مرکزی زیر انتظام والے علاقہ لداخ سے تعلق رکھنے والے ممتاز انجینئر سونم وانگ چک ان دنوں خبروں میں ہیں۔ اپنی مانگوں کو لے کر وہ پانچ روز تک گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں بھوک ہڑتال پر تھے۔ وانگچک خطے کو آئین ہندکے چھٹے شیڈول کے تحت شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کمیونٹی ایجوکیشن کے منفرد ماڈل پیش کرنے کے لیے پوری دنیامیں مشہور سماجی اور ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک’’گلیشئروں، پہاڑوں، دھرتی اور انسانوں‘‘ کی حفاظت کے لیے انتہائی ضروری اقدامات کے خاطر حکومت پر زور دینے کے لیے بھوک ہڑتال پر تھے۔سونم وانگچک سرد ترین مقام کھردنگلا میں کھلے آسمان تلے بھوک ہڑتال پر بیٹھنا چاہتے تھے لیکن مقامی انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی اوروانگچک نے ایک ٹویٹ کرکے کہا تھا کہ’’یہ نظر بندی حقیقی نظربندی سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔“تاہم سرکاری اطلاعات کے مطابق لہہ پولیس نے انہیں کھلے میں اس لیے بھوک ہڑتال کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ وہاں کا درجہ حرارت منفی 40 ڈگری تک گر جاتا ہے اور اس سے وانگچک کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔آخر کار وہ اپنے ہمالیہ انسٹی ٹیوٹ آف الٹرنیٹیو لداخ کے کیمپس میں بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے ۔ان کی بھوک ہڑتال کے آخری روز31 جنوری کو ہزاروں کی تعدادلوگ سونم وانگچک کی حمایت میں ہمالیہ انسٹی ٹیوٹ آف الٹرنیٹیو لداخ کے کیمپس میں جمع ہوئے جہاں پانچ روز سے وانگچک ہڑتال پر تھے۔ وہیں لیہہ اپیکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے لیڈران بھی ریلی میں شریک ہوئے جو چار نکاتی ایجنڈے کی تکمیل کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں لداخ کے لیے چھٹے شیڈول کا نفاذ بھی شامل ہے۔
واضح رہے سونم وانگ چک دفعہ 370 کے خاتمے کی حمایت میں تھے لیکن آج وہ بالکل اس کے برعکس بات کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہیں وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی مایوس نظر آرہے ہیں۔بھوک ہڑتال کے دوران کیے گئے متعدد ٹوئیٹس میں انہوں نے وزیر اعظم مودی کو ٹیگ کیا ہے۔اس دوران وانگچک نے ایک دلچسپ بیان بھی دے ڈالا۔ دراصل وانگچک نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرکے کہا کہ’’میرے اسکول کے تین بے گناہ ٹیچروں کو تھانے لے جایا گیا تاکہ قرارنامے پر دستخط کرنے کے لیے مجھ پر دباو ڈالا جاسکے۔ لیفٹیننٹ گورنر صاحب یہ حربے اپنا رہے ہیں۔‘‘ وانگ چک کاکہنا تھا، ’’میں ان سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ پُرامن لداخ میں عسکریت پسندی کا بیج بونے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو بے روزگار رکھا جارہا ہے۔ ان کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں۔ لیکن یاد رکھیں ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔‘‘سونم وانگچک نے کہا، ’’وہ (حکومت) شاید یہ سوچتے ہوں گے کہ میں ایسا نہیں کہہ سکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے ساتھ آج کے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے مقابلے بہت زیادہ بہتر حالت میں تھے۔‘‘خیال رہے تین سال قبل سونم وانگچک بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے لیے آواز بلند کرنے والے اہم افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے وزیر نریندر مودی کے اس اقدام کی اسوقت کافی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے لداخ میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔وہیں اپنی حالیہ ویڈیو میں وانگچک نے کہا کہ لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ بار بار اٹھایا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ کس طرح مرکزی قبائلی امور کے وزیر ارجن منڈا نے 2020 کے اوائل میں ان کے خط کا جواب دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ ان کی وزارت نے لداخ کو چھٹے شیڈول کا علاقہ قرار دینے کے لیے وزارت داخلہ کو ایک تجویز بھیجی تھی۔ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ’’لہذا مجھے یقین محسوس ہوا کہ اب لداخ کی حفاظت کی جائے گی۔ لیکن لداخ کے تمام لوگوں کی یہ خوشی اس وقت اداسی میں بدل گئی جب مہینے گزر گئے اور کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔“ اس کے بعد طلباء کے احتجاج کا آغاز ہوا، اور سابق ایم پی تھوپستان چھیوانگ نے اس مقصد کی حمایت کی۔ انہوں نے چھٹے شیڈول کے لیے لیہ اپیکس باڈی آف پیپلز موومنٹ بنائی۔ کارگل میں بھی کئی تنظیموں نے مل کر کارگل ڈیموکریٹک الائنس تشکیل دی۔ جب 2020 میں لداخ ہل کونسل کے انتخابات ہوئے تو لداخی رہنماؤں نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی، لیکن وانگچک نے اس ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ وزارت داخلہ نے انہیں بات چیت کا یقین دلایا۔ بی جے پی نے ریاستی انتخابات کے ساتھ ساتھ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے منشور میں چھٹے شیڈول کا مسئلہ بھی رکھا۔ تاہم انہوں نے کہاکہ بات چیت نہیں ہوئی۔وانگچک نے کہا کہ لداخ کے لوگوں کا خیال ہے کہ’’نچلی سطح کی نوکر شاہی، صنعتی طاقتوں اور کاروباری گھرانوں سے متاثر ہو سکتی ہے‘‘، جو چاہتے تھے کہ ’’یہاں کی ہر وادی میں کان کنی ہو“۔مزیدیہ کہتے ہوئے کہ چین نے تبت میں اسی قسم کا’’استحصال‘‘ کیا۔وانگچک نے قبائلی آبادی کے ذریعہ معاش اور بقا کو لاحق خطرات کا حوالہ دیا، جس میں پانی کی کمی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی صنعت کاری کے ساتھ گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ لداخ فوجی نقطہ نظر سے ایک ’’حساس‘‘ علاقہ ہے اور اسے حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
وہیں انڈین ایکسپریس کے مطابق وانگچک نے دھمکی دی کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنے احتجاج کوسخت کریں گے۔ اخبار کے مطابق وانگچک نے کہا کہ” یہ صرف ایک علامتی احتجاج تھا اور اگر کوئی جواب نہ آیا تو میں 10 دن، بعد میں 15 دن اور اسی طرح اپنی آخری سانس تک بھوک ہڑتال کروں گا۔“
سونم وانگ چک کون ہیں؟
1966 میں پیدا ہونے والے سونم وانگچک مکینیکل انجینئر اور ہمالین انسٹی ٹیوٹ آف آلٹرنیٹیو، لداخ کے ڈائریکٹر ہیں۔وانگچک کو سال 2018 میں میگسیسے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ 2009ء میں آئی بالی وڈ کی معروف فلم” تھری ایڈیٹس“ میں اداکار عامر خان نے پھنسک وانگڑو کا کردار ادا کیا تھا جو دراصل سونم وانگچک سے متاثر تھا۔وانگچک کواختراعی اسکول، اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل اینڈ کلچرل موومنٹ آف لداخ کے قیام کے لیے جانا جاتا ہے، جن کا کیمپس شمسی توانائی پر چلتا ہے اور کھانا پکانے، لائٹنگ یا ہیٹنگ کے لیے کوئی فوسل فیول استعمال نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے 1988 میں SECMOL قائم کیا جس کا مقصد لداخ کے بچوں اور نوجوانوں کی مدد کرنا اور ان طلباء کی تربیت کرنا جن کو سسٹم نے ناکام قرار دیا۔ 1994 میں، وانگچک نے سرکاری اسکولوں کے نظام میں اصلاحات لانے کے لیے” آپریشن نیو ہوپ“ کا آغاز کیا۔ اس نے لداخ کی سردیوں میں درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے مٹی سے بنی کم لاگت شمسی توانائی سے گرم عمارتوں کو ڈیزائن کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ برفانی اسٹوپا پہاڑی علاقوں کو درپیش پانی کے بحران کو حل کرنے کی طرف ایک اور اہم ایجاد ہے۔ 2021 میں،انہوں نے ایک ماحول دوست شمسی توانائی سے گرم خیمہ بھی بنایا جسے فوجی اہلکار لداخ کے علاقے میں سیاچن اور گلوان وادی جیسی انتہائی سرد جگہوں پر استعمال کر سکتے ہیں۔ نومبر 2022 میں، انہیں سابق نائب صدر وینکیا نائیڈو نے ساتویں ڈاکٹر پالوس مار گریگوریوس ایوارڈ سے نوازا تھا۔ یہ ایوارڈ دہلی ڈائوسیز کے پہلے میٹروپولیٹن اور معروف فلسفی ڈاکٹر پالوس مار گریگوریوس کی یاد میں ہر ایک سال بعد دیا جاتا ہے۔
چھٹا شیڈول کیا ہے؟
آئین ہندکے چھٹے شیڈول میں قبائلی علاقوں میں خود مختار ضلعی کونسل اور علاقائی کونسلوں کو اپنے اپنے علاقوں کے لیے قانون سازی کا حق دیا گیا ہے۔ اِسوقت چار ریاستیں میگھالیہ، آسام، میزورم اور تریپورا کے دس اضلاع چھٹے شیڈول میں شامل ہیں۔