امت نیوز ڈیسک //
سری نگر: پاکستان سے ایک وفد اتوار کی شام کو سندھ آبی معاہدے کے تحت دو ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹس کا معائنہ کرنے جموں پہنچا۔ یہ دورہ غیر جانبدار ماہرین کی کارروائی کا حصہ ہے جس کا مقصد پانی کے استعمال پر تنازعات کو حل کرنا ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ وفد وادی چناب میں کشن گنگا اور راٹلے پن بجلی کے منصوبوں کا معائنہ کرے گا۔ 1960 کے معاہدے کے تنازعات کے حل کے طریقہ کار کے تحت پانچ سالوں میں کسی پاکستانی ٹیم کا جموں و کشمیر کا یہ پہلا دورہ ہے۔ آخری معائنہ جنوری 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے سے پہلے ہوا تھا۔
2016 میں، پاکستان نے ان منصوبوں کے ڈیزائن پر اپنے اعتراضات کے حوالے سے عالمی بینک سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔ اگرچہ پاکستان نے ابتدائی طور پر ایک نیوٹرل تجربہ کار کے ذریعے حل طلب کیا تھا، لیکن بعد میں اس نے ثالثی عدالت کے ذریعے فیصلے کی پیروی کی۔
تاہم، بھارت نے مسلسل غیر جانبدار ماہرین کی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ، جس پر بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان نے 1960 میں دستخط کیے تھے، دریائی پانی کے استعمال پر تعاون کے لیے مستقل انڈس کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ، چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کو اور راوی، بیاس اور ستلج کا پانی بھارت کو دیا گیا ہے۔
اکتوبر 2022 میں، عالمی بینک نے دو طرفہ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ایک غیر جانبدار ماہر اور ثالثی عدالت کا سربراہ مقرر کیا۔ بعد ازاں بھارت نے معاہدے میں ترمیم کے لیے ایک نوٹس جاری کیا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ معاہدے کے تحت ایک ہی مسلے پر ایک ساتھ غور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ثالثی کی عدالت نے جولائی 2023 میں فیصلہ دیا کہ وہ ثالثی کے لیے پاکستان کی درخواست پر فیصلہ دے سکتی ہے۔
پاکستان نے مارچ 2023 میں اپنی قانونی دستاویزات جمع کرائے اور اپریل میں، ثالثی کی عدالت نے پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کا دورہ کیا۔ بھارت نے ثالثی عدالت میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے اگست 2023 میں اپنا کیس نیوٹرل ایکسپرٹ کے سامنے پیش کیا۔
دورے کو آسان بنانے کے لیے جموں و کشمیر انتظامیہ نے مختلف محکموں سے 25 افسران کو تعینات کیا ہے۔ یہ اہلکار دونوں ممالک کے غیر جانبدار ماہرین اور وفود کی سرگرمیوں کو مربوط کریں گے۔