امت نیوز ڈیسک //
سرینگر: سابق مرکزی وزیر اور کانگریس رہنما پروفیسر سیف الدین سوز نے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے متنازع افسر ڈاکٹر شاہ فیصل پر طنز کیا ہے کہ انہوں نے کشمیری عوام کو ایک رائے دی ہے کہ وہ آئین ہند کی دفعہ 370 کو بھول جائیں اور آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ شاہ فیصل نے جان بوجھ کر اپنے بیان کے دوسرے حصے کی وضاحت نہیں کی ہے۔ ایک سرکاری ملازم، جوکہ اتفاق سے کشمیری بھی ہیں، شاہ فیصل نے کشمیری عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ آئین ہند کی دفعہ 370 کو بھول جائیں اور آگے بڑھیں، سوز نے سرینگر میں جاری کیے گئے ایک بیان میں کیا۔ ان کے مطابق شاہ فیصل نے دانستہ طور اپنے بیان کے دوسرے حصے کی وضاحت نہیں کی۔
سوز کے مطابق چونکہ شاہ فیصل اب مرکزی حکومت میں ایک عہدے پر براجمان ہیں اور محکمہ ثقافت میں ڈپٹی سیکرٹری ہیں، اس لیے کشمیری ان کے مشورے پر کان دھر سکتے تھے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ عام کشمیریوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ شاہ فیصل معاملات پر اپنی رائے کو اکثر بدلتے رہتے ہیں، اس لیے لوگ ان کی کہی ہوئی بات پر رائے زنی کرنے سے کتراتے ہیں۔سیف الدین سوز کے مطابق کشمیر کے بعض سیاسی تجزئیہ نگار اس بات پر برہم ہیں کہ محض چند ماہ پہلے شاہ فیصل نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی دائر کی تھی کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے دل و دماغ میں امن قائم کرنے کیلئے عدالت عظمیٰ دفعہ 370 کی مکمل تشریح کرے۔ اس کے بعد لوگون نے یہ بھی دیکھا کہ شاہ فیصل نے سپریم کورٹ سے اپنی عرضی واپس لی اور خود کیلئے مرکزی حکومت میں آرام دہ نوکری کا انتخاب کیا۔
سوز نے کہا کہ یہ ساری تبدیلی شاہ فیصل کے تصورات میں صرف چند دن کے اندر ہی واقع ہوئی۔ انکے مطابق عام کشمیریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شاہ فیصل کے تصورات میں نئی تبدیلی اانے تک انتظار کریں گے۔ سوز کا یہ استہزائیہ بیان اس پس منظر میں سامنے آیا ہے کہ سپریم کورٹ نے گیارہ جولائی کو دفعہ 370 سے متعلق دائر متعدد عرضداشتوں کی شنوائی کیلئے جو شیدول جاری کیا ہے اس میں شاہ فیصل اور دیگراں کا نام استعمال کیا گیا ہے حالانکہ شاہ فیصل نے پہلے ہی ایسی پیٹشن عدالت عظمیٰ سے واپس لی تھی۔درال جن 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آئین ہند کی دفعہ 370 کی کئی شقوں اور دفعہ 35 اے کو کالعدم قرار دیا گیا تو شاہ فیصل ایک سیاسی جماعت کے سربراہ تھے اور پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کا حصہ تھے جس میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ دفعہ 370 کو ختم کرنے کی تمام کوششوں کی مزاحمت کی جائے گی اور جموں و کشمیر کے خصوصی تشخص پر کسی طرح کی آنچ آنے نہیں دی جائیگی۔
سیاسی جماعت قائم کرنے سے پہلے شاہ فیصل نے فروی 2018 میں انڈین ایڈمستریٹیو سروس سے استعفیٰ دیا تھا اور کئی مقامی نوجوانوں نے انکی دیکھا دیکھی انکی جماعت میں شمولیت اکتیار کی تھی جبکہ بڑے پیمانے پر انکی جماعت کو لوگوں نے فنڈز بھی دئے تھے۔ شاہ فیصل نے 5 اگست کے واقعات کو جموں و کشمیر کی آئینی خودمختاری کے برخلاف قرار دیا تھا اور اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اسے تسلیم کرنے والا صرف ایک غدار ہوسکتا ہے۔
ان بیانات کے پس منطر میں شاہ فیصل کو حراست میں لیا گیا اور کشمیر کے دیگر سیاسی رہنماؤں سمیت انہیں بھی کئی ماہ تک سرینگر کے سنطور ہوٹل میں پابند سلاسل کیا گیا۔ تاہم جیل سے رہا ہونے کے بعد شاہ فیصل نے سیاست سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کیا ۔ اس دوران وہ سرینگر سے دہلی منتقل ہوئے اور وہاں چند تھنک ٹینکز کے ساتھ کام کرنے لگے۔ شاہ فیصل نے بعد میں سرکاری ملازمت سے استعفے کا فیصلہ واپس لیا اور انہیں مرکزی محکمہ ثقافت میں تعینات کیا گیا۔ وہ بسا اوقات وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف میں ٹویٹ کرتے ہیں جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ وزیر اعظم کی ذاتی سفارش پر انکی نوکری بحال کردی گئی ہے۔