہیں جن کومنظوری ملنے کے بعد جموں و کشمیر میں 214617ملازمتیں پیدا ہونے کی اُمیدہے۔اس برس اپریل میں اخباروں کی زینت بننے والی اس رپورٹ جسے جموں و کشمیر ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن (جے کے ٹی پی او) نے جاری کیا تھا‘کے مطابق” کُل4444تجاویز موصول ہوئی ہیں، جن میںسے1105جموںکے لیے جبکہ باقی3339کشمیر کے لیے ہیں۔ تجاویز سے جموں و کشمیر میں39022کنال اراضی(19125جموں میں اور19897کشمیر میں) پر52551کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے214617افراد کو روزگار(جموں سے190631۱اورکشمیر سے132058)فراہم ہونے کی امید ہے۔“ جموں و کشمیر میں ان سبھی سرمایہ کاری کی تجاویز کے لیے4103یونٹس کے قیام کے لیے17079کنال اراضی مختص کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں اگرچہ مجوزہ ملازمتوں (نوکریوں)کے بارے میں پوری وضاحت نہیں کی گئی اور نہ ہی صحیح اوقات کا کوئی پتہ دیا گیا تھا، تاہم بتایا گیا تھا کہ الاٹ کی گئی بیشتر اراضی فوڈ پروسیسنگ یونٹس اور ہوٹل انڈسٹری کو دی گئی ہے۔ اس سے قبل ماہ مارچ میں بھی سرمایہ کاری اور معاشی انقلاب کے حوالے سے ایک اورخبر مرکزی و مقامی نیوز ایجنسیوں پر بڑے طمطراق سے شائع کروائی گئی تھی جس کے مطابق جموں و کشمیر حکومت کو صنعتی یونٹس قائم کرنے کے لیے زمین کی الاٹمنٹ کے لیے47144 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی4226تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں ایک سینئر سرکاری افسر کے حوالے کہا گیاتھا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں صنعتی یونٹس قائم کرنے کے لیے زمین کی الاٹمنٹ کے لیے47144کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی4226تجاویزآن لائن موڈ کے ذریعے موصول ہوئی ہیں۔ان تجاویز سے 1لاکھ97 ہزار اسامیاں( روزگار) پیدا ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ، عہدیدار نے کہا تھاکہ ان تجاویز کی منظوری کے عمل کو پہلے ہی فاسٹ ٹریک کیا گیا ہے۔
گنجلک اعداد و شمار اور ان سے پید ا ہونے والے مجوزہ نوکریوں اور اسامیوں کے سارے سلسلے ریگستان میں کسی سراب یا پھر دن میں کسی منچلے کے دیکھے ہوئے خوابوں کی طرح ہیں جن کو اپنوں اور اغیار کے سامنے پیش کرکے واہ واہ تو لوٹی جاسکتی ہے لیکن کسی غریب کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا
راجیہ سبھا میں مذکورہ سرمایہ کاری رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے اعداد و شمار کو چشم کشا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی اور جموں و کشمیر حکومت کے بلند بانگ دعووں کی قلعی پوری طرح کھل گئی ہے۔پارٹی کے ترجمان اعلی تنویر صادق نے کہا ہے کہ”حکمران جہاں گذشتہ تین سال سے جموں و کشمیر سرمایہ کاری کے گمراہ کن اعداد و شمار پیش کرتی آرہی تھی ۔اسی بیچ راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میںجموں و کشمیر میں سرمایہ کاری سے متعلق اصل حقائق پوری طرح سامنے آگئے ہیں اور حکومت کے ہزاروں کروڑ سرمایہ کاری کے گمراہ کن بیانیہ کی حقیقت عوام کے سامنے آگئی ہے۔“اسی معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ دفعہ370کی منسوخی کے بعد مرکزی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے سرمایہ کاری کے دعوے سفید جھوٹ ہیں۔ انہوں ٹویٹ میں لکھا کہ” گورنمنٹ آف انڈیا کے جموں وکشمیر میں سرمایہ کاری کے دعوے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے برعکس ہیں۔ “
بار بار اور لگاتار جاری کی جانے والی ان معاشی رپورٹوں میں دئے گئے اعداد و شمار کو اگر درست مان لیا جائے اور اگر یہ اعداد و شمار زمینی سطح پراتارے گئے ہوتے تو کوئی شک نہیں کہ جموںو کشمیر میں فی الواقع ’دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہوتیں‘ لیکن شومئی تقدیر کہ یہ گنجلک اعداد و شمار اور ان سے پید ا ہونے والے مجوزہ نوکریوں اور اسامیوں کے سارے سلسلے ریگستان میں کسی سراب یا پھر دن میں کسی منچلے کے دیکھے ہوئے خوابوں کی طرح ہیں جن کو اپنوں اور اغیار کے سامنے پیش کرکے واہ واہ تو لوٹی جاسکتی ہے لیکن کسی غریب کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی فیصلوں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اعداد و شمار کے کھیل کھیلنا یا پھر ترقی و تعمیر کے ساگر بہانے کا پروپیگنڈا کرنا کوئی نیا عمل نہیں ہے۔ ہر دور میں ہر حکومت نے کم از کم جموںو کشمیر میں یہ کام بڑی دیانت داری سے کیا ہے۔ اسلئے اگر آج انتظامیہ یا مرکزی حکومت ایسا کچھ کررہی ہے تو اسے مورد الزام تو ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن ان کے اس اقدام کو منفرد نہیں کہا جاسکتا۔پارلیمان میں پیش کردہ رپورٹ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دفعہ370 کی منسوخی نے جموں کشمیر کو امیر نہیں بلکہ غریب کردیا ہے‘ کے ساتھ ساتھ حالیہ ایام میں یونین ٹیریٹری انتظامیہ نے نزول زمینوں کے لیز کی منسوخی کا اعلان ہے۔6 دہائیوں سے زائد عرصے تک لاگو لینڈ گرانٹس رولز 1960کو بیک جنبش قلم تبدیل کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے جے اینڈ کے لینڈ گرانٹس رولز کو تبدیل کرنے کے لیے جموں وکشمیرلینڈ گرانٹ رولز2022کو لاگوکیا ہے۔پرانے قانون میں99 سالہ لیز کی مدت اور قابل توسیع جیسی لبرل لیز پالیسی تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی کے مشہور سیاحتی مقامات پر زیادہ تر ہوٹل اور جموں اور سرینگر کے جڑواں دارالحکومتوں میں اہم تجارتی ڈھانچے لیز پر ہیں۔نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ تمام لیز، سوائے بقایا یا ختم شدہ رہائشی لیز کے، بشمول جے اینڈ کےلینڈ گرانٹس رولز1960کے تحت دی گئی لیز، نوٹیفائیڈ ایریا (تمام ترقیاتی اتھارٹیز جوسیاحت کے شعبے میں متعین ہیں) لینڈ گرانٹس رولز،2007اور لیز کی میعاد ختم یا ان طے شدہ قواعد کے نافذ العمل ہونے یا ان قواعد کے تحت جاری ہونے والے لیز کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ایل جی انتظامیہ ان لیز جائیدادوں کو آوٹ سورس کرنے کے لیے تازہ آن لائن نیلامی منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اس قانون کے تحت تمام سبکدوش ہونے والے پٹہ داروں سے کہا گیا کہ وہ فوری طور پر لیز پر لی گئی زمین کا قبضہ حکومت کے حوالے کر دیں گے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں سبکدوش ہونے والے کو بے دخل کر دیا جائے گا۔اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ عام لوگوں کی سہولت کے لیے زمینی قوانین میں ضروری تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔یہاں کے زمینی قوانین رجعت پسند تھے۔
اس ضمن میں ہم نے وادی کے ایک ماہر اقتصادیات اور لکھاری سے جب پارلیمان میں پیش کئے گئے اعداد و شمار اور نئے زمینی قوانین پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا تو موصوف کا کہنا تھا کہ صورت حال مذموم حد تک مضحکہ خیز ہے۔ ماہر اقتصادیات کا کہنا تھا کہ ایک طرف سے دفعہ370 کو ساری تباہی اور عدم تعمیر و ترقی کی بنیادی وجہ قرار دے کر دعوے کہ اب یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی لیکن صورت حال یہ کہ ان معتوب دفعات کو ہٹانے کے بعد خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اقتصادی بدحالی میں اضافہ اور دوسری جانب جموں وکشمیر کی اقتصادی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی قرار دئے جانے والے سیاحتی شعبے پر نئے زمینی قوانین کے ذریعے حملے!ایک طرف دعوے کہ بس ترقی آیا چاہتی ہے اور بے روزگاری کا خاتمہ قریب تر ہے لیکن دوسری جانب جموں وکشمیر کے نوجوانوں کے منہ سے نوالا چھیننے کی ہر جستجوجاری ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے تو اسکی عقل و دانش پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔
لیز کے نئے قوانین نے تو مانو تاجروں کے اندر فکر و تشویش کی لہر دوڑادی ہے۔ اس مناسبت سے چیمبر آف کامرس کشمیر اور جے کے ہوٹلرس کلب نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے لیز معاملے پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر لیز شدہ جائیداد کو بغیر وقت دیئے زیر قبضہ لیاجائے گا تو یہ یہاں پر کاروباریوںکےلئے کافی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے یہاں پر کاروباری شعبہ بشمو ل سیاحت کو بڑھا دھچکہ لگ جائے گا۔ اس ضمن میںجموںو کشمیر کے متعلقین (سٹیک ہولڈرز)نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لیز کی معیاد ختم ہونے والی جائیدادوں کے مالکان کے ساتھ بات چیت ہونی چاہئے تاکہ اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جاسکے۔