نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی خوشیاں لوٹا دیں جائیں۔ اس پر ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے، لیکن ہم ڈرنے والوں میں سے نہیں، ہم مقابلہ کریں گے اور ایمانداری سے کرینگے، ہم نے کبھی بندوق اور گرینیڈ نہیں اُٹھائے اور ہماری جدوجہد پُرامن ہوگی۔ شیر کشمیر بھون جموں میں یک روزہ پارٹی کنونشن سے خطاب
نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ایک دن ان کو ضرور ہوش آئے گا لیکن اُس وقت پانی بہت بہہ گیا ہوگا اور پھر اُس بہاﺅ کو واپس موڑنا بہت مشکل ہوگا، اس لئے ضروری ہے کہ نئی دلی وقت رہتے جموں وکشمیر سے متعلق اپنی غیر سنجیدگی اور غیر دانشمندانہ پالیسی ترک کرے۔ وزیر اعظم نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ دل کی دوری اور دلی کی دوری کو ختم کیا جائے گا لیکن 24جون 2021سے آج تک اس سمت میں کیا گیا، کون سا دل جیتا گیا؟”جھوٹ بولنے کیلئے تو آپ نے بہت لوگ رکھے ہیں کبھی حق بیانی بھی کیجئے۔“ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مزیدکہاکہ ”ہم گاندھی کا ہندوستان واپس چاہتے ہیں، ہم نے گاندھی کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیاہے، ہم نے گوڈسے کے ہندوستان سے الحاق نہیں کیا ہے۔ ہم ہندو ،مسلم، سکھ اور عیسائی میں فرق نہیں کرتے، مذہبی ہم آہنگی ہماری ریت رہی ہے۔ لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا بند کیجئے، نفرتیں پھیلانا بند کیجئے، نفرتوں سے یہ دیش ختم ہوجائیگا، اپنے کام کی بنیاد پر الیکشن میں ووٹ مانگئے، مذہب کے نام پر نہیں“۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور نااُمیدی کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ”آج جموں وکشمیر کا نوجوان مایوس ہے، کیونکہ اُس کے ماں باپ نے اُس کی پرورشی اور پڑھائی لکھائی میں اپنا سب کچھ لٹا دیا ہے اور اب یہ بیٹا اپنے ماں باپ کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن یہاں اس کیلئے روزگار کے مواقعے بند کردیئے گئے ہیں، اس کے حقوق چھین کر باہر کے اُمیدواروں کو دیئے جارہے ہیں۔ دوسری جانب اب لوگوں سے روشنی کی زمینیں چھینی جارہی ہیں اور اپنی زمینوں سے سالہاسال سے روزگار کمانے والے بھی مایوسی کے بھنور میں بے کار بیٹھے ہیں۔ ایسے میں یہ نوجوان منشیات اور دیگر غلط کاموں کی طرف راغب ہورہے ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ہم اپنے بچوں کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں اور اس کیلئے ہمیں مل جل کر جدوجہد کرنی ہے“۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ آج جموں کا دکاندار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھاہے اور گاہک کے انتظار میں ہے، ان تاناشاہوں نے آناً فاناً دربارمو کی روایت ختم کردی، یہ دربارمو صرف کاروبار تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ عمل کشمیری، ڈوگری ،بودھ اور دیگر کلچروں کو جوڑ کر رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جموں، کشمیر کا دروازہ ہے اور کشمیر ،لداخ کا دروازہ ہے لیکن آج یہ لوگ یہ دروازے توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔”صرف راجہ آئے گا اور راجہ جائے گا“۔ہر طرف تاناشاہی پر مبنی نظام ہے، کوئی افسر فون اُٹھانے کیلئے تیار نہیں، آج بھاجپا کے لیڈران بھی کہتے ہیں جموں وکشمیر میں افسر شاہی لوگوں کیلئے وبال جان بن گئی ہے۔لیکن ان کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ لوگ مالک ہوتے ہیں، افسر مالک نہیں ہوتے، افسر لوگوں کے خادم ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ملک کے عوام نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرکے اس لئے ملک کو آزاد نہیں کرایا تھا کہ ایک تانا شاہی نظام ختم ہوجائے گا اور دوسرا آجائے گا۔ موجودہ دور میں یہاں صرف جمہوریت کی مضبوطی کے دعوے کئے جارہے لیکن جمہوریت کا کہیں نام و نشان نہیں۔ آج بات سننے کیلئے کوئی تیار نہیں۔