اعلان جاری ہے…،محترم غلام بنی شاہدؔ کے افسانوں کا مجموعہ ہے ۔یوں تو کشمیر میں بہت سارے افسانہ نگار اور ادب نواز ہیں تاہم ان میں سے بہت قلیل تعداد اُن افسانہ نگاروں کی ہے جو حق پسند اور حق شناس ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نام غلام نبی شاہدؔ کا ہے ۔یہ مجھے ان کی تصنیف اعلان جاری ہے …کو پڑھ کے محسوس ہوا۔میرے پاس اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے جس میں 23 افسانوں کے علاوہ چند قلم کاروں کے اسی کتاب پر تبصرے بھی شامل ہیں ۔
مصنف موصوف نے اپنا قلمی سفر 1973ء میں شروع کیا جب اُن کی کہانی ’’کتنے جھنڈے‘‘ وادی کے معروف روزنامہ’’ آفتاب‘‘ میں شائع ہوئی ۔مذکورہ کتاب کا حرف ِ آغاز جموں وکشمیر کے معروف افسانہ نگارنور شاہ صاحب نے لکھا ہے ۔شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اُن کی کہانیوں میں کشمیر کا پس منظر ہے ،کشمیر کے حالات و واقعات کی منظر کشی ہے ،اُن کی کہانیوں میں درد و کرب کی ایک عجیب فضا نظر آتی ہے ،اُن کی کہانیوں میں کشمیر کی مٹی کی خوشبو ابھرتی ہے ،اور سب سے بڑی بات یہ کہ غلام نبی شاہدؔ نے اپنی ذہنی پختگی کے سہارے ان کہانیوں کی زلفیں سنواری ہیں۔۔۔!‘‘پیش کلام وادی کے مشہور محقق اور ادیب محترم محمد یوسف ٹینگ نے لکھا ہے، لکھتے ہیںکہ ’’ کیا کشمیریوں کے جذبہ دل کی اس معصوم تفسیر سے زیادہ اور بہتر ترجمانی کی جا سکتی ہے ؟‘‘ وہیں پیش نامہ عنوان کے تحت وادی کشمیر کے معروف ادیب و صحافی غلام نبی خیال نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’افسانے کی ہیت کے بارے میں یہ رائے مسلمہ ہے کہ اس کے تین اجزا ہوتے ہیں جن میں آغاز ،وسط اور اختتام یعنی عروج شامل ہیں ۔شروع میں افسانے کا اغاز ایک عام تخلیق کی طرح ہوتا ہے جو آگے بڑھتے بڑھتے سُننے والے یا پڑھنے والے کے ذوق پر حاوی ہو جاتا ہے اور آخر پر اس کے عروج سے ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ قاری یا سامع کا ذہن دیر تک اس کے بارے میں ایک غیر متوقع سوچ میں محو ہو جاتا ہے ۔‘‘ کشمیر کے مشہور شاعررفیق راز صاحب نے اپنے تبصرے کے عنوان میں ہی بڑی بات کہہ ڈالی ہے کہ ’’باطن کی آنکھ سے ظاہر کا مشاہدہ کرنے والا ’’شاہد‘‘۔‘‘کتاب کا انتساب ایک کشمیری پنڈت لڑکے کے نام ہے، لکھتے ہیں کہ ’’ دلیپ کمار نہرو کے نام جس نے خواب میں مجھ سے پوچھا میں قتل کیوں ہوا۔۔۔؟‘‘دلیپ کمار ایک کشمیری پنڈت لڑکا تھاجو کہ مصنف موصوف کا دوست تھا اور جو ایک دن اپنی جوانی کے ابتدائی ایام میں گھر سے لالچوک آتے ہوئے گولیوں کا شکار ہو کے ہلاک ہو گیا تھا۔کتاب میں اُس واقعہ کا تذکرہ بھی پڑھنے کو ملے گا۔
اعلان جاری ہے… کشمیر کے گذشتہ تیس سالوں کے درد و کرب کی داستان ہے جس کا مشاہدہ مصنف موصوف نے کیا ہے ۔افسانے پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہم میں سے کسی نہ کسی کی کہانی ہے ۔اور ان پُر آشوب حالات کا ہم میں سے ہر کوئی متاثر ہوا ہے وہ بھلے ہندو ہو یا مسلم عسکریت پسند ہو یا فوجی ۔یعنی کشمیر کے سچے واقعات کو شاہد صاحب نے افسانوں کی شکل دے کر قارئین کے سامنے پیش کیا ہے ۔یہ کسی فرد کی کہانی نہیں بلکہ کشمیر کے ہر ایک فرد کی داستان الم ہے ۔گولیاں ،بندوقیں ،کرفیوں ،آگ و آہن ،کریک ڈاون ،حراستی گمشدگیاں وغیرہ ۔ یہ کشمیر کے حوالے سے محض کو داستان اور مافوق الفطرت کہانیاں نہیں ہیں بلکہ حقائق پر مبنی کہانیاں ہیں ۔