چیمبرکا کہناہے کہ جموں وکشمیر میں درجنوں دکانات،ہوٹل ،ریسٹورانٹ لیز پر ہیں اور انہیں اس نئے قانون کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامناکرنا پڑے گا جس کی وجہ سے یہاں پرسیاحتی شعبے کو بھی کافی حد تک نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں لیفٹیننٹ گورنر کو سنجیدگی کامظاہرہ کرناچاہئے اور متعلقین کی سہولیت کےلئے موثر اقدامات اُٹھانے چاہئے تاکہ پہلے سے تباہ شدہ کاروبار کو مذید تباہ ہونے سے بچایاجاسکے۔نئے زمینی قوانین کے خلاف یہاں کے مرکزی دھارے والے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے بھی یک زبان ہوکر بات کی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ” اس اقدام نے صرف بی جے پی کے اصلی عزائم کو بے نقاب کیا ہے۔ آرٹیکل 370کو ہٹانے کا پورا ایجنڈا ہمارے وسائل اور زمین چھیننا تھا۔ یہ ان خطوط پر ہے جو اسرائیل غزہ میں کرتا ہے۔ یہ ہوٹل والے اور تاجر ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔ یہ ہماری معیشت پر براہ راست حملہ ہے اور اس کا مقصد بیرونی لوگوں کو آباد کرنا ہے۔سابق فوجیوں کے خاندانوں کو یہ زمینیں اور تعمیرات لیز پر دئے جانے کے انکشاف سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے۔“نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بھی اس اقدام کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ” یہ بدقسمتی ہے اور اس کا مقصد باہر کے لوگوں کو کشمیر میں آباد کرنا ہے۔ اگر حکومت باہر کے لوگوں کو یہاں لانا چاہتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن پہلا حق ان لوگوں کا ہے جو پہلے سے یہاں آباد ہیں۔“پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے کہا کہ” یہ پالیسی باقی ملک میں لاگو قوانین سے متوازی ہے۔ اس سے کشمیریوں کو واضح طور پر برباد اور الگ تھلگ کرنے کے سیاہ باب کا آغاز ہو سکتا ہے۔“جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے اس اقدام کو ”سخت اور غیر انسانی“ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ”ایسے قوانین دنیا میں کہیں نہیں دیکھے گئے ہیں۔ زمینوں پر کام کرنے والے لوگوں کو باہر نکالا جا رہا ہے۔ اس معاملے کو مناسب طریقے سے نمٹنا پڑے گا۔“بخاری کا کہنا ہے کہ ان نئے زمینی قوانین کو لاگو نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی لاگو ہونے دیا جائے گا۔
ایک طرف سرکار دعوے کرتی ہے کہ جموں وکشمیر کی کلہم ترقی کے لئے، یہاں سے بے روزگاری ختم کرنے اور جوانوں کو روزگار کے مواقع مہیا کرکے تباہی سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی لیکن دوسری جانب محض کچھ تنگ سیاسی نظریات یا اہداف کے حصول کےلئے بچے کچھے وسائل کو بھی چھیننے کا سلسلہ محض تضادات کا ہی مجموعہ کہلاسکتا ہے۔ اگر مقامی تاجروں اور سرمایہ کاروں کا گلا گھونٹ کر انہیں زیر کیا جائے گا، اگر سرمایہ کاری کے حصول کے لئے مقامی آبادی کے منہ سے نوالے چھیننے کا کام جاری رکھا جائے گا ، بتائے کہ بیرونی سرمایہ کاری کیسے ممکن ہوسکے گی۔ یہ کھلا تضاد ہے جس سے سرکار کو بچنے اور نکلنے کی راہ تلاش کرنا ہوگی۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج ہے جہاں نہ خبریں دبتی ہیں اور نا ہی سرمایے کی قانونی آوا جاوی مسدود کی جاسکتی ہے۔ ایسے میں سرکار پر لازم ہے کہ وہ ایسے تعمیری اقدامات اٹھائے جن سے یہاں کے مقامی تاجر اور سرمایہ کار اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھیں۔ اگر فی الواقع سرکار جموں وکشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری لاکر یہاں تعمیر و ترقی کا باب رقم کرنے کی متمنی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے یہاں کے باسیوں کی عزت نفس اور معیشت کو بچانے کی سعی کرے کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بیرونی سرمایہ کاری کا خواب بھی کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا۔
اگر فی الواقع سرکار جموں وکشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری لاکر یہاں تعمیر و ترقی کا باب رقم کرنے کی متمنی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے یہاں کے باسیوں کی عزت نفس اور معیشت کو بچانے کی سعی کرے کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ بیرونی سرمایہ کاری کا خواب بھی کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا