یہ بس ایک سوپور کی ہی بیٹی اس کرب و درد میں مبتلا نہیں تھی بلکہ ہمارے سماج میں اس طرح کی بہت ساری بیٹیاں، گھر اور خاندان ہیں جو زندگی جینے کے لیے ترستے اور تڑپتے ہیں،وہیں چند مجبور اور مفلوک الحال ایسے بھی ہیں جو جن کو اپنی زندگی روے زمین پر ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے
سوشل میڈیا پر ہمیں دنیا کے چپے چپے کے متعلق معلومات ہوتی ہیں کہ کون کہاں کس حال میں ہے،دنیا میں کون بھوکا پیاسا سویا اور کس نے لذیذ اور شاہانہ کھانا تناول کیا وہ بھی معلوم ہوتا ہے،کس نے اپنا پانچواں حج اور ساتواں عمرہ مکمل کیا اس کی بھی تفصیلات ہمیں دستیاب ہیں، کس نے کون سی اور کتنی مہنگی گاڑی خریدی سوشل میڈیا کی وساطت سے وہ بھی معلوم ہوہی جاتا ہے…. لیکن افسوس ہم عصر حاضر میں اپنے محلے اور گاوں کے لاچار، اور بے بس و بے سہارا افراد کے حال سے اس قدر نابلد و ناآشنا ہیں کہ کوئی سانحہ ہونے کے بعد ہی ہم جاگ جاتے ہیں، بظاہر ہمارے سماج میں چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ظاہری طور بڑے آسودہ حال لگتے ہیں، اُن کا پوشاک بھی ہمیں اُن کے حال کے متعلق دھوکے میں رکھتا ہے لیکن ان کے اندر کا حال انتہائی دردناک ہوتا ہے…. سوپور کا واقعہ اصل میں سماجی کارکنوں، سیاسی کھلاڑیوں، فلاحی تنظیموں اور مذہبی ٹھکہ داروں کے منہ پر ایک زور دار تماچہ ہے!اس مادی دنیا کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس نے ہم سے دوسروں کے لئے جینے کی تمنا اور تڑپ کو چھین لیا ہے…. وہیں اس انسانیت کُش نظام تعلیم نے ہمارے لئے مقصد زندگی کو بس دولت کمانا ٹھہرایا ہے….نظام سیاست و حکومت مخلص اور قوم کے حقیقی غمخواروں کو دوسرے کے لیے جینے نہیں دیتے….ایسے حالات میں سوپور جیسے واقعات کا رونما ہونا کوئی انوکھی یا آخری بات نہیں۔جب تک یہاں مجبوروں اور لاچاروں کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنایا جائے تب تک کوئی ان کی مدد کرنے کے بارے میں ہزار بار سوچتا ہے،یعنی ایک مجبور اور حاجت مند کو ہمارے معاشرہ میں پہلے اپنی عزت نفس کو پامال کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ بس ایک سوپور کی ہی بیٹی اس کرب و درد میں مبتلا نہیں تھی بلکہ ہمارے سماج میں اس طرح کی بہت ساری بیٹیاں، گھر اور خاندان ہیں جو زندگی جینے کے لیے ترستے اور تڑپتے ہیں،وہیں چند مجبور اور مفلوک الحال ایسے بھی ہیں جو جن کو اپنی زندگی روے زمین پر ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے….اور افسوس تب ہوتا ہے جب اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو ہمارے ہی سماج میں بہت سارے دین کا علم رکھنے والے لوگ غربت کے علاج کے لیے صبر کی تلقین اور حلال و حرام کے فتوے صادر کرتے ہیں۔واحسرتاً! بقول شاعر
لایا گیا مقامِ خودکشی تک ہمیں
پھر فتوی لگایا گیا مرنا حرام ہے
وہیں اس بد قسمت قوم کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس نے کبھی بھی دردمندوں اور قوم کے تئیں ہمدردی رکھنے والوں کا ساتھ نہیں دیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں جاگنا ہوگا اور اُن پاک باز اور مخلص افراد کا ساتھ دینا ہوگا جو سماج کے تئیں درد رکھتے ہوں بلکہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے آگے آنا ہوگا۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو وہ وقت دور نہیں جب ہر گھر اور محلے سے ہمیں اس طرح کے واقعات کا سامنا کرنا ہوگا! اللہ نہ کرے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں جاگنا ہوگا اور اُن پاک باز اور مخلص افراد کا ساتھ دینا ہوگا جو سماج کے تئیں درد رکھتے ہوں بلکہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے آگے آنا ہوگا