مرکزی زیر انتظام والے علاقہ لداخ میں خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل،کرگل کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے بھاجپا کو بری طرح شکست دی۔26 نشستوں پر چار اکتوبر کو ہوئے چناؤکے نتائج 8 اکتوبر کی شام کو سامنے آئے اور ان میں نیشنل کانفرنس سرفہرست رہی۔ این سی نے سب سے زیادہ 12 نشستیں حاصل کی ہیں اسکے بعد این سی اتحادی کانگریس نے 10، بھاجپا دو سیٹوں پر سمٹ گئی،آزاد امیدواروں نے دو سیٹیں حاصل کی وہیں عام آدمی پارٹی کھاتہ بھی نہ کھول سکی۔ان چناؤ میں کانگریس اور این سی نے اتحاد کا اعلان کیا تھا تاہم چھ سیٹوں پر’’دوستانہ مقابلہ‘‘کے اعلان کیا تھاجس سے انہیں ایک سیٹ کا نقصان ہوا۔ کھنگرال کی بودھ اکثریتی سیٹ پر جہاں بھاجپا کو کامیابی ملی وہاں بھاجپا امیدوار پدمادوچےنے1007 ووٹ حاصل کیے جبکہ این سی اور کانگریس کے امیدواروں نے مشترکہ طور پر 1309 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ان انتخابات میں 26 سیٹوں پر 85 امیدوار آمنے سامنے تھے جن میں حکمران جماعت بی جے پی کے 17، نیشنل کانفرنس کے 17، کانگرس کے 22 اور 25 آزاد امیدوار تھے۔ وہیں عام آدمی پارٹی کے چار امیدوار تھے۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کرگل میں یہ پہلا چناؤ تھا۔مقامی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کانگریس اور این سی کو مبارکباد بھی دی گئی۔پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کرگل خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل انتخابات کے نتائج پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہوئےایک ٹویٹ میں کہا کہ” یہ نتائج اچھے ہیں کہ سیکولر جماعتیں نیشنل کانفرنس اور کانگرس فتح یاب ہوئی“۔انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کرگل میں یہ پہلا چناؤ ہے اور لداخ کے عوام نے اپنا موقف سامنے رکھا ہے۔کیمونسٹ پارٹی لیڈرمحمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ کرگل انتخابات میں این سی کانگریس کی شاندار کارکردگی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کی تقسیم کے بعد بی جے پی کی ترقی کے جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کر دیا ہے۔جبکہ کانگریس نے اس جیت کاسہرا راہل گاندھی کے سر باندھا۔اس جیت کے اگلے روز این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ یہ انتخابات بی جے پی کے 5 اگست 2019 فیصلوں پر ایک ریفرنڈم ہے۔انہوں نے کہا کہ کرگل انتخابات کے نتائج سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ لداخ کے لوگوں کو جموں وکشمیر سے الگ کرنا جتنا جموں وکشمیر کےعوام کو بُرا لگا، اتنی ہی یہ بات کرگل کے لوگوں کو کھٹکتی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ کرگل ہل کونسل الیکشن 5 اگست 2019 کے بارے میں تھا اور کرگل کے لوگوں نے ثابت کیا کہ وہ مرکزی سرکار کے اس فیصلے کے ساتھ نہیں تھے جس میں جموں وکشمیر اور لداخ کو تقسیم کیا گیا اور یو ٹیز بنا دی گئی۔اسمبلی چناؤ کے بارے میں عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس الیکشن کے لیے تیار ہے لیکن مرکزی سرکار اور بی جے پی تیار نہیں ہیں، کیونکہ وہ لوگوں سے ڈر رہے ہیں اور ان کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کےالیکشن کمشنر نے سکیورٹی صورتحال کا ذکر کیا، جبکہ مرکزی سرکار دعوے کر رہی ہے کہ یہاں سکیورٹی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں یہاں الیکشن منعقد نہیں کراتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے اشاروں پر چلتی ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا ان کو امید تھی کہ یہاں پنچایت اور بلدیاتی انتخابات منعقد ہونگے، لیکن اب یہاں بی جے پی کوئی بھی الیکشن کرانے کی ہمت نہیں رکھتی اور یہ پارلیمنٹ الیکشن بھی نہیں کرواتے یہاں لیکن اس کا انعقاد ان کے لیے مجبوری ہے۔
