(کولمبو) سری لنکا میں معاشی بحران سے پیدا ہونے والا عدم اطمینان اب خانہ جنگی کا باعث بن سکتا ہے۔ پیر کو وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے نے اپوزیشن کے دباؤ پر استعفیٰ دے دیا۔ ان کے استعفے سے ناخوش حامیوں نے دارالحکومت کولمبو میں پرتشدد واقعات کو انجام دیا جس کے بعد ان کے مخالفین بھی برہم ہوگئے۔ جب راجا پاکسے کے حامیوں نے کولمبو سے نکلنے کی کوشش کی مختلف مقامات پر ان کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب مظاہرین نے ہمبنٹوٹا میں مہندا راجا پاکسے کے آبائی گھر کو نذر آتش کر دیا۔ اسی دوران دارالحکومت کولمبو میں سابق وزیر جانسن فرنینڈو کو گاڑی سمیت جھیل میں پھینک دیا گیا۔ سری لنکا کئی ماہ سے شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ ملک میں خوراک، ایندھن اور ادویات کی قلت ہے۔ اس بحران کو سری لنکا کی آزادی کے بعد کا سب سے شدید بحران کہا جا رہا ہے۔ کئی ہفتوں سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ نئی حکومت کا قیام مہندرا راجاپاکسے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 76 سالہ وزیر اعظم نے اپنے چھوٹے بھائی اور ملکی صدر گوٹابایا راجا پاکسے کو تحریری طور پر اپنا استعفیٰ پہنچا دیا ہے۔ اب سری لنکا میں نئی یونیٹی حکومت کا قیام ممکن ہو سکے گا۔ اس خط میں لکھا گیا ہے، ”میں فوری استعفیٰ دے رہا ہوں تاکہ آپ ملک میں ایک آل پارٹی حکومت قائم کر سکیں اور ملک کو اس حالیہ اقتصادی بحران سے نکال سکیں۔‘‘ جزیرہ رياست سری لنکا میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہہ چکی ہے کہ وہ کسی بھی ایسی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی، جس میں راجاپاکسے خاندان کے افراد شامل ہوں گے۔ وزیر اعظم کے استعفے کا مطلب ہے کہ موجودہ کابینہ تحلیل ہو گئی ہے۔ پیر کو کولمبو میں مظاہرین پر راجاپاکسے کے حمایتیوں کی جانب سے ڈنڈوں سے حملہ کیا گیا۔ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور کولمبو میں فوری طور پر کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ بعد ميں ملک گیر سطح پر کرفيو نافذ کر ديا گيا۔ اس تصادم کے باعث کم از کم 78 مظاہرین کو ہسپتال جانا پڑا۔ حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کی مدد کے لیے فوج بھی طلب کر لی گئی تھی۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے رپورٹرز کے مطابق راجاپاکسے کے حمایتیوں نے صدر کے دفتر کے باہر موجود مظاہرین پر حملہ کر دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق مہندا راجاپاکسے کے ہزاروں حمایتیوں کو بسوں کے ذریعے دیہی علاقوں سے ان کے دفتر کے قریبی مقامات پر لایا گیا۔ راجاپاکسے نے اپنے گھر کے باہر قریب تین ہزار افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کے مفادات کا تحفظ کریں۔ ان افراد کی جانب سے بعد میں مظاہرین کے ٹینٹوں کو اکھاڑ دیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو جائیں۔ وہاں موجود ایک عینی شاہد کا کہنا تھا، ” ہمیں مارا گیا، خواتین اور بچوں کو مارا پیٹا گیا۔‘ صدر گوٹابایا راجاپاکسے کی جانب سے ایک ٹویٹ میں پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی گئی۔ حزب اختلاف کے رکن ایرن وکرمنارتنے کا کہنا تھا ”صدر کو فوری طور پر وزیر اعظم کی جانب سے شروع کیے گئے تشدد کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ اتوار کو ملکی وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا تھا کہ حکومت مخالف مظاہرین خطرناک رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ 31 مارچ کو مظاہرین کی جانب سے صدر گوٹابایا راجاپاکسے کے گھر ميں داخل ہونے کی کوشش کے بعد سے وہ عوامی نظروں سے غائب ہیں۔ سری لنکا کے اس بحران کا آغاز کووڈ انیس وبا کے باعث ہوا جب سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کے باعث ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے اور حکومت کو درآمدات کم کرنا پڑیں جو ملک میں ضروری اشیاء کی کمی کا باعث بنی۔