12 دسمبر بروز سوموار کو ضلع بارہمولہ کے سوپور قصبے میں ایک سترہ سالہ دوشیزہ نے جامع پُل سے دریائے جہلم میں چھلانگ لگا ئی جس کے فوراً بعد سے ہی پانی میں لڑکی کی تلاش شروع کی گئی۔ اتنی کم عمر میں اس سنگین اقدام کی وجوہات ابتدائی طور پر سامنے نہیں آپائے۔تادم تحریر ابھی تک لڑکی کا کوئی سراغ نہیں مل پایا ہے۔مقامی لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ دوشیزہ کے والدکا انتقال 2009ءمیں ہوا اوراس کا بھائی گردوں کی بیماری کا شکار ہے۔ گھر میں کمانے والاکوئی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ بچی ڈپریشن میں چلی گئی اور وہ زیر علاج تھی ۔ ادھرلڑکی کی والدہ نے میڈیا نمائندوں سے جب بات کی تو انہوں نے بھی یہی دردبھری کہانی سنائی جس نے پوری وادی¿ کشمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔ ہر کوئی سوال پوچھ رہا ہے کہ آخر کشمیری اس دوشیزہ کی وقت پر مدد کر کے اسے کیوں نہیں بچا پائے؟
اس واقعہ کے بعد جہاں عام لوگوں نے متاثرہ کنبے کی مدد کیں وہیں بارہمولہ ضلع انتظامیہ بھی متاثرین کے گھر پہنچ معاونت کی یقین دہانی کی۔دریں اثنا لڑکی کی تلاش میں وادی کے دیگر اضلاع سے بھی ماہر ماہی گیر سوپور پہنچ کر لڑکی کی تلاش میں مدد کر رہے ہیں جن میں کاکہ پورہ پلوامہ کے عبدالسلام ڈار بھی شامل ہیں جنہوں نے آج تک 40 نعشیں دریائے جہلم سے بازیاب کی ہیں۔ ان کے علاوہ ایس ڈی آر ایف اور حکومت کی جانب سے ریسکیو ٹیمیں بھی تلاش میں لگی ہوئی ہیں۔اس دوران آپریشن کے نویں دن انتظامیہ کی جانب سے نوعمر لڑکی کی تلاشی اور بچاو¿ آپریشن کے مقامات پر تصاویر کلک کرنے اور ویڈیو ریکارڈ کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔حکام کے مطابق لوگ ریسکیو مقام کے قریب آ رہے ہیں اور یہاں ویڈیوز اور تصاویر کھینچ لیتے ہے جس کی وجہ سے یہاں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا اندیشہ ہے جس کو مد نظررکھتے ہوئے انتظامیہ نے یہ قدم اٹھایا۔جبکہ نویں روز ہی ضلعی ترقیاتی کمشنر ڈاکٹر سید سحرش اصغر نے متاثرین کے گھر دورہ کر کے ان سے اظہارِ تعزیت کیا۔ تاہم اس سے قبل مقامی لوگوں نے انتظامیہ کے خلاف شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جانب سے کوئی بھی ریسکیو ٹیم مہیا نہیں کرائی گئی۔مقامی لوگوں نے بتایا:” ہم نے پہلے دو یا تین دن ایس ڈی آر ایف کی ٹیمیں دیکھی اور صرف ایک روز بحریہ فوج کے مارکوس نظر آئے۔لیکن صرف مقامی ماہی گیروں نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں“۔تاہم دوسری طرف سے ڈبلیو یو سی ایم اے(ولر کنزرویشن اینڈ منیجمنٹ اتھارٹی) کے ایک اہلکار نے بتایا کہ انہیں کال موصول ہونے کے فوراً بعد وہ زیادہ وقت لیے بغیر سوپور پہنچ گئے۔بلاک انچارج ریاض احمد نے بتایا:”ہم نے ایک خصوصی سمندری کشتی کا استعمال کیا، چھ رکنی ایک ٹیم 3 دن کے لیے بھیجی۔ ہم نے بچاو¿ آپریشن میں شامل رضاکاروں کو جان بچانے والی جیکٹس اور ایک لکڑی کی کشتی بھی فراہم کی۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ٹیم نے لاش کو بازیاب کرنے کے لیے اپنی ذاتی اور مالی خدمات کا استعمال کیا، تاہم ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اسی طرح سے ایس ڈی آر ایف(سٹیٹ ڈزاسٹرریلیف فورس) کے ایک اہلکار نے بتایا کہ انہوں نے تلاش کی تاہم انہوں نے کہا کہ لاش کو بازیاب کرنا بہت مشکل ہے جس کی وجہ سے وہ لاش کو بازیافت کرنے میں ناکام رہے۔ جبکہ سرچ آپریشن کے دسویں دن ایس ایس پی ایس ڈی آر ایف فردوس اقبال نے بتایا کہ وہ لڑکی کی لاش کو بازیاب کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ادھر جموں کشمیر عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر شاہ کی سربراہی میں ایک پارٹی وفد نے بھی سوپور کا دورہ کیا۔وہیں مظفر شاہ نے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ آخر اب تک لڑکی کو کیوں نہیں ڈھونڈ پایا گیا۔انہوں نے کہا کہ کیا اس کی وجہ وسائل کی کمی ہے؟ وہیں انہوں نے حیرت کا اظہارِ کرتے ہوئے کہا کہ اب تک بارہمولہ انتظامیہ نے یہاں کا دورہ کیوں نہیں کیا۔ سرچ آپریشن تادم تحریر جاری تھا۔