29اکتوبر2023ء کو یہ خبر مشتہر ہوئی کہ معروف مبلغ دین اور تبلیغی جماعت کی سرکردہ شخصیت مولانا طارق جمیل کے چھوٹے بیٹے عاصم جمیل نے خودکشی کرکےاپنی جان کا خاتمہ کردیا ہے۔ اس خبر نے جہاں مولانا کے لاکھوں مداحوں اور چاہنے والوں کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا وہیں پر لاکھوں کروڑوں لوگ سوگوار ہوگئے۔ ایک جوان سال خوبرو انسان کی اچانک اور تکلیف دہ موت پر کون شقی القلب ہوگا کہ جو سوگوار نہ ہوگا۔
ابتدائی طور پر خبروں میں کہا گیا کہ مرحوم گولی لگنے سے جان بحق ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی متضاد اور متفرق خبروں کی ترسیل کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مولانا طارق جمیل کے چھوٹے بھائی جو پیشے کے لحاظ سے مڈیکل ڈاکٹرہیں نے ابتدائی طور پر عاصم جمیل کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جِم کے اندر ورزش کرتے ہوئے غلطی سے مرحوم کی پستول چل گئی جس سے نکلنے والی گولی سے وہ جان بحق ہوگئے۔ خود مولانا طارق جمیل نےسماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ’’ آج تلمبہ میں میرے بیٹے عاصم جمیل کا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘مولانا طارق جمیل نے کہا کہ اس حادثاتی موت نے ماحول کو سوگوار بنا دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ سب سے گزارش ہے کہ اس غم کے موقع پر ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں، اللہ میرے فرزند کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
دوسری جانب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے آر پی او ملتان سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔ ترجمان پنجاب(پاکستان) پولیس کے مطابق آئی جی پنجاب نے کہا ہے کہ شواہد اور فرانزک رپورٹ کی روشنی میں موت کی وجوہات کا تعین کیا جائے۔ ابتدائی رپورٹ میں پولیس کا کہنا تھا کہ مولانا کے بیٹے کا قتل نہیں بلکہ انہوں نے خودکشی کی ہے۔بعدازاں مرحوم کے بڑے بھائی مولانا یوسف جمیل نے مرحوم کی خودکشی کے بعد وفات کی تصدیق کردی۔ مرحوم کے بڑے بھائی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ میرا بھائی عاصم جمیل بچپن سے شدید ڈپریشن کا مریض تھا۔مولانا یوسف جمیل نے کہا عاصم جمیل کی بیماری میں پچھلے6ماہ سے شدت آگئی تھی، بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے عاصم کو الیکٹرک شاک لگائے جارہے تھے لیکن الیکٹرک شاک دینے سے بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا گزشتہ روز وہ اتفاقاً گھر میں اکیلا تھا، تکلیف اور اذّیت برداشت نہیں کرسکا اور عاصم نے سکیورٹی اہلکار سے بندوق لے کر خود کو گولی مارلی۔بھائی نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ کسی سے دشمنی تھی یا کسی نے حملہ کیا،یہ اس کی تقدیر تھی اور ہم اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہیں۔
اِس دلدوز واقعے نے جہاں سبھی قلوب و اذہان کو ہلا کر رکھ دیا وہیں پر اجتماعی طور پر انسانی ماحول کی پراگندگی ، گھٹن،زبان بندی اور بے پناہ مالی وجسمانی مصائب کی وجہ سے بڑھتے ہوئے عدم برداشت،ذہنی و قلبی بیماریوں میں اضافے کی جانب بھی ہماری توجہ ایک بار پھر مبذول کرادی ہے۔ مولانا طارق جمیل کے عقیدت مند ہوں یا ان کے ناقد سبھی ایک بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا کا نرم گفتار، مسکراہٹ بھرا لہجہ اور پُرشفقت گفتگو کسی بھی ڈپریشن کے شکار انسان کو یاس و نومیدی کے عالم سے نکال کر زندگی اور امید کی جانب لاسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک ایسے مبلغ کے گھر میں بھی خود ان کا فرزنداسی مرض کا شکا ہوجائے تو واقعتاً یہ قابل غور امر بن جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری نئی نسل کیوں اور کیسے اس بیماری میں مبتلا ہورہی ہیں اور کیا ہمارے ہاتھوں میں کچھ ایسا ہے کہ جس سے اس صورت حال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب مقدس القرآن الکریم میں فرمایا ہے کہ دلوں کو اطمینان بس اللہ کو یاد کرنے سے ہی ملتا ہے اورحکم ایزدی کے ہوتے ہوئے کون یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس کے پاس دلوں کو مطمئن کرنے کا کوئی اور طریقہ یا نسخہ موجود ہے۔