سال 2023 عیسوی کے آغاز کے معاً بعد راجوری میں خونی حملے ہوئے جنہوں نے اس خطے میں سیکورٹی صورت حال اور عدم تحفظ کے احساس کو اُجاگر کردیا ہے۔ یکم اور دوم جنوری کو ہونے والے ان پُرتشدد اور خونین حملوں میں قریب سات معصوم انسانوں کی جانیں چلی گئیں جن میں دو معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ پہلا حملہ جو کہ ایک فائرنگ کا واقع تھا‘ کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور نو زخمی ہوئے جبکہ دوسرے حملے میں، اسی حملے کی جگہ کے قریب ایک آئی ای ڈی پھٹ گئی جس کے نتیجے میں ایک بچہ جائے وقوعہ پر ہی ہلاک ہوا جبکہ دیگر پانچ افراد زخمی بھی ہوئے۔اس دھماکے میں زخمی ہونے والا دوسرا بچہ بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا، جس سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد چھ ہو گئی۔ پہلے حملے سے متعلق شائع انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق عسکریت پسند ہندوؤں کے گھروں میں گھس گئے تھے اور انہوں نے شناخت کی تصدیق کے بعد نہتے لوگوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں یہ ہلاکتیں ہوئیں۔رپورٹ میں ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ راجوری میں شدت پسندوں نے شہریوں کے گھروں میں گھس کر چار ہندوؤں کو ان کے آدھار کارڈ کے ذریعے شناخت کی تصدیق کرنے کے بعد قتل کر دیا۔ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حملے میں دو شدت پسند ملوث تھے۔کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ شام7بجے کے قریب پیش آیا، جب دونوں عسکریت پسند جنگلوں سے گزر کر ہندو برادری کے تین گھروں میں گھس گئے۔انہوں نے اندر رہنے والوں پر فائرنگ کی۔ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے سب سے پہلے آدھار کارڈ چیک کئے اور مقتولین کی شناخت کی تصدیق کے بعد ان پر فائرنگ کی۔یہ حملہ پچھلے کئی سالوں کے دوارن مجموعی طور پر پُرامن جموں خطہ میں اس طرح کا پہلا حملہ تھا اور یہ نئے سال کے پہلے دن کے موقع پر ہوا تھا۔رپورٹ کے مطابق اس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے، ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ فائرنگ10منٹ کے اندر ختم ہوگئی۔ پہلے، حملہ آوروں نے اَپر ڈانگری میں ایک گھر پر حملہ کیا اور پھر وہ25میٹر دور چلے گئے اور وہاں کئی لوگوں کو گولی مار دی۔ بعد ازاں گاؤں سے بھاگتے ہوئے ان لوگوں نے دوسرے گھر کو نشانہ بنالیا۔انہوں نے کہا کہ کُل10لوگوں کو گولیاں لگیں اور ان میں سے تین کو گورنمنٹ میڈیکل کالج ہسپتال راجوری میں مردہ قرار دیا گیا۔ایک اور شدید زخمی شہری اس وقت دم توڑ گیا جب اسے دو دیگر زخمی افراد کے ساتھ جموں لے جایا جا رہا تھا۔ڈانگری کے سرپنچ دیراج کمار نے بتایا کہ شام7بجے کے قریب گولیوں کی آوازیں سنی گئیں اور کچھ دیر بعد ان کی شدت میں اضافہ ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ بعد میں مجھے فون کالز موصول ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کی طرف سے فائرنگ کی گئی ہے۔حملے پر ردعمل دیتے ہوئے جموں زون کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس مکیش سنگھ نے کہا کہ پولیس نے فوج اور سی آر پی ایف کے ساتھ مل کر راجوری شہر سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اَپر ڈانگری گاؤں میں حملہ کرنے والے دو مسلح افراد کو پکڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق حملے کے دوان بال ڈانگری گاؤں کے ایک مسلح دیہاتی کرشن نے ان حملہ آوروں کو خوفزدہ کر دیا جو قتل کی واردات میں مصروف تھے۔کرشن کے پاس ایک ہتھیار تھا جو گاؤں والوں کو عسکریت پسندی کو روکنے کے لیے دیا گیا تھا۔ اس حملے کے محض کچھ گھنٹے بعد یعنی 2 جنوری کی صبح9 بجے ایک مقامی شہری پریتم شرما کے گھر کے قریب ایک مشتبہ آئی ای ڈی دھماکہ ہوا۔پریتم کمار یکم جنوری کی فائرنگ کے متاثرین میں سے ایک تھا۔ اس دوسرے حملےمیں سات افراد زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے تھے، جن میں بہن بھائی وہان شرما اور سانوی مارے گئے۔ محض چند گھنٹے کے وقفے میں عسکریت پسندوں کے ہدف والے گھروں میں سے ایک پر ہونے والے دھماکے میں ایک بچہ موقع پر ہی ہلاک اور چھ دیگر زخمی ہو گئے، جن میں سے ایک بری طرح سے زخمی ہوا۔ جموں و کشمیر پولیس کے مطابق، دیسی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس کا منصوبہ سینئر سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا ۔
راجوری حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی شناخت دیپک کمار(23)، ستیش کمار(45)، پریتم لال(57) اور شیو پال(32)کے بطور ہوئی ہیں جبکہ زخمی افراد میں پون کمار(38)، روہت پنڈت(27)، سروج بالا(35)، ردھم شرما (17)،سشیل کمار(32) بتائے جاتے ہیں ۔ زخمی ہونے والی ایک12 سالہ لڑکی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی، جس سے مرنے والوں کی تعداد6ہوگئی ۔ دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے دو معصومین میں وہان کمار (4) اور سمیکشا دیوی(14) شامل ہیں جبکہ اس حملے میں زخمیوں کی شناخت سانوی شرما(7)، اینجل شرما (8)، کنہیا شرما (14)،ونش بھارگو(15)، سیجل شرما(18)، سمیکشا شرما(20)، شاردا دیوی(38)، سنتوش شرما(45)، اور کملیش دیوی(48) کے بطور ہوئی ہے۔ان جڑواں حملوں میں مارے گئے دو نابالغ کزن سمیت چھ افراد کی لاشوں کو3جنوری کو ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔8جنوری کو، ایک اور زخمی ہسپتال میں دم توڑ گیا اور مرنے والوں کی کل تعداد سات ہو گئی۔
ان حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس مکیش سنگھ کا کہنا تھا کہ حملوں کے جواب میں ایک زور دار تلاشی مہم شروع کی گئی ہے، جس میں پولیس، سینٹرل ریزرو پولیس فورس اور فوج کے دستوں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر دونوں حملہ اوروں کوگرفتار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جموں و کشمیر پولیس حکام کا خیال ہے کہ حال ہی میں بھرتی کیے گئے لیکن اچھی تربیت یافتہ ہائبرڈ دہشت گرد اس حملےمیں ملوث ہوسکتے ہیں اور ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ایک بڑی مہم چھیڑ دی گئی ہے۔
درایں اثنا جموں و کشمیر کی کئی مقامی جماعتوں نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تشدد میں حالیہ اضافے کے لیے کشمیر میں نئی دہلی کی پالیسیوں اور لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) منوج سنہا کی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔کشمیر ی سیاست دانوں نے راجوری میں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایل جی کی زیرقیادت حکومت کو دفعہ 370 کے چار سال قبل منسوخ ہونے کے بعد بھی ملی ٹنسی کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہی ہے۔جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے کہا کہــ’’ دہشت گرد اپنے متاثرین کے درمیان امتیاز نہیں کرتے، چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، جیسا کہ انہوں نے اتوار اور پیر کو ہونے والے حملوںمیں کیا ہے ۔ ‘‘انہوں نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں بے گناہ افراد کے قتل کی مذمت کرتا ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مقتول کس مذہب یا علاقے سے تعلق رکھتا ہے، ایک بے گناہ ایک معصوم ہوتا ہے۔