ہم ایسے لوگ ہیں جو ہر سانحہ پر ہاہا کار مچا کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت چند گھڑیوں کے لئے دیتے ہیں اور پھر وہیں لاشیں بن کر پڑے رہتے ہیں اور تا سانحہ ثانی ہوجانے تک ہم پڑے رہتے ہیں ۔کاش ہم اس درد کو، اس کرب کو محسوس کرتے جو یہ غربت و افلاس کے مارے سہہ رہے ہوتے ہیں۔
زندگی کے مصائب و آلام انسان کو تھکا دیتے ہیں خاص کر تب جب وہ اپنی عمر سے زائد مصائب و آلام کا شکار ہوکر رہ جائے۔ گھٹن زدہ ماحول ،پارسائی و نیکی کے فرستادوں، الحاج و الحاجی، الزکاتی متولیان مساجد ،معززین قوم و قبلہ، جبہ و دستار کی ایسی بھیڑ جنہیں اپنے سوا ہر اور اندھیرے کی جستجو صرف اس لئے رہتی ہے کہ آس پاس کی روشنی میں کہیں ان کے داغ نہ ظاہر ہوں۔ اس لئے ظلمت کدے کو وہ نور بتانے کے لئے کیا کیا سادگی و پاکیزہ معاشرے کے اظہار کے لئے نہیں کرتے ۔کوئی اس درجہ پارسا کہ نوکری سے سبکدوشی ہوئی نہیں کہ مسجد کے غم میں اس درجہ گلتا ہے کہ مسجد کے صحن سے ذرا ہٹ کرایک اور مسجد بنا کر تعمیر مسجد کا ثواب لے اڑا ۔کسی کے ہاں دولت کی وہ فراوانی کہ حاجی سے الحاج بننے کی تگ و دو میں پریشان۔
اسی معاشرے میں کہیں کسی کونے میں سوپور کی بیٹی جیسی کئی بیٹیاں بیٹے غربت و افلاس کی مار سہہ رہے ہوتے ہیں؛جہاں انفاق پر مباحثے ہوتے رہتے ہیں،جہاں دین و ایمان کے تحفظ کے نام پر محفلوں میں رونقیں ہوتی ہیں، جہاں معاشرے کی تباہ حالی پر لیکچر ہوتے رہتے ہیں،جہاں انسانیت ہمدردی اخوت محبت کے نام پر سیمنار ہوا کرتے ہیں ‘وہیں کسی کونے میں کوئی بیٹی اپنی خواہشوں کا گلا کاٹ رہی ہوتی ہے، تو کوئی ماں بچوں کو نمکین کھانے کھلا کر کہتی ہے سالن کی استطاعت نہیں!پھر زندگی کے اداس لمحوں اور کرب کی وسعتوں میں غوطہ زن بیٹیاں ، بھائی، مائیں کبھی اس درجہ بکھر جاتی ہیں کہ وہ کود جاتی ہیں کسی دریا کی بہتی موجوں میں۔۔۔انہیں لگتا ہے شاید یہ موجیں رحم کھا کر انہیں اپنی آغوش میں لے کر تسکین کا باعث بنیں یا لٹک کر اپنی زندگی کے خوابوں کو چور چور کر کے نکل جاتے ہیں۔ہماری پارسائی تب آسمان چھوتی ہے جب کوئی غم والم کا مارا ہمارے سماجی روئیوں پرطمانچے مارتے ہوئے ہمارے سماج سے بیزار ہوکر چلا جاتا ہے ۔ہم دن رات ایک کرکے اسکی میت کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں صرف اس لئے کہ اسکی میت پر خوب سینہ کوبی کرسکیں، کمیٹیاں تشکیل دے کر اپنے پیٹ کی آگ اس میت کے آنگن میں بیٹھ کر بجھائیں ۔ہمیں مرنے والے/ والی کا غم نہیں ہوتا ہم سج دھج کر تعزیت پرسی کو پہنچ کر انتظار کی طویل گھڑیاں صرف اس لئے سہہ لیتے ہیں کہ طعام کا ذائقہ ملے!!
