جموں و کشمیرانتظامیہ کی جانب سے سرینگر میں پچھلے کچھ ہفتوں سے مٹن فروخت کرنے والے دکانداروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ نئے سال کے پہلے دو ہفتوں کے دوران سرینگر میں قصابوں کے خلاف اس کارروائی میں تیزی لائی گئی ۔محکمہ خوراک و عوامی تقسیم کاری کی جانب سے اب تک شہر میں تقریباً 117گوشت کی دکانیں سر بمہر کر دی گئی ہیں۔قصابوں پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ محکمہ ہذاکی جانب سے 535روپے فی کلومقررکردہ قیمت سے زیادہ قیمت پرگوشت فروخت کرتے ہیں۔ دکانداروں کی دکانیں سیل کرنے کے علاوہ ان سے بھاری جرمانے بھی وصول کیےگیے ہیں۔تاہم دوسری طرف سے قصاب دعوی! کر رہے ہیں کہ ان کی دکانیں بغیر کسی خلاف ورزی کے سیل کی جا رہی ہیں جبکہ وہ گوشت 535 روپے فی کلو ہی فروخت کرتے ہیں۔
پچھلے ہفتے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا،وائرل ویڈیو رعنا واری کا بتایا جا رہا ہےجہاں محکمہ خواراک و عوامی تقسیم کاری کےاہلکارایک قصاب کی دکان سیل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ دکاندار کی مزاحمت کے بعد محکمہ کے اہلکار ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ گوشت کس قیمت پر فروخت کرتے ہیں، قصاب جواباً کہتا ہے کہ وہ 535 روپے میں فروخت کرتے ہیں،جس پر اہلکار اسے دکان پر جانے کےلیے کہتا ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہتا ہوا سناجا سکتا ہے کہ” جب میری باری ہوگی تو اس وقت نہیں بخشوں گا!“دوسری طرف سے مذکورہ قصاب جسکی دکان رعنا واری علاقے میںہے، نےاسکے بعد ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا ان کی دوکان پر محکمہ امورصارفین کے عہدیداران آئے اور دکان کو سیل کرنے لگے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ طے شدہ نرخوں کے تحت گوشت فروخت کرتے ہیں تو انہیں تنگ کیوں کیا جا رہا ہے؟ مزید انہوں نے اس معاملے میں ایل جی انتظامیہ سے مداخلت کی اپیل کی۔
دریں اثنا قصائی دکانوں پر کریک ڈاؤن کے خلاف’’یونٹی مٹن ٹریڈرس ایسوسی ایشن‘‘ کے بینر تلے درجنوں قصابوں نے سوموار کو پریس کالونی سرینگر میں میں جمع ہو کر احتجاج درج کیا۔ اس دوران ایسوسی ایشن کے صدر محمد سلیم میر نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ”ہماری دکانیں روز بروز(بنا بتائے) سیل ہو رہی ہیں، کبھی لائسنز کا مسئلہ تو کبھی ریٹ کابہانہ بنایا جاتا ہے۔ان کا کہناتھا کہ دو سال پہلے ہمارے ساتھ 535 روپےفی کلوریٹ مقرر ہوئی اور تب سے اسمیں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ ہم اس ضمن میں متعلقہ حکام کے پاس بھی گئے۔ موصوف صدر نے کہا کہ اب ہماری فیملی پر اس کا اثر پڑنے لگا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تو ہم اپنےاہل و عیال کے ہمراہ بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کاروبار سے دوسے ڈھائی لاکھ لوگ جڑے ہوئے ہیں اور سب کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ ادھر مٹن ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر معراج الدین نے’’ اُمت نیوز‘‘ کو بتایا کہ قصابوں کی دکانیں بند کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ کچھ شرائط کے تحت مارچ 2021ء میں ایک سال کےلیے ریٹ مقرر کی گئی تھی تاہم مارچ 2022ء میں انتظامیہ کی جانب سے پھر سے کمیٹی بلا کر ریٹ مقرر کیوں نہیں کی گئی؟ وہیں انہوں نے کہا کہ” قصائی دوسرے لوگوں سے مال خریدتے ہیں ،حکومت کو چاہیے کہ اسکی جڑ تک جائے جہاں سے مال آتا ہے ‘وہاں سے قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے، دکاندار قیمتوں کو کنٹرول کیسے کر سکتے ہیں۔‘‘
وادیٔ کشمیر میں مٹن گوشت کی قیمتوں پر انتظامیہ اور قصابوں کے درمیان رسہ کشی کوئی نئی بات نہیں۔ہرسال وادی میں یہ رسہ کشی دیکھنے کو ملتی ہے ۔اس ضمن میںمارچ2021ء میں چار ماہ تک جاری تعطل‘ انتظامیہ اور مٹن ڈیلروں کے درمیان سمجھوتے کے بعد ختم ہوا تھا۔تب سمجھوتے کے تحت بغیر اوجڑی گوشت فی کلو کی قیمت 535اور معہ سو گرام اوجڑی 490 مقرر کی گئی تھی ۔ اس سے قبل نومبر 2020ء میں مٹن کی 480 روپئے مقرر کی گئی تھی۔اگرچہ مٹن ریٹ مقرر کرنے کے لیے ہر سال ایک کمیٹی بیٹھتی ہے تاہم اس سے قبل یہ کمیٹی 2016ء بیٹھی اور مٹن کی قیمتیں 440 مقرر کی گئی تھیں۔ محمد طارق نامی قصاب نے اس بارے میںکہا کہ” ایک طرف جہاں انتظامیہ قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کا دعوی کرتی ہے لیکن پھر پچھلے دو سالوں میں انتظامیہ کی جانب سے نئی ریٹ مقرر کیوں نہیں کی گئی۔“وہیں مقامی لوگوں کا مانناہے مارکیٹ میں مٹن کی کمی کے باعث اب من مانی قیمتوں پر سری اور پائے فروخت کیے جا رہے ہیں جس پر محکمہ خوراک کی جانب سے کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ اس کاروبار سے 35ہزار کنبے وابستہ ہیں۔ایک اندازے کے مطابق وادی میں 5 کروڑ روپے کاروزانہ گوشت فروخت ہوتا ہے اور سالانہ دو ہزار سے پچیس سو کروڑ روپیے کا مال دوسری ریاستوں سے لایا جاتا ہے۔ اب دیکھنا ہو گاکہ انتظامیہ اور قصابوں کے درمیان جاری یہ رسہ کشی کب ختم ہو کر عام لوگوں کو راحت ملتی ہے۔