امت نیوز ڈیسک //
سپریم کورٹ نے پیر کے روز جموں و کشمیر حکومت کے ایک سر کلر کے خلاف دائر عرضی پر غور کرنے سے انکار کر دیا جس میں تمام ڈپٹی کمشنروں کو 31 جنوری تک مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی زمینوں بشمول روشنی اراضی اور کا بچرائی اراضی پر سے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگر تھنا کی پنج درخواست گزاروں کی اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوئی کہ جموں و کشمیر سٹیٹ لینڈ ( مقامی افراد کو ملکیت) ایکٹ 2001 (جسے روشنی ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے ) منسوخ ہونے کے باوجود ان کے مالکانہ حقوق برقرار ہیں۔ عدالت نے اپنے تبصرے میں کہا، "آپ ہمیں جائیں کہ آپ کے پاس کیا حق ہے۔ روشنی ایکٹ کے تحت نہیں اسے ختم کر دیا گیا ہے! ایک منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ایک بار جب ایکٹ منسوخ ہو گیا تو مالکانہ حقوق کی شق کا سوال ہی کہاں ہے ؟۔
عدالت کی بینچ نے مشاہدہ کیا کہ اگر عدالت زمین پر قبضہ جاری رکھنے والوں کو ریلیف دیتی ہے تو اس کے برے اثرات ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا، "اگر ہم آپ کے قبضے کی حفاظت کرتے ہیں، تو یہ جموں و کشمیر کے تمام تجاوزات کو متاثر کرے گا ازیادہ سے زیادہ ہم آپ کو نقل مکانی کے لیے مناسب وقت دے سکتے ہیں”۔درخواست گزار نے بالآخر در خواست واپس لینے کی کوشش کی اور عدالت
نے اسے ایسا کرنے کی اجازت دے دی۔ گزشتہ سماعت کے دوران، بینچ نے حکومت کے سر کلر پر روک لگانے سےانکار کر دیا تھا۔ جسٹس شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکم امتناعی دیا گیا تو اس سے زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کو بھی فائدہ ہو گا۔ یادر ہے کہ سال 2001 میں، جموں و کشمیر حکومت نے سابقہ ریاست میں بجلی کے منصوبوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے غیر مجاز قابضین کو ریاستی اراضی کی ملکیت دینے کے لیے روشنی ایکٹ کے نام سے ایک قانون نافذ کیاتھا۔ اکتوبر 2020 میں ہائی کورٹ کی جسٹس گیتا مثل اور راجیش بندل کی ڈویژن بینچ نے ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ اس کے تحت کیے گئے تمام کاموں کے ساتھ ساتھ ایکٹ کے تحت کی گئی ترامیم کو بعد میں کالعدم قراردے دیا گیا۔ عدالت نے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو روشنی اراضی سکام کیس کی تحقیقات کا بھی حکم دیا تھا، جسے ریاست کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا سکینڈل قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جموں و کشمیر حکومت نے مذکورہ فیصلے پر نظر ثانی کے لیے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ ساتھ ہی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیلیں دائر کی گئیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی کئی نظر جانی درخواستیں زیر التوا ہونے کے باوجود، حکومت نے رواں برس 9 جنوری کو تمام ڈپٹی کمشنروں کو 31 جنوری 2023 تک ایسی زمین پر سے تجاوزات ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