امت نیوز ڈیسک //
نئی دہلی:قومی اقلیتی کمیشن نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو ایک مکتوب روانہ کیا ہے جس میں حالیہ دنوں شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک انجینئر کی موت کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کمیشن نے اس پر اسرار موت کے بارے میں پولیس کی تحقیقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
محکمہ تعمیر عامہ میں کام کرنے والے اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر گرمیت سنگھ، ہفتہ کو معمول کے مطابق اپنے گھر سے دفتر کی جانب روانہ ہوئے تھے لیکن بعد میں انکا رابطہ گھر والوں کے ساتھ منقطع ہو گیا۔ شام گئے تک جب گرمیت سنگھ گھر واپس نہیں لوٹے تو انکے افرد خانہ نے پولیس میں گمشدگی سے متعلق رپورٹ درج کی۔ پولیس نے ایک ڈی ایس پی کی قیادت میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تاکہ لاپتہ انجینئر کو بازیاب کیا جا سکے۔ تاہم اس ٹیم کو تین روز میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔منگل کی صبح ایس ڈی آر ایف، پولیس اور دیگر اداروں نے گانٹہ مولہ علاقے میں لور جہلم ہائیڈل پروجیکٹ کے ایک بیراج میں ایک لاش کا پتہ لگایا۔ جب غوطہ خوروں نے لاش کو پانی سے باہر نکالا تو معلوم ہوا کہ یہ لاش گرمیت سنگھ کی ہی ہے۔ لاش کو ضروری قانونی لوازمات کے بعد لواحقین کے حوالے کیا گیا۔ پولیس یہ بتانے سے قاصر ہے کہ گرمیت سنگھ کی موت کن حالات میں ہوئی۔ اگرچہ بعض شواہد انکی موت کو خودکشی بتاتے ہیں تاہم یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس کی دوسری وجوہات بھی ہوسکتی ہیں جن میں قتل بھی شامل ہے۔
اقلیتی کمیشن کے ایک بیان کے مطابق انہوں نے گرمیت سنگھ کی موت سے متعلق کشمیر میں رہنے والے سکھوں کی خبروں اور ٹیلی فونک کال کا نوٹس لیا ہے۔ کمیشن کو موصولہ اطلاعات کے مطابق متاثرہ خاندان اور سکھ برادری گرمت سنگھ کے مبینہ اغوا کے بعد مقامی پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں ہے۔ کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کو مکتوب میں لکھا ہے کہ اس معاملے کی سینئر افسر یا خصوصی تفتیشی ٹیم سے تحقیقات کی جانی چاہئے۔
انکے مطابق چونکہ یہ معاملہ سکھ اقلیتی برادری کے جذبات سے متعلق ہے، اسلئے اقبال سنگھ لال پورہ نے ایل جی، جموں و کشمیر کو ایک خط لکھا ہے جس میں متاثرہ کے خاندان اور سکھ برادری کے مطالبے پر ہمدردی سے غور کرنے اور متاثرہ خاندان کو معاوضہ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ قومی اقلیتی کمیشن ایکٹ 1992 کے تحت بنائے گئے قومی کمیشن برائے اقلیت کو دوسری باتوں کے ساتھ یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق اور تحفظات سے محرومی سے متعلق شکایات کا جائزہ لے۔”