عمر عبداللہ نے الیکشن کمیشن کو تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جموںو کشمیر میں ایک ہی فیکٹر ہے وہ ہے خوف کا فیکٹر۔ لیکن مرکزی سرکار دعوے کررہی ہے کہ یہاں کے حالات پانچ اگست کے بعد بہتر ہوئے ہیں، اگر ہوئے ہیں تو پھر یہاں الیکشن کیوں نہیں کراتے؟واضح رہے 9اکتوبر کو ہی غور طلب ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا، جو سات نومبر سے شروع ہورہے ہیں، لیکن جب جموں وکشمیر میں اسمبلی انتخابات کے متعلق سوال پوچھا گیا تو کمیشن نے کوئی واضح بات نہیں کہی بلکہ سیکورٹی صورتحا ل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ سیکورٹی صورتحال اور دیگر ریاستوں میں منعقد ہونے والے انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح وقت پر جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں اعلان کریں گے۔ادھر جب عمر عبداللہ کے بیان کے متعلق بھاجپا یوٹی صدر رویندر رینہ سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھاجپا جموں وکشمیر میں الیکشن کےلیے کسی بھی وقت تیار ہےلیکن اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کاڈر ان سیاسی جماعتوں کو ہے جو کبھی گپکار الائنس اور کبھی انڈیا کا نام استعمال کر کےاتحاد کر رہے ہیں۔
ادھر10 اکتوبر کواپوزیشن جماعتوں نے مہاراجہ ہری سنگھ پارک جموں میں الیکشن کروانے کی مانگ کو لیکر احتجاجی دھرنا بھی کیا تاہم اس احتجاج میں محبوبہ مفتی اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ شامل نہیں ہوئے۔احتجاج میں اپوزیشن جماعتوں کے کئی لیڈران و کارکنان شامل تھے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پردیش کانگریس صدر وقار رسول وانی نے کہا کہ کرگل انتخابی نتائج بی جے پی کے لیے واضح پیغام ہیں۔ انہوں نے کہا آج تمام اپوزیشن جماعتیں جموں و کشمیر میں آئین کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ لوگ اپنے جمہوری حقوق مانگ رہے ہیں لیکن اس حکومت کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔این سی کے صوبائی صدر رتن لال گپتا نے کہاکہ” معاشرے کا ہر طبقہ خواہ وہ بے روزگار نوجوان ہو، غریب ہو، عام آدمی ہو، خواتین، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے، سرکاری ملازمین یا تاجر برادری، جموں و کشمیر میں بی جے پی اور اس کی پراکسی حکمرانی سے مایوس ہے“۔این سی لیڈر اور سابق وزیر اجے سدھوترا نے یاد دلایا کہ وزیر داخلہ نے 5 اگست 2019 کو پارلیمنٹ کے فلور پر اسمبلی انتخابات کرانے اور مناسب وقت پر ریاستی درجہ بحال کرنے کا یقین دلایا تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ الیکشن کمیشن نے پانچ ریاستوں میں انتخابات کا اعلان کیا تھا، لیکن جموں و کشمیر میں نہیں۔ واضح رہے اس سے قبل مقامی نیوز ایجنسیز کے مطابق دلی میں ہوئی میٹنگ میں مرکزی سرکار نے رواں سال بلدیاتی و پنچایتی انتخابات نہ کرانے کا فیصلہ لیا ہے۔اور ان چناو کو لوک سبھا الیکشن کے بعد ہی کروانے اشارے ملے ہیں۔وہیں سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جموں وکشمیر میں سرکاری زمینوں پر تجاوزات کے خلاف انہدامی کارروائی، سمارٹ میٹروں کی تنصیب، سرور ٹول پلازہ اور پراپرٹی ٹیکس جیسے فیصلوں سے کشمیر کی ہی عوام نہیں جموں کے عوام بھی بھاجپا سے ناراض ہیں. اس لیے جموں وکشمیر بھاجپا یونٹ نے یہاں الیکشن نہ کروانے کا مشورہ دیا ہے۔ادھر سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی مانتے ہیں کہ کرگل نتائج کے بعد یہاں اسمبلی انتخابات مزیدالتوا میںپڑگئے ہیں۔اور کچھ تو یہ بھی مانتے ہیں کہ اگر مرکز میںبھاجپا کی سرکار پھر سے واپس آئی تو 2025تک یہاں اسمبلی انتخابات کے کرانے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