‘‘فاروق عبداللہ کا کہنا تھاکہ نفرت کا ماحول ان معصومین کے قتل کا ذمہ دار ہے۔نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے سوال کیا کہ راجوری میں متاثرین کا کیا قصور تھا؟ یا شوپیاں میں مارے گئے کشمیری پنڈتوں کا کیا قصور تھا؟ سرینگر سے لوک سبھا کے رکن نے کہا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کے مطابق جموں و کشمیر میں دہشت گردی آرٹیکل370 کی وجہ سے تھی، لیکن وہ غلطی پر تھے۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا بی جے پی دہشت گردی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنائے ہوئے بھی اب چار سال گزر چکے ہیں؟حملوں کی مذمت کرتے ہوئےنیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نےمبینہ طور پر معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر عمل نہ کرنے پر حکام سے سوال کیا کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے اس واضح لاپرواہی کی تحقیقات اور احتساب کی ضرورت ہے۔ ماضی میں سیکھے گئے قیمتی اسباق نے ہمیں سکھایا تھا کہ تصادم یاحملوں کی جگہوں کو مکمل طور پر صاف کیے بغیرعوام کے حوالے نہ کریں۔لیکن راجوری میں اس ایس او پی پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟اپنے ٹویٹ پیغام میں عمر عبداللہ نے لکھا کہ اس ٹارگٹڈ حملے پر انہیں شدید صدمہ ہوا ہے۔ میں اس گھناؤنے حملے کی بلاشبہ مذمت کرتا ہوں اور مرنے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس حملے میں زخمی ہونے والے جلد اور مکمل صحت یاب ہو جائیں گے۔
پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی ان ہلاکتوں کی مذمت کی اور خطے میں عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے اس کےبقول انکےجھوٹے دعووںکے لیے بی جے پی پر حملہ کیا۔محبوبہ نے کہا کہ وہ اس بزدلانہ فعل کی مذمت کرتی ہیں اورمتاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کرتی ہیں۔ ٹویٹر پر جاری اپنے پیغام میں محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی حکمرانی اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے اس کے جھوٹے دعوؤں کے باوجود، تشدد بلا روک ٹوک جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر جموں و کشمیر کی اپنی منتخب حکومت ہوتی توجو میڈیا آج خاموش ہے وہی ان کوکوس رہا ہوتا۔ بی جے پی پر ہندو شہریوں کی ہلاکت سے سیاسی فائدے اٹھانے کا الزام لگاتے ہوئے محبوبہ مفتی نے عوام الناس سے اپیل کی کہ وہ اپنے بھائی چارے کو برقرار رکھیں۔ان کا مذید کہنا تھا کہ ’’یہاں ہر روز مسلمان مارے جاتے ہیں لیکن جب ہمارے ہندو بھائی مارے جاتے ہیں تو ایک مخصوص پارٹی اپنے فائدے کے لیے پورے ملک میں ہندو مسلم نفرت پھیلانے کے لیے ان واقعات کا فائدہ اٹھاتی ہے۔‘‘پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد لون نے ایک ٹویٹ میں کہاکہ ایک اور قتل عام۔ اس بار راجوری میں۔ بزدلانہ فعل کی مذمت کرتے ہیں۔ میرے خیالات ان لوگوں کے خاندانوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس گھناؤنے فعل کے مرتکب جہنم میں سڑیں گے۔الطاف بخاری کی قیادت والی اپنی پارٹی نے اسے ’’بزدلانہ حملہ‘‘ قرار دیا۔’’ اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے۔ ہم عام شہریوں کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں اور مرنے والوں کی سلامتی اور سوگواروں کے لیے طاقت کے لیے دعا کرتے ہیں،‘‘ مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی کے لیڈر اور قومی جنرل سیکریٹری جناب ترون چُگ نے حملوں کا الزام پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان جموں و کشمیر میں امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان حملوں کو بزدلانہ قرار دیتے ہوئے مسٹر چگ کا کہنا تھا کہ مودی حکومت اس طرح کے تشدد کو برداشت نہیں کرتی اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔راجوری میں کئی معصوم جانوں کے اتلاف پر اپنے صدمے اور غم کا اظہار کرتے ہوئے چگ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ پاکستان میں مقیم عسکریت پسندوں کی طرف سے بزدلانہ کارروائی ہے جو بنیادی طور پر مرکز کے زیر انتظام علاقے کی حالیہ ترقی اور نمو سے پریشان ہیں۔انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے نہتے اور معصوم لوگوں پر گولیاں برسانا بزدلانہ کارروائی ہے۔چگ نے کہا کہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوقوں اور پتھروں کی جگہ کتابوں اور کمپیوٹروں کو دیکھ کر پاکستان پریشان ہے۔ انہوں نے کہا،’’اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی ایجنٹ اس بات کو پوری طرح سمجھیں کہ مودی حکومت خطے میں ترقی اور خوشحالی کا نیا کلچر لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی‘‘۔چگ نے کہا کہ مودی حکومت وادی میں ہونے والے اس طرح کے تشدد کو برداشت نہیں کرتی ہے اور وہ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔چگ نے پاکستان آئی ایس آئی کو جموں و کشمیر میں امن اور دوستی کو خراب کرنے کی کوشش کرنے کے خلاف خبردار کیا۔ حملوں کے تناظر میںہندوستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیا ہے۔ انہوں نے ویانا میں خطاب کرتے ہوئے بھارت میں دہشت گردی بھیجنے پر پاکستان کی مذمت کی، تاہم انہوں نے پاکستان کا نام لینے سے گریز کیا۔ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے کا کہنا تھا کہ مہذب معاشرے میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں حریت کانفرنس نے بھی راجوری میں شہریوں کے قتل کی مذمت کی ۔ حریت نے کہا کہ انفرادی بنیادوں پر لیے گئے فیصلے اور کارروائیاں ’’تنازعہ کو ختم یا اسے روک نہیں سکتیں۔‘‘
درایں اثنا جموںو کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر جناب منوج سنہا نے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے لواحقین کو 10لاکھ روپے ایکس گریشیا اور سرکاری نوکری دینے کا اعلان کیا۔انہوں نے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور تعزیت کی۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندانوںکو یقین رکھنا چاہئے کہ حکومت اور پورا ملک دونوں ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔منوج سنہا نے حملوں کے تناظر میں سیکیورٹی لیپس کی گہرائی سے تحقیقات کا بھی حکم دیا۔راجوری میں حملوں کے جواب میں ، سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اضافی18کمپنیاں جموں و کشمیر بھیجے گی ۔ اضافی فوجیوں کو بنیادی طور پر راجوری اور پونچھ اضلاع میں تعینات کیا جائے گا تاکہ وہاں عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کو تقویت ملے۔راجوری میں ، اس حملے نے مظاہروں اور ہڑتالوں کو جنم دیا کیونکہ رہائشی مقامی انتظامیہ کو سیکورٹی کی کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ درایں اثنا نیوز 18 کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیز ذرائع کے مطابق راجوری میںہوا حملہ’’ دہشت گردانہ‘‘ حملہ تھا۔اعلیٰ انٹیلی جنس ذرائع نے اس نجی ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ راجوری ضلع میں چار افراد کی ہلاکت ایک دہشت گردانہ حملہ تھا، جس کا مقصد جموں اور کشمیر میں امن کو خراب کرنا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زمینی انٹیلی جنس رپورٹس بتاتی ہیں کہ حکومت کو جموں خطے میں مقامی طور پر دہشت گردی سے لڑنے کے لیے گاؤں کی دفاعی کمیٹیوں’ وی ڈی جی‘ کو دوبارہ قائم کرنے کے وعدے پر غور کرنا چاہیے۔