ہم نے کئی دن تک اس بیٹی کی لاش کو تلاش کرنے والوں کو دیکھا، بہت دیکھا! قرآن خوانی بھی ہوئی دریا کی موجوں پر کہ لاش مل جائے۔لیکن دریا کی موجیں منہ چڑا رہی تھیں کہ اے انسانوں کے قاتل گروہ تم نے ہی تو اپنی بے رخی سے اسے موجوں کی اور دھکیل دیا، اب بھلا کیوں ہمیں دوش دے رہے ہو۔خودکشی بذات خود ایک حرام فعل ہے جس کی ہرگز کسی مسلک و مذہب یا قانون میں کوئی جگہ نہیں پراے انسانوں کی بستیوں کے خیر خواہو تمہیں ہوکیا گیا ہے، جانور بھی جانور کی تکلیف سے تھرا جاتے ہیں۔ یہ تم اشرف المخلوقات والے ہی کیوں قلب و جگر کے بجائے پتھر کی مورت رکھے ہوئے ہو۔ کیا تمہیں درد نہیں ہوتا؟ کیوں کہ یہاں تو اب انسانوں کی بستیوں سے سسکتی ہوئی آہوں سے لاشیں اٹھ رہی ہیں۔ یہاں تو بدن کانپ رہے ہیں ۔یہاں تو ہمدردی اخوت آپسی محبت مر رہی ہے ۔انسانوں کی بستیوں سے تو وحشت دیکھائی دے رہی ہے ۔
ٍٍ سنو!سوچ رہا ہوں کہ جب اس بچی نے موت کی وادی کا استقبال کیا ہوگا ،تھکی تو ہوگی، ماں بھائی کی جدائی میں دو آنسوو¿ں نے رخسار سے بہہ کر اس کو للچایا تو واپسی پر ہوگا! امی کی آواز سے محرومی کا سوچ کرٹوٹ تو گئی ہوگی! رُک کر پیچھے مسجد کے مینارے خانقاہ کے مینارے کو دیکھا تو ہوگا! شاید یہ سوچ کر کہ میناروں کی آغوش میں اب میری فریاد کوئی سننے والا فاروق اعظم ؓکا وارث نہیں ہے! امی بھائی کی یاد آتے ہوئے یہ سوچا ہوگا کہ پھر نیکی و پارسائی کے سوداگر شاید میری ماں اور بھائی کو کچھ خیرات دے کر نام کما سکیں ،جہاں میں ان کے نام کمانے کے لئے ہمت آئی ہوگی۔ (بیٹا ہم سب آپ جیسی بیٹیوں اور بہنوں کے لئے بحیثیت قوم مر گئے ہیں۔ ہم اس دنیا کی بھیڑ میں زندہ لاشوں کی سوا کچھ نہیں ۔)
چلیں !ہم اعلان کرتے ہیں کہ اس شہر کے بالکل قلب میں، اس بچی کے نام سے ایک مسجد ایک فلاحی تنظیم ایک بیت المال بناکر اس غم کو بھول جائیں تاکہ ہم آباد رہیں، ہماری دینداری خوب چمکے اور ہمارا جیب خرچے کو دوام ملے باقی دیکھا جائے گا سکون جنت میں کون جہنم میں جائے گا !یہ فیصلہ کسی اور دن کریں گے۔
ہائے! یہ فرسودہ معاشرہ اور یہ انسانوں کی بستیوں کے پاکباز صالح مزاج دکھائی دینے والے صالحین سے اللہ پوری قوم کو نجات عطا فرمائے اور منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مزین پاکیزہ معاشرے کی تشکیل نو کی سبیل پیدا فرمائے۔
آخری بات!ہم ایسے لوگ ہیں جو ہر سانحہ پر ہاہا کار مچا کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت چند گھڑیوں کے لئے دیتے ہیں اور پھر وہیں لاشیں بن کر پڑے رہتے ہیں اور تا سانحہ ثانی ہوجانے تک ہم پڑے رہتے ہیں ۔کاش ہم اس درد کو، اس کرب کو محسوس کرتے جو یہ غربت و افلاس کے مارے سہہ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ سخت المیہ ہے کہ کوئی ایسا بیت المال کا نظام بستیوں میں موجود ہی نہیں جو پاس پڑوس میں معاونت کرنے کے لئے مستعد ہو ۔ہاں پچھلے چند سالوں میں اتنی ترقی ضرور ہوئی ہے کہ بھکاریوں کی ایک فوج ہم نے تیار کر رکھی ہے جو ہر گلی نکڑ پر اب چلتی گاڑیوں میں مدھر اور مترنم آواز میں یتیموں بیواوں کی دھائی دے کر یا کسی بیمار کا نام لے لے کر جو کہ الا کبھی کبھار ہوتا ہے‘ کے لئے چلاتے ہیں کہ اس کی مدد کی جائے۔ کئی گاڑیاں بھی مائک لگائے اس کار خیر میں اپنی دنیا بسا رہے ہیں اور حاصل شدہ مال کو مال غنیمت جان کر اپنے گھر کا چولا جلانے کے ساتھ ساتھ عیاشی کے مزے بھی لیتے ہیں۔جو یتیم و بیوائیں ہیں وہ تو اب بھی مصیبت سے ہی جوجھ رہے ہیں ،ان کے ہاتھ حاتم طائی بننے کی دوڑ میں ہم خوب دولت لٹاتے ہیں تاکہ نام رہے اور شہرت ہو ۔ویسے کیا ہوتا گر ہم ہر دن خواہ چند روپے ہی جمع کرتے اور مقامی بیت المال مضبوط سے مضبوط تر کرتے تاکہ کم سے کم ان بھکاری نما ٹھگوں سے نجات مل جاتی اور کسی غریب بے بس لاچار کا چولہا جلتا رہتا۔
ہمارے ہاں یہ سخت المیہ ہے کہ کوئی ایسا بیت المال کا نظام بستیوں میں موجود ہی نہیں جو پاس پڑوس میں معاونت کرنے کے لئے مستعد ہو۔ہاں پچھلے چند سالوں میں اتنی ترقی ضرور ہوئی ہے کہ بھکاریوں کی ایک فوج ہم نے تیار کر رکھی ہے جو ہر گلی نکڑ پر اب چلتی گاڑیوں میں مدھر اور مترنم آواز میں یتیموں بیواو¿ں کی دھائی دے کر یا کسی بیمار کا نام لے لے کر جو کہ الا کبھی کبھار ہوتا ہے‘ کے لئے چلاتے ہیں کہ اس کی مدد کی جائے۔