آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں !
عرصہ دراز سے جموں وکشمیر میں ہر روز نت نئے قوانین اور احکامات کا صدور ہونا معمول بن چکا ہے۔ ابھی ایک حکم نامے کی سیاہی سوکھی نہیں ہوتی ہے کہ نیا حکم نامہ آجاتا ہے اور عوام الناس کی چیخیں نکلواتا ہے۔قریب ایک دہائی قبل مرکز میں بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد سب سے پہلے جنگلات کی اراضی کو واگزار کرنے کی مہم چھیڑی گئی اور نزلہ غریب بکروالوں پر گرا۔ نئی انڈسٹرئیل پالیسی کا مسودہ سامنے آیا اور اس پر ہاہاکار مچ گئی۔پھر روشنی ایکٹ کا چرچا ہوا جسے عدالت لاجاکر کالعدم قرار دیا گیا اور چند امیروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں لاکھوں غریب رُل گئے جنہوں نے اسوقت کی منتخب سرکار کے فیصلے کے مطابق طے شدہ قیمت دے کر اس زمین و جائیداد کو حاصل کیا تھا ۔
جموں وکشمیر کے عوام کو اب ایک اور صورت حال کا سامناہے ۔ابھی لیز جائیدادوں سے متعلق احکامات کی سیاہی تر ہی تھی کہ سرکاری اراضی، کاہچرائی اور روشنی ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی زمینوں اور جائیدادوں سے بے دخلی کے نئے احکامات صادر کئے گئے ہیں۔ لیز اراضی اور جائیداد کا معاملہ چونکہ بالخصوص کاروباری طبقے سے متعلق تھا اس لئے عام لوگ اس سے تقریباً الگ ہی رہے ۔عوام الناس کی اکثریت تو بہرحال بھیڑ چال ہی چلتی ہے اور جب تک کسی کی اپنی ذات زد میں نہ آئے تب تک سب ٹھیک ٹھاک ہے کا نعرئہ مستانہ ہی لگارہتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب سرکاری اراضی اور کاہچرائی کو خالی کرنے سے متعلق نئے احکامات صادر ہوئے تو جموں صوبہ بالخصوص اُبل پڑا ہےاور پونچھ سے لیکر جموں تک اس کے خلاف احتجاج کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کشمیر وادی سے بھی اگرچہ کچھ سیاسی جماعتوں اور لیڈران کے مذمتی بیانات اخبارات کی زینت بنے ہیں لیکن یہاںکہیںسے کسی احتجاج کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ متعلقہ اراضیوں سے بے دخلی کایہ حکم رواں ماہ کے دوران ہی جاری کیا گیا ہےجس کے تحت روشنی ایکٹ کے تحت اراضی کی الاٹمنٹ، سرکاری اراضی یا کا ہچرائی پر جن لوگوں نے رہائشی مکانات تعمیر کئے ہیں یا جو لوگ کھیتی باڑی کر رہے ہیں سے کہا گیا ہے کہ وہ اس ماہ کے آخیر تک ان زمینوں کو خالی کریں۔ یہ تازہ ترین حکمنامہ یوٹی ایڈ مسٹر یشن کی جانب سے جاری ہوا ہے اور اس پر عمل آوری کیلئے متعلقہ ضلع کمشنروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔اس ضمن میں اخبارات میں چھپی خبروں کے مطابق حکومت نے تمام متعلقہ ایجنسیوں کو مربوط طریقے سے کام کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں ریاستی اراضی سے تجاوزات کو ہٹانے کے لئے تین ماہ کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔ سرکاری ذرائع کی مانیں تو حال ہی میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں چیف سکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا نے جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے طول و عرض میں ریاستی اراضی پر تجاوزات کے بارے میں تفصیلی غور و خوض کیا۔ذرائع کے مطابق اس میٹنگ میں محکمہ ریونیو کے اعلیٰ افسران نے چیف سکریٹری کے سامنے ماضی میں جاری ہدایات کے بعد سے اب تک ہٹائی گئی تجاوزات کی ضلع وار تفصیلات پیش کیںاور اس ضمن میں درپیش مشکلات کا بھی ذکر کیا۔ تفصیلی غور و خوض کے بعد چیف سیکرٹری نے محکمہ ریونیو کو ہدایت کی کہ وہ تمام قبضہ شدہ زمین کو واگزار کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔مہم کے دوران تمام متعلقہ ایجنسیوں جیسے ریونیو ڈپارٹمنٹ، سول اور پولس انتظامیہ کے درمیان مناسب تال میل پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر مہتا نے ہدایت دی کہ تمام متعلقہ محکمے اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس طرح کی تجاوزات کو تین ماہ کی مدت میں ہٹا دیا جائے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ محکمہ ریونیو کے کام کاج کا جائزہ لیتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ریاستی اراضی سے تجاوزات کو ہٹانے اور ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے اس کے استعمال کی منصوبہ بندی کے لیے قانون کے مطابق مناسب کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔اس ضمن میں حکم دیا گیا تھا کہ ریونیو ڈپارٹمنٹ کو سول انتظامیہ اور پولیس حکام کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنا چاہیے تاکہ ریاست کی زمین پر قبضہ کرنے کی کسی بھی کوشش کا پتہ لگایا جا سکے اور اسے غیر مجاز تعمیرات سے بچایا جا سکے۔ زمینی عہدیداروں کو اس بات کو یقینی بنانے کی بھی تلقین کی گئی تھی کہ غریبوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔
اس مبینہ میٹنگ کے بعد جیسے ہی اراضی اور جائیدادوں کو خالی کرنے کا اعلان کیا گیا تو خاص کر جموں ڈویژن میں اس کے خلاف ہاہاکار مچ گئی اور لوگ بلاتفریق مذہب و ملت اس نئے قانون اور حکم نامے کے خلاف سراپا احتجاج ہوئے۔ حکم نامے کے خلاف خطہ پیر پنچال کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا عمل شروع ہو گیا ۔ ’’اپنی پارٹی‘‘ لیڈران نے لوگوں سے سرکاری اراضی کی بازیابی کے لئے حکومت کی ہدایت پر شروع مہم کے خلاف پونچھ میں زبر دست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پارٹی ضلع صدر پو نچھ اور سابقہ ایم ایل اے حویلی پونچھ شاہ حمد تانترے کی قیادت میں منعقد ہ اس احتجاج میں سینکڑوں لوگوںنے حصہ لیا اور حکومت کیخلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس موقع پر شور یہ چکر کیپٹن بلراج دستہ بھی موجود تھے۔ اپنے خطاب میں شاہ محمد تانترے نے کہا کہ ہم کسی ایک بھی غریب کے گھر کو توڑنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی کسی بھی مہم سے باز رہے۔ شاہ محمد تانترے نے کہا کہ انتظامیہ اقتدار کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ لوگوں کے خلاف پے در پر فیصلے لئے جارہے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ جمہوری اداروں پر عوام کے اعتماد کی بحالی کے لئے ریاستی درجہ بحال کیا جائے اور اسمبلی انتخابات کا جلد سے جلد انعقاد کرے۔ احتجاج کے بعد اپنی پارٹی لیڈران نے اپنے مطالبات پر مبنی ایک میمورنڈم ضلع ترقیاتی کمشنر پو نچھ کو بھی پیش کیا۔ اسی طرح مینڈھر سب ڈویژن میں فاروق خان کی قیادت میں لوگوں کی جانب سے زبر دست احتجاج کیا گیا۔ اس موقع پر سابقہ ممبر اسمبلی مینڈھر جاوید رانا ساتھ دیگر کئی لیڈران نے بھی شرکت کی۔ جاوید رانا نے مظاہرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کا یہ حکم ایک آمرانہ قدم ہے جس کا مقصد چھوٹے کسانوں اور خاص طور پر دیہی علاقوں کے غریب لوگوں کی زندگی کو دکھی بنانا ہے۔ انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہ حکومت انسداد تجاوزات مہم کی آڑ میں عام لوگوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی زیادہ تر اراضی معاشرے کے غریب اور معاشی طور پر کمزور طبقات کے قبضے میں ہے اور وہ اسے بنیادی طور پر زرعی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ سابقہ رکن اسمبلی نے کہا کہ یہ جموں و کشمیر اور اس کے عوام کی ستم ظریفی ہے کہ مرکز کی حکومت جو اس مرکز کے زیر انتظام علاقے کے معاملات کو پراکسی کے ذریعے چلا رہی ہے، عوام دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور من مانے طریقے سے عوام دشمن احکامات جاری کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح راجوری کے قریب گر ودھن بالا گاؤں کے لوگوں نے جموں و کشمیر حکومت کے نئے لینڈ آرڈر کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا اور اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ گاؤں کے لوگ علاقے میں اکٹھے ہوئے اور ایک میٹنگ کی جس کے بعد ایک پریس کانفرنس ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ نیے لینڈ آرڈر کا مقصد غربت کی لکیر سے نیچے کے لوگوں کو نشانہ بنانا ہے اور اس سے چھوٹے کسانوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس ریاست کے لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کا مینڈیٹ ہے لیکن یہاں جموں وکشمیر میں معاملات الٹ ہیں۔ حکم نامے کے خلاف صوبائی دارالحکومت جموں میں ڈیمو کر یٹک آزاد پارٹی ،پی ڈی پی اور کانگریس نے احتجاج درج کیا۔ ڈیمو کریٹک آزاد پارٹی نے پانامہ چوک جموں میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ڈویژ نل کمشنر آفس تک مارچ کیا اور میمورنڈم سونپا۔ جنرل سکریڑی ڈی اے پی آر ایس چب نے کہا کہ پارٹی چیئر مین غلام نبی آزاد کی ہدایت پر حکومت کے زمین خالی کرنے کے حکم کے خلاف پر امن احتجاج کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں حقوق کے لیے کھڑے ہونے اور لڑنے کا وقت آگیا ہے۔ انکا کہنا تھا روشنی ایکٹ کے تحت زمین لوگوں کو سابقہ جموں و کشمیر ریاست کے ذریعے الاٹ کی گئی تھی۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ جو لوگ اس سکیم سے مستفید ہوئے تھے وہ زمین خالی کرنے پر مجبور ہیں، حالانکہ یہ معاملہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ ان کا مزید کہناتھا کہ جن لوگوں نے قانونی طور پر اراضی کی ملکیت حاصل کر رکھی ہے ، حکومت ان کو زبردستی بے دخل نہیں کر سکتی۔ ان سخت سردیوں میں وہ کہاں جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اراضی اور کا ہچرائی کو واپس لینے اور اس ماہ کے آخر تک لوگوں کو زبردستی بے دخل کرنے کا حکم انسانی حقوق کی ڈھٹائی کیساتھ خلاف ورزی ہے اور اس حکم نامے نے ہزاروں لوگوں میں خوف وہراس پھیلا دیا ہے اس لئے اسے فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔ پارٹی کے صوبائی صدر جنگل کشور نے کہا کہ ڈی اے پی ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے جو اس ایگزیکٹو آرڈر کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ صرف منتخب حکومتیں ہی لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔ درایں اثنا پی ڈی پی نے بھی زمین واپس لینے کے مسئلے کو لے کر احتجاج درج کیا۔ احتجاجی مظاہرین نے کہا کہ پی ڈی پی لوگوں کی جماعت ہے اور ہم کبھی بھی اس کے طرح کے قوانین کو لاگو نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوانین غریب لوگوں کے خلاف ہیں اور ان کو لوگوں پر تھو نپا جارہا ہے۔ اس دوران جموں و کشمیر کانگریس کے جنرل سکریٹری اور ڈی ڈی سی ممبر شری شاہنواز چودھری کی قیادت میں کانگریس کارکنوں نے پریس کلب جموں کے باہر زبر دست احتجاج کیا۔ اس موقعہ پر شاہنواز نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایل جی انتظامیہ جموں و کشمیر کے پسماندہ لوگوں کے خلاف کام کر رہی ہے، جو کہ ناقابل برداشت ہے۔ ہم اس غیر منصفانہ اراضی نوٹیفکیشن کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ قوانین تو عوام کی بہبودی کے لئے بنائے جاتے ہیں لیکن جموں و کشمیر میں قوانین لوگوں کو بے اختیار کرنے ، ان کی توہین کرنےاور انہیںسزادینے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا تازہ ترین حکمنامہ اس لئے جاری کیا گیا ہےکیونکہ مرکزی حکومت تمام ایجنسیوں کا غلط استعمال کرنے کے باوصف بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔اسی طرح جموں و کشمیر یو تھ نیشنل کانفرنس نے بھی انتظامیہ کی بے دخلی مہم پر تنقید کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے اپیل کی کہ وہ انسداد تجاوزات مہم کی آڑ میں عام لوگوں کی ہراسانی بند کروائیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی صدر یو تھ نیشنل کانفرنس جموں اعجاز جان نے حالیہ حکومتی حکم نامہ، کو محض ہراساں کرنے کا ایک سخت حکم قرار دیا۔ جان نے زور دے کر کہا کہ زیادہ تر سرکاری اراضی سماج کے غریب اور معاشی طور پر کمزور طبقات کے قبضے میں ہے اور وہ اسے بنیادی طور پر زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں یا زیادہ تر معمولی پناہ گاہوں کے لیے۔ زمین پر زرعی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی معمولی آمدنی کے علاوہ ان لوگوں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کا تحفظ اور بہبود حکومت کا اولین فرض ہے اور ایسے لوگوں کو سرکاری سرزمین سے بے دخل کرنا ان کے ساتھ سنگین نا انصافی کے مترادف ہوگا۔علاوہ ازیںپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی جنرل سکریٹری امتیاز احمد شان نے سرکار پر الزام لگایا کہ وہ جموں کشمیر کے شہریوں کو سرکاری اراضی کے نام پر ہراساں کر رہی ہے۔ انہوں نے گور نر انتظامیہ سے حکم نامہ کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا اور اتبادہ دیا کہ ایسانہ ہونے کی صورت میں پارٹی سڑکوں پر سر کار کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
یو ٹی انتظامیہ کے حکم نامے کو ناانصافی سے تعبیر کرتے ہوئے ایک مقتدر روزنامے نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’کشمیر نشین اور جموں نشین بیشتر سیاسی پارٹیوں نے اس حکمنامے پر خاموشی اختیار کی ہے البتہ غلام بنی آزاد ، سجاد غنی لون اور پنچایتی کا نفرنس نے اس حکمنامہ کو اپنی زبر دست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انسانی حقوق اور ذریعہ معاش کے تحفظ کے حوالہ سے کچھ سولات کئے ہیں جو بادی النظر میں واجب نظر آرہے ہیں۔ غلام نبی آزاد کارد عمل یہ ہے کہ روشنی ایکٹ کے تحت اراضی ضرورت مندوں کو الاٹ کی گئی ہے جس اراضی کو مستفید ہونے والوں نے اپنےلئے رہائش اور کھیتی باڑی کے لئے استعمال میں لایا ہے۔ جبکہ سرکاری یا کا ہچرائی اراضی کو لوگوں نے چٹانیں کاٹ کر اور زمین کو ہموار کر کے قابل کاشت بنایا ہے اور اس طرح یہ لوگ اب دہائیوں سے نہ صرف ان زمینوں پر رہائش پذیر ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کیلئے معاش بھی حاصل کر رہے ہیں۔ اس مخصوص پس منظر میں انہیں ٹھٹھرتی سردیوں کے ان ایام میں زمینوں سے دستبردار ہونے کا حکمنامہ ان کے ساتھ زیادتی ہی نہیں بلکہ غیر انسانی، غیر ہمدردانہ اور نا انصافی ہے۔ پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے بھی کچھ ایسا ہی رد عمل دیا ہے البتہ ان کا لہجہ سخت تھا۔ جبکہ پنچایتی کا نفرنس نے حکم نامے پر تفصیل اور بھر پور استدلال کے ساتھ اپنے رد عمل میں حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے حکم نامے پر نظر ثانی کرے۔ پنچایت کا نفرنس کا کہنا ہے کہ لوگوں کو بے گھر کر کے ملک کی کونسی خدمت کی جاسکتی ہے یا ملک و قوم کے کس مفاد کا تحفظ یقینی بن سکتا ہے۔‘‘اداریے میں لکھا گیا ہے کہ اوسط شہریوں کو نہیں معلوم کہ حکومت نے یہ حکمنامہ کیوں جاری کیا، اس کا مقصد کیا ہے اور آخر کون سی مجبوری یا مصلحت سر پر آن پڑی ہے کہ جو لوگ دہائیوں سے ان زمینوں کو آباد کئے ہیں انہیں بے گھر اور بے روزگار کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا ہے۔ ایک ایسی جگہ جو پہلے ہی زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے سنگین نوعیت کے مسائل سے جھوجھ رہی ہو ، جہاں روزگار کے وسائل دن بدن کم ہوتے جارہے ہوں، جہاں آبادی کے ایک بڑے طبقے کو مکانیت کا سنگین مسئلہ در پیش ہے ، سکیورٹی کے تعلق سے بھی بیک وقت کئی پہلوئوں سے معاملات کا سامنا ہے، اورجس کی آبادی دبائو اور دھمکیوں کے سایوں میں زندگی بسر کر رہی ہو اس میں نت نئے مسائل پیدا کرنا واقعی قابل تشویش اور فکر مندی کا موجب ہے‘‘۔
ہم نے جب ایک سیاسی لیڈر سے اس ضمن میں بات کی تو موصوف کا کہنا تھا کہ دراصل مرکزی حکومت اور اسکی ریاستی انتظامیہ یہاں کے لوگوں کو کسی بھی صورت میں سکھ کا کوئی ایک پل گزارنے کی اجازت دینے کی روادار نہیں ہے۔اسی لئے آئے روز نت نئے قوانین، احکامات اور فیصلے سنائے جاتے ہیں تاکہ لوگ اپنے گھر، اپنی زمین، اپنے بچوں ،اپنے مستقبل اور اپنی فلاح کے معاملے میں متذبذب رہیں اور روزمرہ زندگی کے مختلف مسائل جیسے بجلی، پانی، خوراک، بے روزگاری اور تعمیر و ترقی کے فقدان پر آوازاٹھانا تو کجا بات تک کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔ اسی مسئلے پر جب اخبار نویسوں نے کیمونسٹ لیڈر ایم وائی تاریگامی کی رائے جاننے کےلئے رابطہ کیا تو موصوف کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بہت تشویش ناک ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ دیہی غریبوں کی روزی روٹی تباہ کرنے پر قانع ہے۔ تاریگامی کامزید کہنا تھاکہ یہ اقدام نہ صرف ہزاروں لوگوں کو چھت سے محروم کرے گا بلکہ کاشت کاروںکے حقوق کو بھی سلب کردے گا۔یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ حکومت نے اپنی تمام مشینری کو غریبوںکی زمین اور روزی روٹی کو ہتھیانے کے لیے متحرک کر دیا ہے۔درایں اثنااس نئے حکم نامے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کردی گئی ہے جس پر فوری سماعت کی توقع ہے۔یہ کیس عبدالرشید و دیگر کی جانب سے دائر کیا گیا ہے جب کہ اس کی پیروی ایڈوکیٹ مظفر احمد خان کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ روشنی ایکٹ کے احکامات پر بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سامنے کئی عرضیاں زیر التوا ہیں لیکن اس کے باوجود جموں و کشمیرانتظامیہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں بڑے پیمانے پر زمین کی بازیابی کی کارروائی شروع کی ہے۔واضح رہے کہ ماضی میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ روشنی ایکٹ کو ختم کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والوں کے خلاف کوئی زبر دستی کی کار روائی نہیں کی جائے گی۔بہرصورت اس نئے حکم نامے پر عمل درآمد کے شور کے درمیان عوامی ردعمل اور قانونی چارہ جوئی کا سلسلہ بھی چل پڑا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ آنے والے دنوں میں کون سا رُخ لے لیتا ہے اور عوام الناس خاص طور پر غریب اور بے سہارا طبقات کےلئے ایام آیا تلخ ہوں گے کہ شیریں ہوجائیں گے۔