حالیہ پانچ برس تاریخی تعمیر و ترقی اور امن و استحکام کی بحالی کے برس ہیں جاری ہے:حکومت
لوگوں کے جمہوری حق کو دباکر انتخابات سے فرار کوئی مثبت امر نہیں:اپوزیشن
19 جون ،پیر کے روز ،جموں وکشمیر پر براہ راست مرکزی حکمرانی کے پانچ برس مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ پانچ سال جموں وکشمیر کی تاریخ اور سیاست میں گوناگوں تبدیلیوں کے سال ثابت ہوئے ہیں۔ جہاں حکومت اور انتظامیہ ان پانچ برسوں کو سابقہ ریاست اور موجودہ یوٹی کےلئے تعمیر و ترقی کے حوالے سے سنہرے ماہ و سال قرار دیتی ہے وہیں پر اپوزیشن میں شامل جماعتیں ان برسوں کے دوران اٹھائے گئے اقدامات کو سیاہ باب سے تعبیر کرتی پھرتی ہیں۔
بی جے پی کی جانب سے مخلوط حکومت کا ساتھ چھوڑدینے کے بعد اسوقت کی ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے 19 جون2018 ء کو اپنے عہدے سے اِستفعیٰ دیا تھا جس کے بعد مرکزی حکمرانی کا دور شروع ہوا۔ یہاں کی مختلف جماعتوں کی حکومت بنانے کی تگ و دو سے لے کراُسوقت کے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے آفس کی فیکس مشین کی خرابی تک ‘ کی باتیں اَب تاریخ کا حصہ ہیں۔ ریاست پر مرکز کی حکمرانی کے معاً بعد گورنر ستیہ پال ملک نے جموں وکشمیر پر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی حکمرانی کو خاندانی حکمرانی کا بدترین دور قرار دے کر جموںو کشمیر میں جمہوریت کو نچلی سطح تک مضبوط کرانے کی پرزور وکالت شروع کردی اور یہاں میونسپل الیکشن منعقد کرائے۔ یہ الیکشن 8 اکتوبر2018 ء سے شروع ہوئے اور انکی تکمیل چار مراحل میں ہوئی۔
سرکار اور انتظامیہ کی مانیں تو یہ پانچ برس جموں وکشمیر کےلئے ہمہ گیر ترقی اور تبدیلی کے سال رہے ہیں۔ جمہوریت کو نچلی سطح تک پہنچایا گیا ہے اور کلہم ترقی کے بند راستے کھول دئے گئے ہیں۔سرکاری ذرائع کا ماننا ہے کہ17 فروری2019ء کو پلوامہ حملے کے بعد مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں عسکریت اور علیحدگی پسندی کے خلاف سخت گیر موقف والی مہم شروع کی اور ان تمام عناصر کا قلع قمع کیا جو یہاں کے امن و امان میں خلل کا باعث بن رہے تھے۔5اگست 2019ء کے روز تاریخی فیصلہ لیتے ہوئے جموں وکشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن کا خاتمہ کیا گیا ۔مودی حکومت نے تاریخی فیصلے کے ذریعے آرٹیکل 370کو غیر فعال کر دیا۔ مودی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو کا بل لایا، جس نے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا۔ دونوں اکائیوں کو یونین ٹیریٹریز بنا دیا گیا۔سرکاری دعوےکے مطابق مودی سرکار نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اب کشمیر بھارت سے الگ نہیں بلکہ بھارت میں ضم کردیا گیا ہے۔5اگست 2019کو کیے گئے فیصلوں نے نہ صرف آئینی تبدیلیاں لائیں بلکہ بقول انتظامیہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے ترقی کے بہت سے مواقع اور ترقی کے دروازے بھی کھول دیے۔ تقریباً 205ریاستی قوانین کی واپسی کے ساتھ 890مرکزی قوانین لاگو کیے گئے تھے اور لوگوں کی بہتری کے لیے 130قوانین میں ترمیم کرکے انہیں دوبارہ لاگو کیا گیا تھا۔ کمزور طبقات کے لیے ملازمت کی نمائندگی کےلئے ریزرویشن فوائد کو 2فی صد سے بڑھا کر 4فی صد کر دیا گیا ۔پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کے فوائد میں بھی آمدنی کی حد5 اعشاریہ 4لاکھ روپے سے بڑھا کر8لاکھ روپے تک بڑھا دی گئی۔حکام کا کہنا ہے کہ ان برسوں کے دوران جو کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ان میں جموں وکشمیر میں ڈی ڈی سی کے کامیاب انتخابات بھی تھے۔اکتوبر 2020ءمیں، مرکزی حکومت نےجموں و کشمیر پنچایتی راج ایکٹ، 1989میں ترمیم کی۔مرکز نے ضلع ترقیاتی کونسلوں کے براہ راست انتخابات کرانے کا انتظام متعارف کرایا۔ ان کونسلوں نے ضلعی ترقیاتی بورڈز کی جگہ لے لی جو زیادہ تر حکومت کے سرکاری اداروں کے طور پر کام کرتے تھے۔ ڈی ڈی سی کی تشکیل براہ راست انتخابات کی بنیاد پر کی گئی تھی جس میں ہر ضلع میں 14منتخب اراکین ہوتے ہیں۔ نومبر 28 سے دسمبر 19تک 8 مراحل میں ہونے والے ان انتخابات کے ضمن میں جموں و کشمیر الیکشن کمیشن کی طرف سے جن 278نشستوں کے نتائج کا اعلان کیا تھا ان میں سےیہاں کی مقامی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی اے جی ڈی نے110نشستیں،بی جے پی نے75 ،آزاد امیدواروں نے 50 کانگریس نے26،اپنی پارٹی نے 12، پی ڈی ایف اور نیشنل پنتھرس پارٹی نے دو دو اور بی ایس پی نے ایک نشست جیتی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انتخابات میںپانچ اعشاریہ 7ملین اہل ووٹروں میں سے 51 اعشاریہ 4فیصد ووٹروںنے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔ یہ انتخابات مکمل طور پرپرامن رہے ۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ان پانچ برسوں کے دوران ہزاروں نئے منصوبے شروع کئے گئے اور کئی ایسے منصوبوں کی تکمیل پر کام کو سرعت دی گئی جو عرصہ دراز سے التوا میں پڑے ہوئے تھے۔ جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے ایک خصوصی زمرہ شروع کیا گیا تھا جس کے عنوان’’ لینگوشنگ پراجکٹس‘‘ کے تحت خاص طور پر ان منصوبوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جو پہلے شروع کیے گئے تھے لیکن کبھی مکمل نہیں ہوئے۔اس دوران آیوشمان بھارت ہیلتھ انشورنس اسکیموں کے تحت 49 اعشاریہ35لاکھ سے زیادہ استفادہ کنندگان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ہر گھر تک پانی کی پہل اسکیم کے تحت جموں و کشمیر کے لاکھو ں کنبوں کوگھریلو نل کنکشن مل چکے ہیں۔ کئی ترقیاتی منصوبے منظور کیے گئے ہیں جن میں سے کئی مکمل ہوچکے ہیں جبکہ کئی تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ مکمل ہونے والے منصوبوں میں رام باغ فلائی اوور، لسجن بائی پاس فلائی اوور،قاضی گنڈ،بانہال ٹنل اور جہلم فلڈ مٹیگیشن پروجیکٹ کے ساتھ ساتھ سرینگر اسمارٹ سٹی میں شامل بیشتر منصوبے شامل ہیں۔ انہی برسوں کے دوران جموں وکشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری میں بھی تیز ترین اضافہ ہوا ہے۔ امن و امان کے قیام سے بیرونی سرمایہ کاروں کے حوصلے بڑھے ہیں اور وہ یو ٹی کے اندر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کےلئے تیار ہیں۔ اسی طرح سرکاری دعوے کے مطابق ان پانچ برسوں کے دوران ہونے والی اہم پیش رفتوں میں حلقوں کی حد بندی کا منعقد ہونا بھی ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) رنجنا دیسائی کے تحت ایک حد بندی کمیشن کا اعلان 2020کے اوائل میں کیا گیا تھا۔ نئی حد بندی کے بعد جموں کےلئےچھ اضافی اسمبلی سیٹیں مختص کی گئی ہیں اور کشمیر کے لیےایک سیٹ مختص کی گئی ہے۔اس حد بندی کے مطابق یو ٹی میں اسمبلی نشستوں کی کل تعداد 83سے بڑھ کر90ہو جائے گی۔ حد بندی کمیشن نے مرکز سے کم از کم دو کشمیری پنڈتوں کو قانون ساز اسمبلی کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی ہے۔ پینل نے شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کے لیے نو سیٹوں کی تجویز بھی پیش کی۔جموں خطے میں درج فہرست ذاتوںکے لیے بھی سات نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ کمیشن نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ حکومت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بے گھر افراد کو نامزدگی کے ذریعے اسمبلی میں نمائندگی دینے پر غور کرے۔کمیشن نے راجوری اور پونچھ (جموں ڈویژن سے) کو بھی کشمیر کے علاقے میں اننت ناگ حلقہ کے ساتھ ملا دیا ہے۔ نئے حلقے کا نام بدل کر کشتواڑ۔راجوری رکھا گیا ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے خطے میں عوامی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے 13حلقوں کا نام تبدیل کر دیا ہے۔اسی طرح سرکاری دعوے کے مطابق حال ہی میں سرینگر میں جی 20 ممالک کاپرامن اجلاس منعقد کرایا جانا بھی ان پانچ برسوں کے مرکزی حکمرانی کا ایک اہم سنگ میل رہا ہے۔