اعلیٰ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ’’دہشت گردی کا تھیٹر جموں کی طرف منتقل ہو رہا ہے کیونکہ خطے میں اب کشمیری پنڈت زیادہ ہیں، جس سے ٹارگٹ کلنگ آسان ہو گئی ہےـ‘‘۔ رپوٹس کا مبینہ طور پر دعویٰ ہے کہ یہ ہلاکتیں انتظامیہ کی شبیہ بگاڑنےکی نیت سے کی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنا ہوتاہے اور یہ حملے جموں خطے میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا احیاء ہے۔‘‘ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ٹی آر ایف نے اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا، لیکن فائرنگ اور دیسی ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس (آئی ای ڈی) کا دھماکہ پیشہ ورانہ ہاتھ کی نشاندہی کرتا ہے۔ ٹیلی ویژن چینل کے مطابق انٹیلی جنس ذرائع کا مذید کہنا تھا کہ اس قسم کے حملے میں عام طور پر لشکر طیبہ کے نشانات ہوتے ہیں۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق راجوری میں دہشت گردانہ حملے میں ہندو برادری کے دو بچوں سمیت چھ افراد کی ہلاکت ہندو مسلم تقسیم کا باعث بن سکتی ہے، زمینی انٹیلی جنس رپورٹس بتاتی ہیں، حکومت کو جموں میں ی ڈی جی کی بحالی کے اپنے وعدے پر غور کرنا چاہیے۔ مذید برآںیہ کہ 1990ء کی دہائی میں جب جموں و کشمیر میں شدت پسندی اور تشدد اپنے عروج پر تھا،وی ڈی سیزنے دور دراز علاقوں میں لوگوں کی مدد کی اور ان کا دفاع کیا۔خاص طور پر2001 میں کمیٹیوں کو دہشت گردوں سے لڑنے اور متعدد ہلاکتوں کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی ہجرت روکنے کا سہرا دیا گیا تھا۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق ڈوڈہ، کشتواڑ، رام بن جیسے علاقے، پیر پنجال رینج کے کچھ حصے جیسے راجوری اور پونچھ، اور وادی چناب میں مخلوط آبادی ہے اور فرقہ وارانہ طور پر حساس ہیں۔ سینئر افسران کا کہنا ہے کہ وادی چناب میں دہشت گردوں کا خطرہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے انسداد دہشت گردی گرڈ کو تیز کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی چناب سے کچھ نوجوان لاپتہ ہیں۔وادی چناب کے اضلاع کے بالائی علاقوں میں پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی موجودگی کم ہے۔ اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو وردی میں ملبوس شخص کو جائے وقوعہ تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ یہ گروہ ایسے علاقوں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ زمینی انٹیلی جنس رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ وی ڈی جی مختلف کمیونٹیز کے ارکان کے درمیان اعتماد کو بڑھا سکتے ہیں اور ہجرت کو روکنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔اگرچہ ماضی میں، مسلمان اور ہندو دونوں نے وی ڈی سی میں حصہ لیا تھا، تاہم کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ چونکہ کشتواڑ، ڈوڈہ، راجوری، پونچھ اور رام بن فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقے ہیں، اس طرح کے اقدامات ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کو مزید گہرا کر سکتے ہیں۔
