وادی کشمیر میں اس وقت ہڈیوں کو جما دینے والی سردی جاری ہے۔سرینگر میں رواں سیزن میں درج حرارت منفی 2 تک پہنچ گیا ہے۔جبکہ چلہ کلاں میں سردی مزید اضافہ دیکھا جاتا ہے۔تاہم اس سب کے باوجود وادی کے لوگوں کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے بجلی لیکن اس وقت وادی کشمیر میں شدید لوڈ شیڈنگ کے باعث ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔
محکمہ بجلی کے دعوے کبھی حقیقت بنتے نظر نہیں آرہے اور ہر روز وادی کے کسی نہ کسی علاقے میں صارفین کی جانب سے سڑکوں پر نکل کر بجلی کی عدم دستیابی کے خلاف احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔محکمہ بجلی کی جانب سے ماہِ اکتوبر میں سرینگر شہر کیلئے کٹوتی شیڈول جاری کیا تھا، جس کے تحت میٹر والے علاقوں میں ساڑھے 4 گھنٹے اور نان میٹر ڈعلاقوں میں 8 گھنٹے بجلی بندرکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اگرچہ اکتوبر میں اسی شیڈول کے مطابق بجلی فراہم کی جاتی تھی لیکن نومبر میں اس شیڈول پر کوئی عمل درآمد نہیں کی گئی۔صارفین کے مطابق میٹر والے علاقوں میں اعلانیہ ساڑھے 4 گھنٹوں کے بجائے 6 سے 8 گھنٹے وقفے وقفے سے بجلی کٹوتی رہتی ہے، جبکہ غیر میٹر والے علاقوں میں 10سے 12 گھنٹے کی بجلی کٹوتی کی جاتی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق اس وقت وادی میں 1000 میگاواٹ بجلی کی کمی پائی جارہی ہےاور اس کو پورا کرنے کےلیے محکمہ لوڈ شیڈنگ کا سہارا لے رہا ہے۔اس وقت محکمہ بجلی 1100 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ وادی میں آج بجلی کی طلب 2200 میگاواٹ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں وادی میں بجلی کی طلب 1700 میگاواٹ تھی لیکن لوگوں کو صرف 900 میگاواٹ فراہم کئے جاتے تھے اور800 میگاواٹ کی کمی تھی۔ جبکہ نومبر کے پہلے ہفتے میں 1800 میگاواٹ کی ضرورت تھی، لیکن صارفین کو 1000 میگاواٹ بجلی فراہم کی جاتی رہی۔اس وقت محکمہ کے پاس مقامی بجلی 250 میگاواٹ ہی دستیاب ہے جبکہ باقی بجلی خریدی جارہی ہے۔21نومبر کو5بجکر45منٹ پر بجلی کی 1900میگاواٹ سے زیادہ تھی تاہم وہیں سپلائی صرف 834میگاواٹ تھی۔دریاؤں میں پانی کے کم اخراج کی وجہ سے جموں و کشمیر کے بجلی کے منصوبے مشکلات کا شکار ہیں، جن کی پیداوار 80 فیصد سے زیادہ گر کر محض 200 میگاواٹ رہ گئی ہے جبکہ یہ پروجیکٹ 1200 میگاواٹ رک بجلی فراہم کرسکتے ہیں۔وہیں حالیہ ایک میٹنگ میں محکمہ بجلی کے پرنسپل سیکرٹری ایچ راجیش پرساد نے محکمہ کے سینئر افسران کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا کہ بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور بجلی شیڈول پر سختی سے عمل پیرا کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جموں وکشمیر کو اضافی بجلی کی حصولی کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ وہیں دوسری طرف سے وادی میں ہر سال بجلی سپلائی کی مانگ میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
صنعتکار نقصان سے دوچار
نومبر کے پورے ماہ میں بجلی بحران سے وادی کی صنعتوں کو کافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے اور پیداوار میں کافی گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔شاہد کاملی، صدر فیڈریشن چیمبر آف انڈسٹریز کشمیر نے ایک مقامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ”بجلی کی موجودہ صورتحال نے صنعتکاروں کےنقصان کو بڑھا دیا ہے۔صنعتی شعبے پر بجلی کےموجودہ منظر نامے کے اثرات تصور سے باہر ہیں۔سردیوں کے موسم میں ہمارے پاس کام کے اوقات محدود ہوتے ہیں اور بجلی کی عدم دستیابی ہمارے مسائل کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔“کاملی نے کہا کہ صنعتی شعبے کی طرف سے پیداوار میں 75 فیصد کمی کی اطلاع ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بہت سی صنعتیں نان پرفارمنگ اثاثوں میں تبدیل ہونے کے راستے پر ہیں، جب کوئی پیداوار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ صنعتکار قرضوں کی قسطوں کا انتظام کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ آرا مشین کارخانوں کی مثال دیتے ہوئے کاملی نے کہا کہ وادی میں اس وقت 500 سے زیادہ ایسے یونٹ متاثر ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ہمارے پاس فیڈریشن کے ساتھ تقریباً 500 آرا مشین کارخانے رجسٹرڈ ہیں۔ ہم اکثر ان کے نقصانات کے بارے میں سنتے ہیں۔ ان صنعتوں کے علاوہ، ہمارے پاس بہت سے یونٹ ہیں جن میں کولڈ سٹوریج، گرڈینگ اور دیگر شامل ہیں جو بھاری نقصانات کی اطلاع دیتے ہیں“۔کاملی کے مطابق جن صنعتوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے ان میں کولڈ اسٹوریج، ایپل گریڈنگ اور پیکیجنگ انڈسٹریز اور فرنیچر کی صنعتیں شامل ہیں۔وہیں کے سی سی آئی کے سیکرٹری جنرل فیض احمد بخشی نے کہا کہ ’’ہوسپی ٹیلٹی سے لے کر کاٹیج انڈسٹریز تک، بجلی کی صورتحال نے سروس سیکٹر پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ بجلی کی غیر مقررہ کٹوتیوں کی وجہ سے نہ تو صنعتکار اور نہ ہی چھوٹے تاجر اپنا کاروبار سنبھال پا رہے ہیں۔“ انہوں نے اس معاملے میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔‘‘