تعمیر و ترقی ، امن و امان کی بہتری اور دوسرے سرکاری دعووں کے برعکس حزب مخالف کی جماعتیں ان پانچ برسوں کو جموں وکشمیر کےلئے ایک مشکل ترین عرصہ قرار دے رہے ہیں اور ان کی نفی کرتے ہیں۔ جموں وکشمیر پر مرکزی حکومت کے پانچ برس مکمل ہونے پرایک طنزیہ ٹویٹ میں، نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت وہیں پر ختم ہوتی ہے جہاں سے جموں و کشمیرشروع ہوتا ہے۔’’جمہوریت ہماری رگوں میں ہے، یہ ہماری ثقافت میں ہے۔ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے۔ ہندوستان جمہوریت کا مندر ہے۔ اکتانے کی حد تک دہرائے جانے والے، میٹھے الفاظ ،جنہیں بین الاقوامی برادری نےیہ جانے بناء کہ آیا یہ سچے یا مخلص ہیں کہ نہیں، ہاتھوں ہاتھ لے رکھا ہے۔ دریں اثنا جموں و کشمیر آج مرکزی حکومت کے تحت 5سال مکمل کر رہے ہیں۔ جمہوریت وہیں ختم ہوتی ہے جہاں سے جموں و کشمیر شروع ہوتا ہے۔‘‘عمر عبداللہ کے ان طنزیہ جلموں کی تائید کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے ریاستی ترجمان عمران نبی ڈارکا کہنا ہے کہ سابقہ ریاست میں نوے کی دہائی کے اوائل میں صدر راج تھا جو پانچ سال تک جاری رہا اور6مارچ1996کو ختم ہوا۔ ”جموں و کشمیر میں طویل مدتی صدراتی حکمرانی نے پانچ سال مکمل کر لیے ہیں، یہ جموں و کشمیر میں صدارتی دور کے طویل ترین دور کا ریکارڈ توڑنے میں صرف چند ماہ دُورہے۔ حکومت ہند کی جانب سے یہ ایک مبہم قسم کی قبولیت ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات 90کی دہائی کی طرح سنگین ہیں۔ایک جانب سے حکومت بلند بانگ دعوے کررہی ہے کہ جموں و کشمیر کے حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن دوسری طرف عوام کو عوامی حکومت کے انتخاب کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ کیا چیزہے جو انہیں روک رہی ہے؟ اگر سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہے تو پھر انہیں کس چیز نے روک رکھا ہے۔ لوگ طویل عرصے سے جاری غیر جمہوری حکمرانی سے تنگ آچکے ہیں اور اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ان مصائب کا خاتمہ چاہتے ہیں جو دیرپا غیر جمہوری حکمرانی کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں۔‘‘ان کا استفسار ہے کہ ’جمہوریت کے مندر کے دروازے ہم پر کیوں بند کر دیے گئے؟ جموں و کشمیر میں جمہوریت کو داخل کیوں نہیں ہونے دیا جاتا؟ ہمارے عوام کو جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ثمرات چکھنے سے کیوں دور رکھا گیا ہے‘؟ا سی طرح پی ڈی پی کے ترجمان موہت بھان کا کہنا ہے کہ پوری قوم کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔پوری قوم اور اس کی قیادت کو اپنے آپ کو’مدر آف ڈیموکریسی‘ کہنے پر شرم سے سر جھکا لینا چاہیے۔ مسٹر بھان نے ٹویٹ کیا کہ ’ جموں و کشمیر حیران کن طور پر5سالوں سے مرکزی حکمرانی کے تحت رہا ہے، یہاںآخری انتخابات9سال قبل ہوئے تھے۔ لوگوں کے حقوق اور نمائندگی کی صریح نظر اندازی خوفناک عمل ہے۔‘‘یاد رہےجموں و کشمیر میں آخری اسمبلی انتخابات2014 ء میں ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ حد بندی کمیشن کی سفارشات کے بعدیہ توقع کی جا رہی تھی کہ جموں و کشمیر کے انتخابی نقشے کو دوبارہ بنانے کے عمل کی تکمیل سے یونین ٹیریٹری میں اسمبلی انتخابات کی راہ ہموار ہوگی۔ حد بندی پینل کی رپورٹ کے بعد، الیکشن کمیشن آف انڈیانے نظرثانی شدہ ووٹر لسٹ پر کام شروع کیا۔ ماضی میں فاروق عبداللہ قیادت میں ایک کل جماعتی وفد نے نئی دہلی میں الیکشن کمیشن آف انڈیاکو پیش کردہ اپنے میمورنڈم میں کہا تھاکہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں تاخیر اور انکار جموں و کشمیر کے لوگوں کے بنیادی اور جمہوری حقوق سے انکار کے مترادف ہوگا۔ وفد نے کہا کہ اسمبلی انتخابات ہندوستان کے آئین میں دیے گئے تمام آئینی حقوق کی بحالی اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی سیاسی خواہشات کی تکمیل کی طرف پہلا اور اہم ترین قدم ہوگا۔درایں اثناء بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا پر زور دیا ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کے حوالے سے اقدامات اٹھائیں اور تاریخوں کا اعلان کردے۔ سابقہ وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے بھی جموںو کشمیر میں جمہوری عمل کی بحالی پر زور دیتے ہوئے بلا تاخیر الیکشن کرانے کی مانگ کی ہے۔