ہاں ! اللہ کی یاد کیا ہے اور کس طرح سے کی جاسکتی ہے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب بھی بہرحال ہمیں اللہ کی کتاب اور اسکے رسولﷺ کے فرامین سے ہی اَخذ کرنا پڑے گا۔ دنیا ایک ایک گورکھ دھندہ ہے کہ جس میں انسان کے ذہن کو اُلجھا کر مائوف کردینے کے بے شمار عوامل موجود ہیں اور خود انسان بھی اپنے لئے کسی ٹروجون ہارس یا عفریت سے کم نہیں کیونکہ اُس نے بھی اپنے آپ کو تباہ کردینے کے ایسے ایسے سامان تیار کررکھے ہیں کہ جن کی نظیر ماضی بعید میں ملنا بھی دشوار ہے ۔ وہ جون ایلیا ؔنے کیا خوب کہا تھا ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
یہی ہے انسان کہ جس نے خود کو تباہ کرنے کا ہر حربہ تیار کررکھا ہے اور حد یہ ہے کہ اس کا اسے کچھ ملال بھی نہیں ہے۔ آج کل فلسطین کا حال ہی دیکھ لیجئے یا اگر آپ فلسطین مخالف ہیں تو کسی کٹی ہوئی اسرائیلی لاش کوہی دیکھ لیجئے اور غور کیجئےکہ کیا اتنا خون خرابہ دیکھ کر کوئی ذی ہوش متنفس ہوش مند رہ سکتا ہے۔ جب ایک ذی ہوش و حواس انسان کچھ ہی گھنٹہ قبل پیدا ہونے والے انسانی بچے کی ننھے ننھے ہاتھوںکی نرم نرم انگلیوں پر جمے ہوئے خون کے دھبے دیکھتا ہے تو کیا کوئی شئے ہے کہ جو اسے پاگل ہونے سے روک سکتی ہے۔جب اشرف المخلوق کہلانے والا کوئی ہوش مند کسی معصوم چہرے کہ جسے پھول کی نرم پتیاں چُھولیں تو بھی زخمی ہوجائےپر بموں اور شیلوں کے زرّات دیکھتا یا پھر کسی معصوم کی کٹی پھٹی لاش اسکی نگاہوں کے سامنے گزرتی ہے تو کیا وہ اپنے حواس پر قابو رکھ سکتا ہے۔ سچ یہی ہے کہ انسان کی ہوسِ اقتدار و تسلّط، انسان کے حیوان ہوجانے کی چاہت، دوسروں کےلئے اسکی خواہشِ تخریب بڑھ جاتی ہے تو انسانیت مر جاتی ہے۔ اور جب انسانیت کا جنازہ اٹھتا ہے تو ہوش مند ہوش کھو لیتے ہیں اور اسی کیفیت کو ڈپریشن، ذہنی مرض یا عارضے کا نام دے کر داخل ِ دفتر کیا جاتا ہے۔ انسان جب ایسی صورت حال کو بدلنے میں ناکام و نامراد ہوجاتا ہے یا پھر جب اسکی بے بسی اس کے عزم کو شکست دے جاتی ہے تو اسکا دماغ مائوف اور حواس باختہ ہوجاتا ہےاور وہ نشے سے لیکر خودکشی کے عمل کو ہی اپنی ساری مصیبتوں سے چھٹکارا تصور کرتا ہے۔ خود جموںو کشمیر کو ہی لیجئے۔ اعداد و شماریات پر بھروسہ کریں تو بتایا جاتا ہے کہ کئی برسوں کی تباہ حالی نے ابھی تک ہزاروں لاکھوں گھروں کے چشم و چراغ بے نور کردئے ہیں۔انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کی جانب سے کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں ہر پانچ افراد میں سے ایک پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر(ڈپریشن) کی علامات ظاہر کرتا ہے۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر ارشد حسین نے کشمیر کو دنیا کا سب سے غمگین خطہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں رہنا آسان نہیں ہے کیونکہ کشمیر میں ہر کوئی ہر وقت آفات کا شکار ہے۔ صدیوں سے جاری سیاسی بحران، بے روزگاری کی آسمانی شرح، زلزلے، سیلاب، برفانی تودوں کی تبا کاریوں نے اس خوبصورت جگہ کو مقامی باشندوں کے لیے ایک زندہ جہنم بنا دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق جب ہاتھی لڑتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان گھاس کو ہوتا ہے والی مشہور افریقی کہاوت اہل کشمیر کے لیے موزوں ہے ۔ایک اور رپورٹ کے مطابق جس کا عنوان ’’تنازعات کی زندگی: کشمیر میں ڈپریشن کی خصوصیات‘‘ ہے، میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں مسلسل تنازعات کی وجہ سے، نفسیاتی مریضوں میں ایک خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ اس مطالعے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں ڈپریشن کی شرح 55فیصد سے زائدہے اور جس عمر کا گروپ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ 15سے 25سال ہے۔ اسی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ ڈپریشن کی شرح شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں زیادہ ہے اور خاص طور پر دیہی خواتین میں بہت زیادہ ہے۔ ایک اور سروے کے مطابق جسے سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی نے انجام دیا ہے میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 22اعشاریہ 2فیصد ہے، جو کہ قومی سطح کی بے روزگاری کی شرح7 اعشاریہ ایک فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈپریشن اور بے چینی نے کشمیر میں نشے کی لت کو بھی جنم دیا۔ اقوام متحدہ کے ڈرگ کنٹرول پروگرام (یو این ڈی سی پی) کے ایک سروے سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کشمیر میں تقریباً 70000لوگ منشیات کے عادی ہیں جن میں سے4000خواتین بھی شامل ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ کشمیر میں نشے کی لت کی شرح طلبہ میں، مرد اور خواتین دونوں میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔ درحقیقت، منشیات درد اور اذیت پر قابو پانے کا حل نہیں ہیں لیکن نوجوان اسے تناؤ پر قابو پانے کا ایک عارضی حل سمجھتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسانوں کو لگنے والے اس جان لیوا روگ پر کیسے اورکیونکر قابو پایا جاسکتا ہے۔پہلے یہ جاننا پڑے گا کہ آخر ڈپریشن کیا ہے۔ ہمارے معاشروں میں ڈپریشن یا ذہنی تنائو والے عارضے کوایک بدنما داغ بنادیا گیا ہے اور لوگ ایسے شخص کو ’’پاگل ‘‘ قرار دے کر لاعلاج بنادیتے ہیں۔ برصغیر اور تیسری دنیا کے ممالک میں اکثر لوگ تو اس قسم کی بیماری کو تسلیم ہی نہیں کرتے کجا اس کا علاج معالجہ ڈھونڈیں۔اسطرح ایک اچھا بھلا انسان علاج نہ ملنے کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے ۔ڈپریشن کیا ہے؟ڈپریشن ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، یہ مرض واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے جو اس کی سوشل اور پروفیشنل زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔’اینزائٹی‘کو ڈپریشن کی جڑواں بہن کہا جاسکتا ہے، ڈپریشن مریض کو ایک ناکام انسان کے طور پر پیش کرتا ہے تو اینزائٹی ان منفی خیالات و تصورات کو بڑھا کر مریض میں مسلسل خوف اور اندیشوں کی کیفیت کو پروان چڑھاتی ہے یوں زندگی میں ترقی کا سفر رک کر جمود کا باعث بنتا ہے اور یہ جمود رفتہ رفتہ انسان کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کے خوشیوں، خوابوں، رشتوں اور محبتوں کو کسی دیمک کی طرح چاٹ کر مریض کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔دنیا کے کئی خطوں اور ممالک خاص طور پر اسلامی ممالک کی اکثریت میں جوائنٹ فیملی سسٹم کا رواج ہے جہاں بڑے بڑے خاندان اکھٹے زندگی کے غم اور خوشیاں بانٹتے ہیں۔پھر یہ بھی سچ ہے کہ ایسی بیشتر جگہوں میں کسی بھی طرح کی بیماری کی صورت میں مریض کو فیملی و عزیز و اقربا کی مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ہے، مگر ہمارا فرسودہ سماجی نظام نفسیاتی و ذہنی عوارض کو پاگل پن قرار دے کر مریض کو علاج و ریکوری میں سپورٹ کرنے کے بجائے اسے مزید تنہا کردیتا ہے۔تاہم اگر دیکھا جائے تو ڈپریشن اور اینزائٹی دراصل پاگل پن نہیں بلکہ ایک ذہنی دباؤ جیسا مسئلہ ہیں جو عالمی سطح پر بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔اسی طرح جنریشن گیپ کا مسئلہ بھی ہمارے معاشروں میں خاص طور پر نوجوانوں کو ذہنی عارضوں میں مبتلا کرنے کا ایک ذریعہ بن رہا ہے۔آج کی نسل ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہی ہے جو ایک کلک یا موبائل پر چند انگلیاںچلا کر سے ہر چیز کا حصول چاہتی ہے جبکہ والدین ابھی تک پرانی اقدار و روایات کے حامل ہیں۔ اس وجہ سے والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ نہ تو والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا چاہتی ہے، نتیجتاً ہر گھر میں ایک باغی یا احساسات سے عاری بچہ جنم لے رہا ہے جن کی زندگی کا واحد مقصد صرف اور صرف اپنی خواہشات کی تسکین ہے۔ اسی طرح معاشی مسائل بھی انسانوں کے دل و دماغ کو مائوف کرنے کا ایک باعث ہیں ۔ ہندو پاک یا کہئے تو پورا برصغیر کا خطہ ڈپریشن زدہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کررہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ معاشہ کمزوریاں بھی ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ معاشی مسائل بھی ہیں، بڑے شہروں میں آبادی کے پھیلاؤ اور پر تعیش لائف اسٹائل کو اختیار کرنے کے جنون میں چیلنجز بڑھ گئے ہیں، اسٹیٹس کو کی دوڑ میں ہر کوئی جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ کما کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے جنون میں اچھائی اور برائی میں تمیز بھولتا جا رہا ہے جس کے باعث نہ صرف سماجی نظام زوال کا شکار ہے بلکہ خونی رشتوں میں بھی خود غرضی اور مفاد پرستی بڑھتی جارہی ہے۔ایسے میں حساس فطرت اور درد مند دل رکھنے والے افراد تیزی سے ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ ہر موڑ پر انسان کے روپ میں ایک بھیڑیا اسے نوچ کھانے کو بیٹھا ہے، اس کے ساتھ ہی بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور دفاتر میں سینئر افراد یا آفیسروں کے خراب رویوں کے باعث بھی نوجوان نسل تیزی سے ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ لوگوں میں ڈپریشن بڑھنے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا اور موبائیل فون کا بڑھتا ہوا رجحان بھی بتایا جاتا ہے۔ ایک معروف کالم نویس لکھتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا نے گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی میں ہماری سماجی زندگی کو اپنی آہنی پنجوں میں جکڑ لیا ہے، اسمارٹ فونز کی آمد کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال بھی تیزی سے بڑھتا گیا اور فی الوقت برصغیر کے ممالک اسمارٹ فونز در آمد کرنے والے صف اوّل کے ممالک میں سےہیں، مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر نئی ایجاد کے دیوانے ہو کر اس کے منفی استعمال کو ہی فروغ دیتے ہیں۔فیس بک،ٹوئٹر، انسٹا گرام اور سماجی رابطے کی دیگر تمام ویب سائٹس بنانے کا مقصد دنیا بھر کے افراد کو آپس میں جوڑ کر عالمی امن کو فروغ دینا تھا مگر ہماری نوجوان نسل نے انہیں ایک ’’متوازی زندگی ‘‘کے طور پر لیا، جہاں ہر کوئی اپنی اصل شخصیت کو چھپائے، ماسک ڈالے’’ مسٹریا مس پرفیکٹ‘‘ بنا بیٹھا ہے، جس سے نئی نسل میں نفسیاتی و ذہنی عوارض بڑھ گئے ہیں کیونکہ لوگ اپنے نقائص کے ساتھ خود کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں، اسی لیے اپنوں اور قریبی رشتوں سے فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور گھروں میں لوگ ساتھ بیٹھ کر بات چیت کے بجائے اسمارٹ فونز پر مصروف رہتے ہیں۔موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن و اینزائٹی کی شرح تیزی سے بڑھی ہے مگر ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے نشے میں اس طرح مبتلا ہیں کہ ان کے بغیر ہماری زندگی ادھوری ہے۔
