غالباً 2008کا سال تھا جب پہلی مرتبہ ریل گاڑی ارضِ کشمیر پر چلی۔ تب سے آج تک کبھی چاہت نہیں ہوئی کہ ٹرین کے سفر سے لطف اندوز ہوا جائے۔ گزشتہ ہفتے رسمی گفت گو کے دوران ہمارے چند ساتھیوں نے ریل کے سفر کی بات چھیڑ دی۔ اور اس غیر سنجیدہ گفت گو کے بطن سے سنجیدہ سفری پروگرام برآمد ہوا۔ طے ہوا کہ22 جنوریء بروز اتوار ٹرین سے سفر کے پروگرام کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
اس دن ہم چار دوست(محمد یونس، شاہین سر، ابرار احمد اور راقم الحروف) صبح قریباً دس بجے گھر سے نکلے۔ اور پا پیادہ اقبال پارک حضوری باغ پہنچے۔ ہر چند ہمیں بڈگام ریلوے اسٹیشن پہنچنا تھا تاہم سومو گاڑی میں بیٹھی کچھ سواریوں کو بڈگام جانا تھا۔معلوم نہیں ڈرایور صاحب کے ذہن میں کیا سمایا کہ اس نے ہمیں نوگام ریلوے اسٹیشن کی بہ جائے بڈگام ریلوے اسٹیشن پہنچا دیا۔ اس وقت دن کے ۱۲ بج چکے تھے۔ اندر معلوم ہوا کہ پہلی ٹرین جاچکی ہے اور اگلی ٹرین کا وقت 2 بجے ہے گویا ہمیں 2گھنٹے انتظار کرنا تھا۔۔!!
لپٹن چائے کا تقاضا شدت سے ہورہا تھا۔ ہم نے نزدیک ہی دکان پر میٹھی چائے کی چسکیاں لیں۔ ظہر نماز کا وقت قریب تھا۔ راہ گیروں سے پتا چلا کہ قریب ہی5،10 منٹ کے فاصلے پر مسجد ہے۔ اُومپورہ کی مسجد عمر میں ہم نے باجماعت نماز ادا کرکے سرعت سے واپس اسٹیشن پہنچے۔ ریل ٹکٹ حاصل کرکے ہم اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے۔ اللہ کا کرم کہ اس دن لوگوں کا ازدحام نہیں تھا اور ریل کی کافی نشستیں خالی تھیں۔
2بجے کے قریب ریل عازمِ سفر ہوئی۔ چوں کہ ریل سفر کا پہلا تجربہ تھا تو دل پر خوف کی سی کیفیت طاری ہوئی۔ نیز ریل گاڑی ہچکولے کھا رہی تھی جس سے خوف دو چند ہوا۔ علاوہ ازیں ابھی کچھ روز قبل ہی مازہامہ کے قریب ریل پٹری سے اُتر گئی تھی لیکن اللہ کا شکر کہ کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آیا۔ یہ خبر بھی ذہن میں گردش کر رہی تھی۔ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ ٹرین نوگام اسٹیشن پہنچ گئی۔ وہاں چند ساعت دم لینے کے بعد ٹرین نے آگے کا سفر جاری رکھا۔
ریل کی دونوں جانب کھیت دکھائی دے رہے تھے مگر موسمِ سرما کی وجہ سے کچھ زیادہ جاذبِ نظر نہیں تھے۔
ٹرین کا وقفےوقفے سے اسٹیشنوں پر رکنا مزا کِرکِرا کررہا تھا۔ نیز مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ٹرین نہایت دھیمی رفتار سے جارہی ہے جس سے یک گونہ بوریت ہورہی تھی۔ مزید برآں ٹرین کی سیٹیں میلی کچیلی اور بہت ساری پھٹی ہوئی تھیں جس سے طبیعت سخت مکدر ہوئی اور یہ تاثر گہرا ہوا کہ جس دین نے ہمیں صفائی کا درس دیا ہے ہم نے بحیثیت مجموعی اس کو فراموش کردیا ہے جب کہ اغیار اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہیں۔
بہ ہر حال ریل پانپور، کاکا پورہ، منزگام، بیج بہاڑہ، اننت ناگ، سڈورہ کے اسٹیشنوں اور 12 کلو میٹر قاضی گنڈ ٹنل پار کرکے بانہال پہنچ گئی۔ بانہال کے پہاڑوں کی چوٹیاں برف زار تھیں جو آنکھوں کو جلاّ بخشنے کا باعث بنیں۔
تاہم یہاں پہنچ کر ہمارے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا کہ ہنستے ہنستے ہم لوٹ پوٹ ہوگئے۔ بڈگام اسٹیشن پر ہمیں بتایا گیا تھا کہ بانہال سے سرینگر آخری گاڑی 5:15 کو نکلتی ہے۔ ہم نے تخمینہ لگایا تو کم از کم چالیس منٹ بانہال دیکھنے کا موقع مل رہا تھا اور اتنا کافی تھا اور اس دورانیے میں لذتِ کام و دہن کا سامان بھی بہم ہوجاتا۔ لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہاں معلوم ہوا کہ آخری گاڑی ساڑھے چار بجے ہی سرینگر روانہ ہوتی ہے۔ ہم بپھرے ہوئے چوہوں کی طرح قہقہہ لگاتے ہوئے ٹرین میں واپس بیٹھے۔
مسلسل ساڑھے چار گھنٹہ سفر کرتے ہوئے ریل سیٹی بجاتے ہوئی نوگام ریلوے اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوئی۔ بقول احمد فرازؔ؎
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا