امت نیوز ڈیسک ///
نئی دہلی:جے این یو کے سابق طالب علم رہنما اور معروف سماجی کارکن عمر خالد نے 9 جون 2023 کو جیل میں 1000 دن مکمل کر لیے۔ عمر کو دہلی پولیس نے 13 ستمبر 2020 کو 2020 کے دہلی فسادات کی سازش رچنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ عمر کو یو اے پی اے، آرمس ایکٹ سمیت کئی مقدمات کا سامنا ہے۔ 3 دسمبر 2022 کو دہلی ہائی کورٹ نے عمر کو ایف آئی آر نمبر 101/2020 میں ضمانت دے دی، جو دہلی فسادات سے متعلق ایک مقدمہ ہے، لیکن وہ جیل سے باہر نہیں نکل سکے کیونکہ ان کے خلاف ایک اور ایف آئی آر نمبر 59 میں UAPA کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ /2020۔ 35 سالہ عمر خالد ان 18 لوگوں میں شامل ہیں جنہیں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کی وجہ سے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ دہلی پولیس نے ان لوگوں پر احتجاج کے نام پر فسادات بھڑکانے کا الزام لگایا ہے۔ عمر کے ساتھ ہی یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کے بانی خالد سیفی کو بھی 3 دسمبر کو ضمانت مل گئی تھی لیکن وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔
عمر خالد کے ساتھیوں اور دیگر کئی نامور لوگوں نے 9 جون کو پریس کلب آف انڈیا دہلی میں عمر خالد کے 1000 دن مکمل ہونے کے موقعے پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا اور عمر کی رہائی کا مطالبہ مطالبہ کیا۔ اس میں عمر کے والد قاسم رسول الیاس، صحافی رویش کمار نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے طرز عمل کو نشانہ بنایا۔ اس موقع پر معروف صحافی رویش کمار نے کہا کہ پہلے تشددد کرنے والوں کو بچانے کا کام کیا جاتا تھا مگر اب موجودہ دور میں تشدد کرنے کے لیے قانون بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا موجودہ دور میں بڑے پیمانے پر سماجی کارکنان اور بے قصور لوگوں کو پھنسایا جا رہا ہے اور شہری آزادیوں کو سلب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے عمر خالد کے ساتھ ہو رہی ناانصافیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی ضمانت میں ہو رہی تاخیر کا مسئلہ بھی اٹھایا۔
قابل ذکر ہے کہ عمر خالد اور ان جیسے تمام سیاسی قیدیوں کا کیس انصاف ملنے میں تاخیر کو ظاہر کرتا ہے۔ 2 سال 8 ماہ اور 24 دن کے عرصے میں عمر کو صرف ایک بار 7 دن کے لیے باہر آنے کی اجازت دی گئی، وہ بھی اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے۔ واضح رہے کہ 23 سے 25 فروری 2020 تک دہلی کے فسادات میں شمال مشرقی دہلی میں 53 لوگ مارے گئے جن میں سے دو تہائی سے زیادہ مسلمان تھے۔ دہلی پولیس نے جن 18 لوگوں کو اس کی منصوبہ بندی کے الزام میں حراست میں لیا ہے، ان میں سے 16 مسلمان ہیں۔