امت نیوز ڈیسک //
سابق مرکزی وزیر مالیات اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے بجٹ 2023 کے بعد ایک پریس کانفرنس میں مرکزی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج 24-2023 کا جو بجٹ پیش کیا گیا وہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ حکومت لوگوں اور ان کی زندگی، ان کے ذریعہ معاش اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے فاصلہ و ان کی فکروں سے کتنی دور ہے۔‘‘ چدمبرم نے ساتھ ہی کہا کہ ’’مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وزیر مالیات نے اپنی تقریر میں کہیں بھی بے روزگاری، غریبی، نابرابری یا برابری جیسے الفاظ کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ ہاں، دو بار انھوں نے اپنی تقریر میں غریب لفظ کا تذکرہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کی عوام اس بات پر دھیان دے گی کہ کون حکومت کی نظر میں ہے اور کون نہیں۔‘‘
پی چدمبرم نے پریس کانفرنس کے دوران کچھ اعداد و شمار بھی پیش کیے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’گزشتہ سال حکومت نے 22-2021 کے لیے جی ڈی پی کا اندازہ 23214703 روپے کا اندازہ لگایا تھا اور 11.1 فیصد کا معمولی شرح اضافہ مانتے ہوئے 23-2022 کے لیے 25800000 کروڑ روپے کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا تھا۔ آج کے بجٹ میں 23-2022 کے لیے جی ڈی پی 27307751 کروڑ روپے رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے، جو کہ پہلے کے اندازہ سے 15.4 فیصد کا شرح اضافہ ہے۔ اس اعداد و شمار کو دیکھیں تو اصلی جی ڈی پی دو ہندسوں میں بڑھنا چاہیے تھا۔ پھر بھی وزیر مالیات (اور معاشی سروے میں بھی) نے اس سال کے لیے جی ڈی پی شرح اضافہ کو صرف 7 فیصد رکھا ہے۔ کیا حکومت بتائے گی کہ ایسا کیوں ہے؟‘‘ انھوں نے سوال اٹھایا کہ حکومت کا سرمایہ دارانہ اخراجات (کیپٹل ایکسپینڈچر) اور اثرانداز سرمایہ دارانہ اخراجات دونوں بجٹ اندازوں سے کم ہیں، تو 23-2022 میں کس وجہ سے ترقی ہوئی؟ انھوں نے بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ نجی سرمایہ کاری، برآمدات میں گراوٹ ہے اور پرائیویٹ اگزیمپشن مستحکم ہے۔ ایسے مین حکومت رواں سال میں 7 فیصد کے اضافہ کو کیسے حاصل کرے گی؟
پی چدمبرم نے حکومت کے جی ڈی پی اندازوں پر بھی سوالیہ نشان لگایا۔ انھوں نے کہا کہ 23-2022 کی پہلی اور دوسری سہ ماہی میں شرح ترقی بالترتیب 13.5 فیصد اور 6.3 فیصد اندازہ کیا گیا ہے۔ اس لیے اس سال کی پہلی چھ ماہی میں ہمارے پاس پہلے سے ہی 9.9 فیصد کا اضافہ ہے۔ اگر پورے سال میں صرف 7 فیصد اضافہ ہوگا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تیسری اور چوتھی سہ ماہی میں صرف 4 سے 4.5 فیصد کا شرح اضافہ درج ہوگا۔ اس لیے پورے سال کے لیے سہ ماہی جی ڈی پی شرح ترقی گر رہی ہے۔
کانگریس لیڈر نے انکم ٹیکس میں دی گئی مبینہ راحت پر بھی سوال اٹھائے۔ سابق وزیر مالیات نے کہا کہ فائدہ صرف نئے ٹیکس نظام کو منتخب کرنے والوں کو ملے گا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ پرانا ٹیکس نظام اختیار کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ کوئی بھی بالواسطہ ٹیکس کم نہیں کیا گیا ہے۔ خاص طور سے بے حد غیر مدلل جی ایس ٹی شرحوں میں تخفیف نہیں کی گئی ہے۔ پٹرول، ڈیزل، سیمنٹ، فرٹیلائزر وغیرہ کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔
پی چدمبرم نے کہا کہ اس بجٹ سے نہ تو غریبوں کو فائدہ ہوا اور نہ ہی ملازمت کی تلاش کر رہے نوجوانوں کو، یا جنھیں ملازمت سے نکالا گیا ہے۔ ان لوگوں میں کوئی ٹیکس پیئر نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بجٹ ٹیکس دہندگان کا بڑا حصہ نہیں ہے۔ اس سے صرف ان ایک فیصد لوگوں کو فائدہ ہوا ہے جن کے ہاتھوں میں لگاتار دولت بڑھتی جا رہی ہے۔ چدمبرم نے مزید کہا کہ نئے ٹیکس نظام کو ڈیفالٹ بنانا عام لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے کیونکہ اس سے عام ٹیکس دہندگان ان قلیل سماجی سیکورٹی سے محروم ہو جائے گا جو اسے پرانے ٹیکس نظام کے تحت مل سکتی ہے۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ مرکزی حکومت کے کمرشیل اور مالیاتی مراکز کی قیمت پر احمد آباد کو گفٹ سٹی بنایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یوں تو معاشی سروے نے دنیا اور ہندوستان کے سامنے آنے والے سبھی رخنات کو فہرست بند کیا، لیکن ان رخنات کا سامنا کرنے کے لیے کوئی حل پیش نہیں کیا۔ بجٹ تقریر میں مشکل حالات کو بھی قبول نہیں کیا گیا۔ چدمبرم نے ساتھ ہی کہا کہ حکومت اپنی ہی ایک خیالی دنیا میں جی رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں اس وقت تین اہم باتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے:
1. عالمی ترقی اور عالمی کاروبار 2023 میں بہت دھیما ہو جائے گا (ہندوستان کے لیے، 24-2023)
2. کئی خوشحال معیشتیں بحران کی زد میں آ جائیں گی
3. عالمی حفاظتی صورت حال یوکرین جنگ اور دیگر جدوجہد کے سبب بگڑ جائے گی
اگر یہ تینوں حالات بنتے ہیں تو حکومت کیا کرے گی؟ مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثر لوگوں پر یہ کس طرح کا بوجھ پڑے گا؟ نہ تو معاشی سروے میں اور نہ ہی بجٹ تقریر میں کوئی جواب دیا گیا۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ یہ ایک سخت بجٹ ہے جس نے بیشتر لوگوں کی امیدوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