امت نیوز ڈیسک //
سرینگر (جموں و کشمیر): بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں شرمسار کرنے والا واقعہ گزشتہ روز اُس وقت پیش آیا جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمان رمیش بدھوری نے ریاست اتر پردیش کی امروہہ سے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی نمائندگی کرنے والے رکن پارلیمان دانش علی کے خلاف جارحانہ تبصرے کا استعمال کیا۔ اس نے دانش علی کو ’’مسلم اگروادی‘‘ (مسلم دہشت گرد)،’’بھڑوا‘‘ (دلال) اور ’’کٹوا‘‘ (ختنہ کیا ہوا) کہا۔ دیگر ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر کے سیاسی لیڈران بی جے پی کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
رکن پارلیمان کے مسلم مخالف تبصرہ پر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھڑوا، کٹوا، مُلا آتنگ وادی (دہشت گرد)۔ اس نفرت انگیز ’محترم‘ ایم پی کی زبان کتنی آسانی سے پھسل جاتی ہے! مسلمانوں کے خلاف نفرت کو اب آسان اور عام بنا دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایسا ماضی میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘
عمر عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’’وہ مسلمان جو بی جے پی کو اپنی پارٹی کے طور پر پہچانتے ہیں، نفرت کی اس سطح کے ساتھ ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں؟‘‘ ادھر، جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کی دختر اور اُنکی میڈیا مشیر نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے بی جے پی کے سابق وزراء ہرشوردان اور آر ایس پرساد کے قہقہے پر سوال اٹھایا ہے۔
التجا کا کہنا تھا کہ ’’دو سابق مرکزی وزراء اپنے ایک ساتھی کی جانب سے ایک مسلم ایم پی کو – بھڈوا، کٹوا اور ملا آتنک وادی کہنے پر قہقہے لگا رہے ہیں۔‘‘ التجا مفتی نے بی جے پی کی مسلم مخالف آئیڈیولاجی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا: ’’کیا بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت کو اس بات سے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ہم مسلمانوں کے خلاف اس نفرت کو اب نارمل کیا جا رہا ہے”.