علم فی نفسہ ایک لازوال دولت ہے اور اگر علم کے ساتھ عمل و تعلّم کا رشتہ بھی استوار ہوجائے تو شخصیت خود بخود لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتی ہے۔شومئی قسمت کہ ہماری قوم کشمیر اپنے محسنوں کو بعد از مرگ مرتبہ دینے کے لئے معروف ہے،اس کی ایک اور مثال حال ہی میں جوار رحمت میں جگہ پانے والے ہمارے ایک عظیم محسن مفتی ڈاکٹر عبدالغنی الازھری ہیں جن کی وفات پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود کشمیریوں کا اظہار افسوس ہے جو ابھی تک تھمتا نظر نہیں آرہا ہے۔ چلئے یہ بھی غنیمت کہ کم از کم انہیں یاد تو کیا گیا ہے یہاں تو کئی شخصیات ہیں جنہیں ہم بحیثیت قوم مکمل طور پر فراموش کرچکے ہیں۔ مثل مشہورہے کہ ایک عالِم کی موت ایک عالَم (دنیا)کی موت ہوا کرتی ہے۔ جموں و کشمیر کے معروف بزرگ و عالم دین مفتی عبد الغنی الازھری کی وفات پر یہی مثل صادق آتی ہے جو اسی ماہ کی19 تاریخ کو جہاں فانی سے رخصت ہوکر جوار رحمت میں داخل ہوگئے اور مسلم اُمہـ کو بالعموم نیز اہلیان جموں وکشمیر کو بالخصوص سوگوار کرگئے۔مرحوم سہارنپور اتر پردیش میں انتقال کر گئے اور کہا جاتا ہے کہ ان کی عمر تقریبا سوبرس تھی۔
جنہوں نے بھی مفتی الازھری کو حالیہ برسوں میں دیکھا ہے وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان کی وضع قطع ،لباس و تزئین لیبیا کے معروف لیڈر’ عمر مختار‘ سے ملتی تھی۔ ہو بھی کیوں نہیں …..مفتی مرحوم کے اجداد وسطی ایشیا سے ہندوستان آئے تھے اور یہاں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ کے ساتھ منسلک ہوئے۔آگے ان کی نسل کےایک اور بزرگ مولانا محمود مدنیؒ اور دوسرے علمائے کرام کی انقلابی ریشمی رومال تحریک کا حصہ بنےتھے۔ اسلئے حق کے لئے لڑنا اور حق پر ڈٹ جانا ، ان کے خون میں شامل تھا۔
چہرے پرباجلال رونق اورگھنی لمبی داڑھی ، اُبھری ہوئی بھوئوں کے گھیرے میں چمکتی ہوئی روشن آنکھیں ،ہونٹوں پر من موہنی مسکراہٹ جو 90 کی دہائی میں سرینگر کے سرائے بالا میں ہونے والے جان لیوا حملہ کے بعد بھی معدوم نہ ہوئی،فقیر منش ایسے کہ بڑے بڑوں کی ترغیب و تحریص کو کبھی خاطر میں نہ لاتے۔ابھی کچھ ہی سال پہلے ہمارے ایک دوست سے ملے تو ریاست کے کچھ مفتیان و واعظان کی مقتدر حلقوں کےطواف پر شاکی نظر آئے ،بار بار کہے جاتے کہ دیکھو ! دین دار انسان اور داعی کو مال و متاع اور اقتدار سے کیا غرض ؎
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کو ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
اور رہی خوف و ترہیب کی بات تو…… ؎
آئین جوان مردی حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جنہوں نے بھی مفتی الازھری کو حالیہ برسوں میں دیکھا ہے وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان کی وضع قطع ،لباس و تزئین لیبیا کے معروف لیڈر’ عمر مختار‘ سے ملتی تھی۔ ہو بھی کیوں نہیں …..مفتی مرحوم کے اجداد وسطی ایشیا سے ہندوستان آئے تھے اور یہاں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ کے ساتھ منسلک ہوئے۔آگے ان کی نسل کےایک اور بزرگ مولانا محمود مدنیؒ اور دوسرے علمائے کرام کی انقلابی ریشمی رومال تحریک کا حصہ بنےتھے۔ اسلئے حق کے لئے لڑنا اور حق پر ڈٹ جانا ، ان کے خون میں شامل تھا۔ مفتی عبدالغنی شاشی کے قریبی ساتھیوں کے مطابق بقول خود ان کے وہ ۱۳۳۸ ھجری میں پیدا ہوئے ۔کچھ لوگ ان کی تاریخ پیدائش1914 عیسوی تو کچھ1922 عیسوی قرار دیتے ہیں۔ روایت کے مطابق مولانا کے پر دادا اپنے پرانے آبائی وطن شاش ،ماورائے نہر یعنی وسطی ایشاسے ترک وطن کرکے کشمیر کے ضلع پونچھ میں آباد ہوئے تھے۔مولانا کے دادا سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒکی تحریک سے وابستہ تھے۔ انہوں نے حدیث کی معروف کتاب’مشکوٰۃ المصابیح‘ شاہ اسماعیل شہیدؒ سے پڑھی تھی اور بعدازاں مفتی عبدالغنی الازھری نے اس کی اجازت خود اپنے دادا مرحوم سے لی تھی۔ مولانا عبدالغنی نے دارالعلوم دیوبند اور مصر کی جامعہ الازھر جیسے بڑے دینی علوم کے مراکز میں تعلیم حاصل کی تھی۔ جامعہ الازھر میں ان کے استاد معروف فقیہ اور محدث ،کتاب’ فقہ السنۃ کے مو لف علاّمہ سید سابق تھے جن سے مولانا نے علم حدیث حاصل کیا تھا۔ اس کے علاوہ علامہ زاہد الکوثری اور دوسرے بڑے اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا۔ خود مولانا کا کہنا تھا کہ وہ جامعہ الازھر کے پہلے طالب علم تھے جنہوں نے وہاں سے ’مقدمہ صحیح مسلم کا منہج روایت اور درایت کے اعتبار سے‘ کےموضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔ہندوستان میں مفتی صاحب نے دو بار دارالعلوم دیو بند میں داخلہ لیا تھا۔ پہلے وہ 1940 عیسوی میں یہاں داخل ہوئے اور مولانا عبدالرحمان صدیقی امروہی اور مولانا فخر الدین احمد سے بخاری شریف پڑھی۔ اس وقت مولانا محمود مدنی جیل میں مقید تھے۔اس کے کئی سال بعد مولانا نے ایک بار پھر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور مولانا محمود مدنی سے استفادہ کیا۔ مولانا کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ عمر کے آخری ایام میں وہ زیادہ تر وقت تنہائی اور مراقبے میں گزارتے تھے۔ مولانا چونکہ صوفی طبیعت کے مالک تھے اور کئی سلسلوں سے انہیں اجازتِ بیعت ملی تھی لیکن مولانا کا اصل سلسلہ اور ےتعلیم قدیم طریقہ سلسلہ نقشبندیہ سے تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں مولانا غلام رسول شاہ اسلام آباد ان کے پہلے مرشد تھے اور مولانا عبد الغنی کا ان کے ساتھ کوئی تیس برس تک تعلق قائم رہا۔
عالمی شہرت کے حامل اس عالم کی پیدائش 1922میں پونچھ میں ہوئی اور بعد ازاں انہوں نےکشمیر کے ساگم کوکرناگ علاقے میں سکونت اختیار کی۔ ساگم کوکرناگ کے بعد وہ ایک عرصے تک شار شالی کھریو پانپور کشمیر میں بھی مقیم رہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی قرآن و حدیث کے پیغام کو نہایت خوش اسلوبی اور پرامن طریقے سے پہنچانے میں گزاری۔ انہیں دینی علوم پر اچھی دسترس تھی، اور قرآن کی تفسیر، حدیث نبویﷺ، تاریخ اور اسلامی فقہ میں مہارت تھی، خاص طور پر وہ تقابلی فقہ کے ماہر مانے جاتے تھے۔ ان کا علمی سفر اس وقت شروع ہوا جب ان کے دادا ولی کامل عبدالحلیم کے ساتھ تھے، جنہیں پہلے’ گجر مفسر‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے پاکستان کے بہترین علماء سے علم حاصل کیا، لاہور یونیورسٹی سے فارسی میں فضیلت کا امتحان پاس کیا، کتاب مقدس کا مطالعہ کیا۔ مولانا غلام اللہ خان سے قرآن مجید کی تعلیم لی۔ انہوں نے شیخ التفسیر احمد علی لاہوری اور محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ، مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ ممتاز اسلامی اداروں، دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور، جامعۃ الازہر شریف سے تعلیم حاصل کرنا وہ اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے علاوہ، الازھر یونیورسٹی مصرسے آپ نے انسانی نفسیات میں ڈپلومہ بھی کیا تھا۔ جیسا پہلے ہی رقم کیاگیا ہے کہ ان کی پی ایچ ڈی کا عنوان ’’الامام المسلم و منھاجہ فی الحدیث روایتاً و درایتاً‘‘۔حقیقت میں وہ ایک عظیم محقق، علوم و فنون کے ماہر، اولیاء کرام کی ایک بڑی جماعت کی صحبت سے فیضیاب ہونے والےباوقار انسان تھے۔ ان کے اساتذہ اور روحانی سرپرستوں میں مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری، ان کے دادا مولانا عبدالحلیم الشاشی، شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی، حکیم الاسلام قاری محمد طیب، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا اعزاز علی امروہی،مولانا سید فخرالدین، پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم محمود الشافعی، شیخ عبدالوہاب ،عبداللطیف رسول شاہ صاحب المعروف ناگا بابا ملن گام، سید رسول شاہ نقشبندی مجددی اور حضرت کوثر علی شاہ افغانی صفوی نقشبندی مجددی قابل ذکر ہیں۔ان سب سے آپ نے خوب استفادہ کیا اور کثرت سے روحانی فیض حاصل کیا جسکا خدا کی نعمت سمجھتے ہوئے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’نورِ عرفان‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے۔ جموں وکشمیر کےاُس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ کی دعوت پر وہ مدینۃ العلوم حضرت بل میں عربی زبان کے استاد کے طور پر شامل ہوئے۔ مدینۃ العلوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ، انھوں نے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں بطور پروفیسر اپنی خدمات انجام دیں اور1997میں عربی شعبہ کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ مفتی مرحوم مظاہر العلوم سہارنپور کے شیخ الحدیث بھی رہ چکے ہیں اور مدرسہ نظامیہ بادشاہی باغ سہارنپور میں بھی اسی عظیم منصب پر فائز ہوئے جس کی بنیاد انہوں نے رکھی اور تادم مرگ چلا تے رہے۔
شیخ ،اُمت کے صدیوں پرانے عروج و زوال کے گواہ تھے اور روحانیت کے مظہر بھی۔ وہ ایک مشن کے حامل انسان تھے جس کو حاصل کرنے کےلئے انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ مشن اسلام کا مشن ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی خدمت کے لیے کبھی نہ مرنے والے جوش اور ولولے پر مشتمل مشن۔ وہ مفسر ، محدث ، فقیہ اور مجتہد تھے جن کی عصری علوم میں پر بھی گہری گرفت تھی۔ ان کے لکھے ہوئے ادب نے الحاد کے خلاف لڑنے میں بھی اسلام کی خدمت کی ۔ اس کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب مرحوم کو بین الاقوامی سطح پر مسندالحدیث ہونے کا مقام اور اعزاز حاصل تھا۔۔مفتی صاحب مرحوم سینکڑوں مدارس کے بانی اور سرپرست رہے ۔ مادر وطن ہونے کی بنا پرکشمیر اور کشمیریوںسے انہیں والہانہ لگائو تھا ۔غالباً یہی وجہ تھی کہ یہاں انہوں نے کئی مدارس قائم کئے۔حافظ محمد چراغ نصیر القاسمی جو بذات خود ایک ولی کامل تھے ، کے ساتھ مل کر’’مرکز اہلسنت والجماعت ‘‘کے عنوان سے کشمیر میں مدارس کی تحریک کی بنیاد رکھی۔ ان مدارس کی بنیاد رکھنے کا بنیادی مقصد نہ صرف لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے کلام اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روشناس کرانا تھا بلکہ اُمت مسلمہ کو متحد کرنا بھی تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اُمت کے وسیع ترمفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خدمات سر انجام دیں، کشمیر کے لئےخیر سگالی کے جذبے کو کبھی ماند نہیں ہونے دیا۔ اس عظیم مشن کے دوران وہ سلف الصالحین کے راستے کو کبھی نہیں بھولے۔ اپنے سرپرستوں کا احترام کرتے ہوئے، انہوں نے ان کے ناموں پر کئی خانقاہیں اور اسلامی ادارے قائم کیے۔ انہوں نے 1990 عیسوی میںحضرت کوثر علی شاہ افغانی کے نام پر نیو تھیدہارون کشمیر میں ’’دارالعلوم کوثریہ‘‘ قائم کیا۔ اس عظیم ادارے کے ساتھ ساتھ یہاں انہوں نےایک عظیم الشان مسجد ،شاہ ہمدان مسجد نیو تھید بھی بنوائی۔1950کی دہائی میں دندھی پورہ کوکرناگ میں حافظ چراغ قاسمی کے ساتھ مل کر’’ مکتبہ انوار العلوم‘‘ قائم کیا ۔1960 میںمکتبہ الازھریہ، ازھریہ مرکز اہل سنت والجماعت کا قیام عمل میں لایا۔اسی طرح اننت ناگ (اسلام آباد) میں دارالعلوم شاہ ولی اللہ جبکہ کھریو پانپور میںدارالعلوم الازہریہ اور کپوارہ میں ایک اور دارالعلوم بھی ان کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے جموی علاقوں نگروٹہ، سدرہ اور ٹانڈہ وغیرہ علاقوں میں مدرسے قائم کئےجو متلاشیان حق کے لئے چشمۂ رشد و ہدایت بنے ہوئے ہیں۔جدید جنوبی ایشیا کو اسلامی مرکز بنانے، غیر مراعات یافتہ طبقے کی ترقی اور معاشرے کے یتیم، معاشی طور پر کمزور طبقات کو تعلیم دینے میں شیخ کو گہری دلچسپی تھی۔ اسی لئے ان کے قائم کردہ علمی مراکز میں مفت کپڑے، رہائش، روٹی پانی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سےمتعلق بنیادی تعلیم اور مکمل مطالعہ کی سہولیات بھی فراہم جاتی ہیں۔
مرحوم مفتی صاحب جہاں ایک جہاندیدہ انسان، بے مثال استاد، عظیم الشان دینی قائد اور عالم باعمل تھے وہیں پر تقریر و تحریر میں اپنی مثال آپ تھے۔محدث الازھری اکثر حدیث کی تعلیم دینے اور اس کی سند کو آگے بڑھانے کے لیے بیرون ملک سفر کرتے ہیں ۔انہوں نے سعودی عرب، قطر، بحرین، کویت، دبئی وغیرہ کے علمی اسفار کئے ۔انہوں نےبڑھاپے اور کمزوری کے باوجود کویت میں صرف 13دن میں مکمل صحیح البخاری لیکچر دے کر ریکارڈ قائم کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے مسجد نبویﷺ مدینہ منورہ میں مختلف وقفوں میں امام بخاریؒ اور امام شافعی ؒ کی صحیحین بھی پڑھائیں ۔ شیخ الازہری اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے او اس بات کی تبلیغ کرتے تھے کہ حدیث کو صرف حدیث نبیﷺ ہونے کی خاطر پڑھایاجانا چاہئےاوراپنے مخصوص فقہی نظریات کی ترویج و تشریح سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ علم حدیث کے ضمن میں مرحوم اخبار الآحاد کو اتھارٹی سمجھتے ہیں ۔ شیخ الازھری کے صحیح بخاری کے لیکچرز ( جزوی) ان کے شاگرد/ فرزند حافظ مولانا عبدالحلیم ضیاء نے تحریر کئے ہیں۔ شیخ قرآن مجید کو مسلمانوں کا بنیادی آئین مانتےتھے اور کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم سے دوری اور اس کی خیانت ہی ہمارے تما م تر مسائل اور اذیتوں کی وجہ ہے۔ شیخ مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ وہ قرآن کو کسی بھی آسان زبان میں معنی کے ساتھ پڑھیں۔ شیخ مرحوم ، اپنے سنہری دور میں ( 1960سے 1990 عیسوی کی دہائی تک)کشمیر کے زیادہ تر دارالعلوم میںتفسیرجلالین پر لیکچر دیا کرتے تھے۔علم القرآن سے متعلق ان کے بہت سے خطوط جن کا عنوان تلمیذات قرآن ہے، ان کی تصنیف ہے۔ادبیات کے ضمن میں ان کے اہم کاموں میںکتاب ’’نور عرفان‘‘ جو تصوف (عرفان) کے موضوع پر ہے اور دراصل ایک عظیم نقشبندی شیخ کے خطوط کی تالیف ہے۔اس کے علاوہ ان کی ڈاکٹریٹ کا مقالہ ، قدیم تاریخ گجر، مکتوبات نقشبندیہ اور کشمیریوں کے عظیم محسن امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ کی فارسی کتاب مالابد منہ کا اردو ترجمہ وغیرہ شامل ہیں۔
الغرض شیخ الازھری مفتی عبدالغنی شاشی ایک عظیم کثیر الجہت علّامہ تھےجن کی توجہ صرف اسلام کی خدمت تھا۔ اللہ کی خاطر جینا اور مرنا، محبت کرنا، اس کے لیے نفرت، اس کے لیے دینا اور اللہ کے لیے ترک کرنا، اللہ کا تقویٰ حاصل کرنے کے لیے ہر لمحہ کوشش کرنا۔اللہ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ کہ ایک دن اللہ کی طرف لوٹ کر آنا ہےجس کے اختیار میںہی سب کچھ ہے۔بارہا کہتے تھے کہ اللہ نے انہیں اپنی حکمت کے مطابق گوجر قبیلے سے اٹھایا ہےاور ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی ہے۔سچ یہی ہے کہ مفتی عبدالغنی فرزندِ اسلام تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اُمت مسلمہ کی خدمت کی ہے۔اس کی بہتری کے لیے دن رات کام کیا۔ وہ صحیح معنوں میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فکر و تحریک کے پاسبان تھے۔اور جب بات مسلمانوں کے مفاد یا اتحاد اُمت کی آتی تو مرحوم اس پر کسی قسم کے سمجھوتے کے روادار نہیں ہوتے۔سچ کہا جائے تو بلاشبہ وہ ایک حقیقی محقق اور سچے عالم دین تھے جن کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا آسانی کے ساتھ پُر نہیں کیا جاسکے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ مرحمت فرمائیں اور اُمت جموں وکشمیر کو ان کا نعم البدل عطا کریں۔اقبال ؔؒ نے سچ کہا تھا ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شیخ الازھری مفتی عبدالغنی شاشی ایک عظیم کثیر الجہت علّامہ تھےجن کی توجہ صرف اسلام کی خدمت تھا۔ اللہ کی خاطر جینا اور مرنا، محبت کرنا، اس کے لیے نفرت، اس کے لیے دینا اور اللہ کے لیے ترک کرنا، اللہ کا تقویٰ حاصل کرنے کے لیے ہر لمحہ کوشش کرنا۔اللہ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ کہ ایک دن اللہ کی طرف لوٹ کر آنا ہےجس کے اختیار میںہی سب کچھ ہے۔بارہا کہتے تھے کہ اللہ نے انہیں اپنی حکمت کے مطابق گوجر قبیلے سے اٹھایا ہےاور ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی ہے۔سچ یہی ہے کہ مفتی عبدالغنی فرزندِ اسلام تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اُمت مسلمہ کی خدمت کی ہے۔اس کی بہتری کے لیے دن رات کام کیا۔ وہ صحیح معنوں میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فکر و تحریک کے پاسبان تھے۔اور جب بات مسلمانوں کے مفاد یا اتحاد اُمت کی آتی تو مرحوم اس پر کسی قسم کے سمجھوتے کے روادار نہیں ہوتے۔