میری امی جان! بظاہر آپ ٹھیک دکھتی ہوں، مگر آپ کے دل میں جذبات کے سمندر جوش مار رہے ہیں۔ میں کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر ختم۔ ایک کہانی میں ان گنت کہانیاں چھپی ہوئی ہے۔ میرے جنم سے شروع کروں یا پھر آپ کے بچپن سے۔ کہی سے تو مجھے شروع کرنا ضروری ہے۔ میں ستائیس سال کا ہوں۔ ان ہی برسوں کو تفصیل کے ساتھ لکھوں، تو بہت زیادہ وقت لگے گا۔ اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ میں اپنے دل کی کچھ باتیں آپ کے ساتھ شیئر کروں۔ میرا دل تھوڑا ہلکا ہوجائے گا اور آپ کو بھی اپنے پیارے بیٹے کی باتیں سننے کا موقع ملے گا۔ امی جان!میں آپ کے احساسات کا بھر پور خیال رکھوں گا۔ اس کے علاوہ آپ کے اتنے احسانات ہیں کہ گننا بھی مشکل ہیں۔
آپ اس بات سے بخوبی واقف ہو کہ میں ایک بیروزگار لڑکا ہوں اور بےروزگار کے لئے زندگی جینا بہت دشوار ہے۔ مگر آپ کو دیکھ کر میں اب جی رہا ہوں۔ آج تک آپ اور ابا نے مجھے خون سے پالا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس میں درد، پیسہ اور جذبات کو اکثر ٹھیس پہنچی ہے۔ مگر پھر بھی آپ نے میری پرورش میں کوئی کوتاہی نہیں کئی۔ آپ بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کیسے میں نے بارہ سال کی عمر سے ہی خود کمانا شروع کیا تھا۔ مقصد ایک ہی تھا کہ بچپن سے ہی آپ کا سہارا بنوں۔ آج بھی اسی دوڑ میں لگا ہوا ہوں کہ کیسے چار پیسے کما کر آپ کے ایک دودھ کے قطرے کا قرض ادا کروں۔ امی! یہ دنیا چور بازار ہے۔ یہاں زیادہ تر کاموں میں دھوکہ دہی کا عنصر شامل ہے۔ یہاں70 فیصد سے زیادہ لوگ جھوٹ اور غبن کا سہارا لے کر زندہ ہے۔ آپ کو بھی یاد ہے کتنے سرکاری دفاتر میں فارم جمع کروائے۔ مگر نتیجہ کیا نکلا۔ یا تو فارم ہی غائب ہوئے یا پھر رشوت خوروں نے رشوت کے ذریعے اپنے اہل خانہ کی زندگیوں کو آسان بنایا! پانچ سے زیادہ سرکاری نوکریوں کے جمع شدہ فارمز کی رسیدیں آج بھی میرے کمرے میں پڑھی ہوئی ہے۔ ان کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ یا تو سرکار ہی چور ہے یا پھر میں نااہل ہو! لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد اس اُمید پر فارم جمع کرنا کی درجہ چہارم کی نوکری پانے کے بعد گھر والوں کے لیے کچھ کرنے کا موقع ملے گا،جب یہ امید بھی ختم ہوجائے تو ایک جوان پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے، وہی جانتا ہے۔ یاد ہے جب 2014 میں میرا انٹرویو سرینگر کے کسی علاقے میں تھا۔ اللہ کا نام لے کر میں انٹرویو میں شریک ہوا تھا۔ وہ دن کتنی خوشی کا تھا۔ مگر جب لسٹ نکل آیا، تو کتنی آنکھوں نے رویا مگر کتنی آنکھوں نے ہنسا۔ مگر پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔
امی! ہر ماں کا ارمان ہوتا ہے کہ اپنے بیٹے کی شادی کو دیکھے۔ مگر آج کے زمانے میں شادی کرنا ناممکن سا ہوگیا ہے۔ دکھاوے اور حرام کی دولت نے غریب بیٹیوں کی شادیوں کو اب ناممکن سا بنا دیا ہے۔ رسم و رواج کی پوجا کرنے والوں نے اب غریب لڑکیوں کے ہاتھوں کی رنگینی کو ایک خواب بنا دیا ہے۔ کیا ہوگا اس ماں باپ کا جس کی چار بیٹیاں شادی کی عمروں کو پہنچ گئی ہوں اور ان کی شادی کے امکانات بھی نہ ہوں! اس کے بارے میں سوچنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ امی جان! اب آپ خود سمجھ سکتی ہوں کہ میرا اشارہ کس طرف ہے۔ آپ بھی شروع سے ہی اس جستجو میں ہیں کہ آپ کی بیٹیوں کی شادی ہوجائے۔ نکاح سنت ہے مگر اس سنت کو ادا کرنے میں جو بدعات ہیں، تو میرے لحاظ سے یہ کسی بھی طریقے سے اسلامی نکاح نہیں مانا جاسکتا۔ اس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ اب لڑکے اور لڑکیاں بھاگ کر شادیاں کرتے ہیں۔ ناجائز کاموں کا نہ تھمنے سلسلہ ہر جگہ ہے۔ اس گناہ کے مرتکب ہم سب ہے۔ ہم نے نکاح کو کھٹن بنایا۔ جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ سب سے اچھا نکاح وہ ہے، جس میں سب سے کم خرچہ ہو۔ مگر آج اس کے برعکس ہے۔ آپ کی یہ پریشانی میری پریشانی ہے۔
جیسے کہ میں نے پہلے ہی اس بات کو واضح کیا تھا کہ ایک کہانی میں بہت ساری کہانیاں چھپی ہوئی ہیں، اب میں مختصر الفاظ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اب بھی زندگی سے لڑ رہا ہوں۔ میں نے ہار نہیں مانی ہے۔ میں روزگار کی تلاش میں بھی ہوں اور اس کے علاوہ اب نیک کاموں کو کرنے میں کمر بستہ ہوں۔ میں آپ کے لئے آرام کے کچھ لمحات میسر رکھنا چاہتا ہوں۔ بنا رشوت کے نوکری حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ با اخلاق بننا چاہتا ہوں۔ امی! سب کے لیے دعا کیا کریں۔ ہر ماں اپنے بچوں کے لیے بہترین چاہتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
آپ کا پیارا بیٹا