بلکہ ایسے تلخ ترین حقایق ہیں جس سے کشمیر کے ہر کسی فرد کو سامنا کرنا پڑا ہے ۔افسانو ں میں سادگی ہے، یہ انسان کی فطرت کو اپیل کرتے ہیں ،ان کے افسانوں میں کوئی بناوٹی باتیں میں نے نہیں پائیں ۔اس طرح کے افسانے انسان کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔’’آجادی‘‘ نام کے ایک افسانے میں ایک فوجی اور کشمیر کے ایک بچے کے کردار کو پیش کیا ہے اس افسانے کو پڑھنے کے بعد لگا کہ انسان کوئی بھی ہو، کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو‘ آخر وہ اپنے اندر دردِ دل رکھتا ہے۔ انسان کوئی مشین یا روبوٹ نہیں کہ اُس کے سامنے جب کوئی انسان یا بچہ تڑپتا اور ترستا رہئے تو اُس کے دل میں درد پیدا نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ایک سریندر نام کا فوجی شہر میں کسی جگہ کرفیو میں ڈیوٹی پر معمور ہوتا ہے اور وہ ایک بچے کو روتا ہوا دیکھ کر وہ اُسے چُپ کرنے کے لئے ایک چپس کا پیکٹ دیتا ہے اور بڑی خوشی سے یہ فوجی بچے سے مخاطب ہو کے کہتا ہے کہ اور کچھ چاہیے وہ بچہ معصومانہ انداز میں جواباً کہتا ہے’’ آجادی‘‘ ۔ لکھتے ہیں کہ ’’سریندر یہ سب دیکھ رہا تھا ،وہ آگے بڑھا اور جیب سے دس روپیہ کا نوٹ نکال کر محی الدین کے ہاتھ میں تھما دیا اور سامنے سے ایک چپس کا پیکٹ اٹھا کر بچے کے قریب آگیا اور چپس کا پیکٹ بچے کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولا۔’’یہ لو،اب تو چُپ ہو جائو۔۔۔۔۔‘چپس کا پیکٹ لے کر بچہ فوراً چپ ہو گیا۔سریندر بچے کو خاموشی سے دیکھتارہا پھر قدرے اطمنان سے پوچھا۔ ’’شاباش۔۔۔۔اب بولو اور کیا چاہیے‘‘بچے نے چپس کے پیکٹ سے کھیلتے ہوئے اسی اطمینان سے جواب دیا۔۔۔۔۔’’آجادی‘‘۔۔۔۔!اسی طرح سے ’’جواب دو ‘‘ عنوان کے تحت خدیجہ جو کہ اپنے بچے کی گمشدگی کے متعلق احتجاج کرتی ہے اسی افسانے میںلکھتے ہیں کہ ’’احتجاج جاری تھا ،خدیجہ نے لوگوں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اندر سے کچھ ہمت سی بندھی ۔۔۔۔وہ آہستہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور لرزتے ہاتھوں سے اپنا پلے کارڈ پوری قوت سے آسمان کی طرف بُلند کیا۔۔۔۔۔ سڑک پر جمی بھاری بھیڑ نے دیکھا ۔ایستادہ ہورڈنگ پر پیش منظر میں بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا۔ ؎
اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
اس شعر کے ٹھیک نیچے خدیجہ کے پلے کارڈ پر لکھا تھا ۔’’میرا فردوس کہاں ۔؟‘‘ اور بھی اس طرح کی روح فرسا کہانیاں اس کتاب میں شامل ہیں جن پر بات کرنے کا یہاں موقع نہیں ۔
مجموعی طور پر کتاب کشمیر کے مزاحمتی ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے ۔کتاب املا کی غلطیوں سے پاک ہے بغیر چند ٹایپنگ کی غلطیو ں کے ،کتاب کی قیمت بھی مناسب ہی معلوم ہوتی ہے کتاب کا سر ورق بھی اچھا ہے اور کور کے بیک پیج پر غلام نبی شاہد صاحب کی مسکراتی تصویر قاری کو اپنی اورکھنچتی ہے ۔کتاب کو کشمیر کے معروف اشاعتی ادارے میزان پبلیشرز بٹہ مالو سرینگر نے شائع کیا ہے ۔کتاب ہر کسی کشمیری کے مشاہدات،حالات اور واقعات کی عکاسی کرتی ہے ۔یعنی یہ کشمیر کے ایک عام انسان کی آپ بیتی ہے ۔جو کوئی بھی کشمیر کے غم زدہ حالات کو پڑھنا اور محسوس کرنا چاہتا ہے اُس کو’’ اعلان جاری ہے…!‘‘افسانوی مجموعے کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