آج سماجی برائیوں کی کوئی کمی نہیں ہیں ۔ دنیا میں کوئی بھی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں کسی نہ کسی قسم کی برائی پائی جاتی ہو۔ اس کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے۔۔۔ ہر دن پوری دنیا میں منشیات کے روک تھام کے لئے سیمیناراور اصلاحی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جہاں منشیات کے برے اثرات کا ذکر کیا جاتا ہے، گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کو‘ خاص کر نوجوانوں کونصیحت کی جاتی ہے کہ اپنے بیش قیمتی سالوں کو اس گندی لت میں ضائع مت کریں۔ مذہبی رہنما اور پولیس بھی اس مہم میں سبقت لیتے ہوئے لوگوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مگر ایک بات سمجھ سے بالا ترہے کہ گنہگاروں کو جیل میں ڈالنے سے کیا ہوگا؛گناہ کو روکنا ضروری ہے۔ اس طرح منشیات فروشوں کو جیل میں بھرنے سے کیا ہوگا؟ ہر روز منشیات فروشوں کو پکڑ کر ان کی تصویر سوشل میڈیا سائٹس پر ڈال دی جاتی ہے۔ آئے دن یہ خبریں موصول ہوتی ہیں کہ اِتنے اور اُتنے منشیات فروشوں کو پکڑلیا گیا،جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہ زہر آتا کہاں سے ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو اس کو نوجوانوں میں ترسیل کرتے ہیں۔ اس گھناؤنےجرم میں کون کون سے ممالک ملوث ہیں۔ یہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔
انفرادی سطح پر کوششیں بس کچھ لمحوں کے لئے اطمینان کی سانس میسر کرتی ہیں۔ مگر نچلی سطح پر اس وباکا تدارک کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسرے الفاظ میں ناممکن ہے۔ یہ کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور اس کی جڑیں گہری ہیں۔ اس میں بڑی اور چھوٹی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کے پاس پہنچاور رسوخ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسے لوگ حکومت کی نظروں میں ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت کی آنکھوں کے سامنے کیسے منشیات ایک ریاست سے دوسری ریاست میں پہنچایا جاتے! اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت گہری نیند میں ہے۔ وہ تب ہی جاگ جاتی ہے جب پانی سر کے اوپر سے نکل جاتا ہے؛یہ کہنا بھی سراسر غلط ہے۔ اصل میں کچھ اور ہے جس کی پردہ داری ہے۔ جو زہر نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کرتا ہے ،وہ حکومت کی نظروں سے اوجھل ہو، قابلِ قبول نہیں ہے۔ دوسرے معاملات کا تدارک کرنے کے لئے حکومت اقدامات کی بہتات کرتی ہیں، مگر منشیات جیسے زہر کی روک تھام کے لئے یہ لاچار ہے یا پھر کچھ چیزیں اس کام میں ایسی آڑے آتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ٹھوس اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے۔افسروں کے چندوں کو گرم رکھنا اور پیٹ کی آگ بجھانا بہت سارے افراد کو اس حرام میں دھکیل دیتے ہیں۔ادھر ہمارے یہاں مجبوریاں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ اگر روزگار کے اور مواقع موجود ہوتے تو لوگ اس زہر کی ترسیل میںشاید ملوث نہیں ہوتے۔
اب جبکہ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد اس لت کا شکار ہوئی ہے، تو کرنے کا کام کیا رہ جاتا ہے۔ جیسے کہ پہلے ہی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ ایک عالمی ناسور ہے۔ اس میں بڑے بڑے کھلاڑی پائے جاتے ہیں۔ ان کے لئے سرکارے اور قوانین بس کتابوں تک محدود ہیں۔ حساس لوگوں کو اس ضمن میں آگے آنا ہوگا۔ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اولاد پر نظر رکھے۔ بچوں کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ ان کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کرے۔ ان کو دھمکانے سے پرہیز کرے۔ دوسرے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنا چھوڑ دیں۔ ان کو یہ بات سمجھائے کہ کم ہی سہی لیکن حلال کمائی ضروری ہے۔ غم اور خوشی ہی زندگی ہے۔ زیادہ سوچنے سے پرہیز کیا جائے۔ سادہ مگر اعلیٰ زندگی گزارنے کی تلقین کئی جائے۔ یہ کام لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ یہ دانتوں کو توڑ بھی سکتا ہے۔ مگر کوشش کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