امت نیوز ڈیسک //
ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں پانچ اگست کے بعد آج ایک اور بڑا الٹ پھیر ہوا ہے۔ ڈھاکہ میں سپریم کورٹ کے احاطہ میں ہزاروں وکلاء اور طلباء نے چیف جسٹس اور اپیلٹ ڈویژن کے ججوں سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد چیف جسٹس عبیدالحسن نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ استعفیٰ سے قبل قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے مشیر پروفیسر آصف نذر نے احتجاجی طلباء کو یقین دلایا تھا کہ چیف جسٹس عبید الحسن نے استعفیٰ دے دیا ہے۔
پروفیسر آصف نذر نے اپنے فیس بک پوسٹ میں ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ، میں آپ کے ساتھ ایک خاص خبر شئیر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، ہمارے چیف جسٹس نے چند منٹ پہلے ہی عہدے سے استعفی دے دیا ہے، ان کا استعفیٰ وزارت قانون میں پہنچ چکا ہے، ہم ضروری اقدامات کرنے کے لیے اسے بلا تاخیر صدر مملکت کو بھجوا دیں گے۔ آصف نذر نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ یہ عمل بہت جلد مکمل ہو جائے گا۔
قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے مشیر پروفیسر آصف نذر نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ ‘ہمیں صرف چیف جسٹس کا استعفیٰ موصول ہوا ہے، دوسروں کے استعفیٰ کے بارے میں کوئی اپ ڈیٹ نہیں ہے’۔
مظاہرین نے سپریم کورٹ کے احاطے میں جمع ہو کر چیف جسٹس کو دوپہر ایک بجے تک مستعفی ہونے کا الٹی میٹم جاری کیا تھا۔ بصورت دیگر، انہوں نے چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی رہائش گاہوں کا محاصرہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ یہ اعلان امتیازی سلوک مخالف اسٹوڈنٹ موومنٹ کے کوآرڈینیٹروں میں سے ایک حسنات عبداللہ نے سپریم کورٹ کے احاطے سے کیا تھا۔
صبح 10:30 بجے کے قریب، طلباء اور وکلاء سمیت سینکڑوں مظاہرین سپریم کورٹ کے احاطے میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے اور چیف جسٹس اور اپیلٹ ڈویژن کے ججوں سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔
احتجاجی طلباء کا کہنا تھا کہ، فاشسٹ، عبوری حکومت کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی لیے ہم سپریم کورٹ کے احاطے میں چیف جسٹس کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے آئے تھے۔
علی الصبح عبوری حکومت کی وزارت یوتھ اینڈ سپورٹس کے مشیر آصف محمود نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے چیف جسٹس عبیدالحسن سے غیر مشروط استعفیٰ دینے اور فل کورٹ میٹنگ روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
احتجاج کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس عبیدالحسن نے سپریم کورٹ کے ججوں کا فل کورٹ اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق فل کورٹ اجلاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے بلایا گیا تھا کہ آیا عدالت کا کام عملی طور پر چلے گا یا نہیں۔