دوسری جانب نئی نسل کے والدین بھی اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے اور بچوں کو توجہ دینے کے بجائے سوشل میڈیا اور موبائل پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں جو آنے والی نسل میں ڈپریشن اور اینزائٹی سے بھی سنگین نفسیاتی عوارض کا ریڈ سگنل ہے‘‘۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس عفریت کو کس طرح قابو میں لایا جاسکتا ہے۔اس صورت حال کو بدلنے کا پہلا راستہ مذہب اور دین کے راستے پر چل کر اپنے معبود حقیقی کو راضی کرنے کا عمل ہے۔ جب انسان اپنے معبود حقیقی سے اپنا تعلق منافقت اور من مرضیت کے بغیر جوڑتا ہے تو اس کا قلب و ذہن خود بخود امن و استحکام کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس کا کوئی توڑ نہیں۔ بے شک دلوں کو اطمینان معبود حقیقی کو یاد کرنے سے ہی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ضروری ہے کہ عالمی قائدین اور ادارے دنیا کو درپیش خونین لڑائیوں اور جنگوں کو رُکوانے کےلئے عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ روز میڈیا اور سوشل میڈیا پر نظر آنے والے خونین مناظر معدوم ہوسکیں۔ سیاسی مسائل کو حل کرکے انسانوں کےلئے زندگی کو آسان بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کےلئے بھی بڑے قائدین اور سیاست کاروں کو ووٹ بینک سیاست سے بالاتر ہوکر سٹیٹس مین شپ سوچ کو عملانے کی ضرورت ہے۔سوشل میڈیا پر پابندی لگانا یا اس کو کنٹرول کرنا اب غالباً نا ممکن بن چکا ہے لیکن پھر بھی معاشرتی سطح کے قائدین اس کے بہتر استعمال پر عوام الناس کو متنبہ یا مائل کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہترین ذہنی صحت کے لیے انفرادی طور پر ہمیں اپنی سوچ، رویے اور جذبات کو ٹھیک رکھنا ہوگا، اچھا طرزِ زندگی اپنانا ہوگا یعنی وقت پر سونا اور جاگنا، روزانہ ورزش، منشیات سے اجتناب اور عبادتوں کی پابندی۔اجتماعی طور پر باہمی تعلقات اور رویوں کو ٹھیک کرنے سے ذہنی صحت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ایک مستند ماہر تفسیات بتاتے ہیں کہ ’لوگ نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے اب ماہرین سے رجوع کر رہے ہیں مگر ابھی بھی ناخواندہ افراد میں ماہرین سے رجوع کرنے کی شرح کم ہے، تاہم صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے‘۔ان کا کہنا ہے کہ نفسیاتی علاج کینسر، ہیپاٹائٹس، ذیابطیس اور دیگر بیماریوں کے مقابلے میں سستا ہے اور زیادہ تر نفسیاتی بیماریاں 9مہینوں میں دواؤں سے ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن اس کےلئے ضروری ہے کہ علاج کیا جائے اور اس ضمن میں ساری منفی باتوں اور سوچ کو درکنار رکھا جائے۔ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں معاشرے کی بھی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل کو سنجیدگی سے لے۔محض لوگوں کو پاگل یا نفیساتی کہہ دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ یہ تو مسائل میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔نفسیاتی مسائل ایک اٹل حقیقت ہے، جب سے انسان وجود میں آیا ہے تب سے لوگوں کے رویوں اور مزاج میں عجیب و غریب تبدیلیاں اور لوگوں سے تعلقات میں خرابیاں وقوع پذیر ہوتی رہی ہیں۔ انسان انہی عجیب و غریب رویوں کی وجہ سے آپس میں جھگڑے کرتے رہے ہیں بلکہ جنگیں بھی لڑی ہیں۔معاشرے کو رویہ تبدیل کرنا ہوگا، لوگوں کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا ہوگا اور ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دوچار افراد کی آگے بڑھ کر مدد کرنی ہوگی تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آسکے۔بقول ایک اور ماہر نفسیاتی مسائل بہت عام ہیں لیکن انھیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ان کے حل تلاش کرنے کے لیے پہلے نفسیاتی مسائل کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنے طور پر اپنی نفسیاتی صحت کا خیال رکھنا اور دوسروں کے ایسے معاملات میں نرم دلی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ہم اپنے رویوں میں مثبت تبدیلیاں لا کر اپنے اور دوسروں کے نفسیاتی مسائل میں کمی لا سکتے ہیں۔ ایسے میں دوسروں کے مسائل کو سمجھنے کی نیت سے سننا اور شدت پسندی کی بجائے ٹھہراؤ اور امن کے اصولوں پر چلنا ضروری ہے۔ کوئی بھی دھرم یا نظریہ انسانیت سے بڑا نہیں لہٰذا ہمیں انسانوں کی قدر کو دل میں جگہ دیتے ہوئے فضول نفرتوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ ہر انسان اہم ہے!