امت نیوز ڈیسک //
سرینگر : حال ہی میں اختتام ہوئے پارلیمانی انتخابات میں بارہمولہ لوک سبھا سیٹ پر جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کو جیل میں بند عبد الرشید شیخ المعروف انجینئر رشید کے ہاتھوں شکست کے بعد، این سی کے صدر کو سوشل میڈیا پوسٹ پر انجینئر رشید کی جیت کو خطے میں ’’علیحدگی پسندی کی بحالی‘‘ سے جوڑنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عمر عبداللہ نے گرچہ بارہمولہ نشست پر اپنے قریبی مخالف اور علیحدگی پسند سیاست ترک کرکے مین اسٹریم میں شامل ہوئے سجاد لون سے کہیں زیادہ ووٹ بٹورے تاہم انجینئر رشید کے ہاتھوں عمر عبداللہ کو دو لاکھ سے بھی زائد ووٹوں سے شکست نے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ جمعرات کو عمر عبداللہ نے ایک نمایاں آؤٹ لیٹ میں شائع کیے گئے ایک آرٹیکل کا ایک اقتباس شیئر کرکے دعویٰ کیا کہ ’’انجینئر رشید کی جیت علیحدگی پسندوں کو بااختیار بنائے گی اور کشمیر کی شکست خوردہ اسلامی تحریک کو امید کا ایک نیا احساس دے گی۔‘‘
عمر نے ایک اور معروف روزنامہ میں شائع ایک اور مضمون شیئر کیا جس میں دعوی کیا گیا کہ رشید نے ’’بائیکاٹ ووٹ کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا، جو پہلے وادی میں ووٹنگ بوتھوں سے دور رہتے تھے، اور انہوں نے اب اس ووٹ کو مزاحمت کے طور پر استعمال کیا۔‘‘ انجینئر رشید کے فرزند، جنہوں نے اپنے اسیر والد کے لیے انتخابی مہم چلائی، اپنی انتخابی تقاریر میں عموماً کہتے: ’’میں جانتا ہوں کہ آپ (لوگ) بائیکاٹ کے حامی ہیں۔ لیکن مجھ سے وعدہ کرو اس بار تم ووٹ ڈالنے کے لیے باہر آؤ گے، آپ کا ووٹ میرے والد کو جیل سے رہا کر سکتا ہے۔‘‘
سرینگر پارلیمانی نشست پر این سی کے آغا روح اللہ کے ہاتھوں شکست کھانے والے پی ڈی پی لیڈر وحید الرحمن پرہ نے عمر کے ’’رجعت پسندانہ موقت‘‘ پر سابق وزیر اعلیٰ کی سخت تنقید کی۔ وحیر پرہ نے کہا: ’’عمر عبداللہ کے رجعت پسندانہ موقف سے انتہائی مایوس۔ جمہوری اظہار کو ’’اسلام پسند لہر‘‘ قرار دینا 1987 کی تفرقہ انگیز سیاست کی بازگشت۔‘‘ عمر نے وحید پرہ کے جواب میں کہا کہ انہوں نے جو مضامین شیئر کیے ہیں وہ ’’میرے خیالات نہیں بلکہ ایک نقطہ نظر ہیں۔‘‘