بہرحال راجوری حملوں کے معاً بعد ان علاقوں میں وی ڈی سی ممبران کو فعال کرنے کا عمل تیز تر کردیا گیا ہے جبکہ اخباری رپورٹوں کے مطابق متعلقہ ڈپٹی کمشنرکی نگرانی میں مقامی لوگوں کے درمیان ہتھیار بانٹنے کا کام بھی دردست لے لیا گیا ہے جبکہ ’’دی وائر‘‘ نامی نیوز پورٹل کے مطابق مقامی وی ڈی جی ممبران کوہتھیار استعمال کرنے کی تربیت دینے کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔خود پولیس سربراہ مسٹر دلباغ سنگھ نے راجوری میں حملے کے متاثرین کی ڈھارس بندھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اس واقعے کے بعد وی ڈی جی کو ازسر نو بحال کرنا ضروری بن گیا ہے اور جن ممبران سے ہتھیار واپس لئے گئے ہیں انہیں واپس کیا جارہا ہے۔۔۔۔یاد رہےکہ راجوری کے ساتھ ساتھ پورے جموں خطے میں ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج جاری ہے جبکہ اکثر احتجاجی اس واقعے کے لئے یو ٹی انتظامیہ کو بھی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ احتجاجیوں کا خیال ہے کہ90 کی دہائی میں جب کشمیر میں سیکورٹی گرڈ تیز کیا گیا اور دبائو بڑھایا گیا ،جموں خطے میں عسکری کارروائیاں تیز ہوئیں اور آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے اور حکومت ان حملوں کو روکنے میں ناکام ہورہی ہے۔
حالیہ حملوں کے بعد سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں نے جموں خطے میں جوابی کارروائیاں تیز تر کردی ہیں اور حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور مذید حملوں کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ پچھے دس روز سے پورے علاقےمیں فورسز کا کریک ڈائون جاری ہے اور کئی درجن افراد کو پوچھ تاچھ کی غرض سے گرفتار بھی کیا گیا ہے جبکہ پورے خطے میں مشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ سیکورٹی نظام کو بہتر بنانے کے لئے ہزاروں نئے اہلکار بھی علاقے میں پہنچ رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ راجوری گزشتہ دو سالوں میں کئی جنگجو حملوں کا مشاہدہ کر چکا ہے۔ مارچ سے اپریل2022تک ضلع کے کنڈی کوٹرنکا بیلٹ میں چار دھماکے ہوئے۔ پولیس نے ریاسی ضلع کے گاوں تکسان سے لشکر طیبہ کے اعلیٰ کمانڈر طالب حسین شاہ اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کے بعد کیس کا پیچھا کیا۔ گزشتہ سال11اگست کو راجوری کے درہال علاقے کے پرگل گاؤں میں آرمی کیمپ پر حملے کے دوران پانچ فوجی اور دو جنگجو مارے گئے تھے۔ 13اگست 2021کو عسکریت پسندوں نے راجوری میں ایک بی جے پی لیڈر کے گھر پر گرینیڈ پھینکا۔ ایک شیرخوار ہلاک اور سات دیگر زخمی ہو گئے۔نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے اب اپر ڈانگری کیس کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ امکان ہے کہ این آئی اےطالب حسین شاہ سے دوبارہ پوچھ گچھ کرے گی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ان کے پاس حملے کے بارے میں کوئی معلومات ہے یا نہیں۔ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ایسے مزید حملوں کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ درایں اثنا وزیر داخلہ امیت شاہ بھی حملے کے تناظر میں عنقریب راجوری کا دورہ کرنے والے ہیں ۔این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اس ہفتے کے آخر میں جموں و کشمیر کے راجوری ضلع کا دورہ کریں گے۔ جموں اور کشمیر بی جے پی کے صدر رویندر رینا نے این ڈی ٹی وی کو بتایاکہ ’’ہاں، وزیر داخلہ راجوری ضلع کا دورہ کریں گے اور زمینی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔‘‘سرکاری ذرائع نے بتایا کہ امیت شاہ سیکورٹی حکام اور متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے راجوری جائیں گے۔واضح رہے اس ہفتے کے شروع میںوزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں بی جے پی کی قیادت کے ساتھ میٹنگیں کی تھیں، جس میں انہوں نے سیکورٹی اور انتظامیہ سے متعلق مسائل پر روشنی ڈالی تھی۔امیت شاہ نے انہیں یقین دلایا تھا کہ سیکورٹی معاملات اور انتظامیہ کو اسٹریم لائین کرنے کےلئے ہر ممکن قدم اٹھائے جائیں گے۔