وادئ کشمیر آجکل سخت ترین موسمی حالات سے نبرد آزما ہے۔ شدید ترین سردی،دھند اوراس پر مستزادبدترین بجلی کے بحران نے وادی نشینوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ ایسے میں موسمی بیماریاں نزلہ،زکام، کھانسی اور بخار وغیرہ بھی عام ہوچکے ہیں۔ شدید سردی کے نتیجے میں سب سے بُرا حال تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کا ہے اور اسی لئے ہر طرف سے سرمائی تعطیلات کی گُہار لگائی جارہی ہے۔ اس دوران مقامی روزناموں اورنیوز ایجنسیوں کے مطابق ایک اعلیٰ سر کاری عہدیدار کا یہ بیان آچکا ہے کہ انتظامیہ کچھ دنوں کے اندر اندر اسکولوں اور کالجوں کی چھٹیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے والی ہے۔ صوبائی کمشنر کشمیر، وجے کمار بدھوری، کا کہنا ہے کہ کشمیر سرمائی زون کے تمام اسکولوں کے لئے سرمائی تعطیلات کا اعلان آج یا کل کیا جا سکتا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ سرمائی تعطیلات کا اعلان مرحلہ وار بنیادوں پر کیا جائے گا۔ صوبائی کمشنر نے بدھ کے روز کہا کہ ’’وادی کشمیر میں موسمی صورتحال کے پیش نظر انتظامیہ، اسکولی تعطیلات پر غور و خوض کر رہی ہے اور اس حوالے سے سرمائی تعطیلات کا اعلان آج یا کل تک متوقع ہے۔ ایسے میں کشمیر کے سرمائی زون کے لیے تعطیلات کا اعلان مرحلہ وار بنیاد پر کیا جائے گا، جس میں پہلے پرائمری، مڈل سطح اور پھر ہائیر سیکنڈری اسکولوں کے لئے سرمائی تعطیلات کی جائیں گی۔‘‘حال ہی میں محکمہ تعلیم کے پرنسپل سیکریٹری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ڈائریکڑ اسکول ایجوکیشن کے علاوہ متعلقہ محکمہ کے دیگر عہدیداران نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں والدین کی تجاویز پرسرمائی تعطیلات کا جلد از جلد اعلان کرنے کے لیے معاملہ پر سنجیدگی سے غور و خوض کیا گیا۔واضح رہے کہ وادی کشمیر میں سخت سردیوں کی وجہ سے بچوں کو اسکولوں میں کافی پریشانی ہو رہی ہے جبکہ والدین بھی بچوں کو تیار کرنے میں دشواریاں محسوس کر رہے ہیں۔ پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن نے بھی پرائمری سطح تک کے اسکولوں کےلئے چھٹی کا مطالبہ کیا ہے کیوں کہ سردی کی وجہ سے چھوٹے بچوں کی صحت بھی بگڑ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مارچ کے بدلے اکتوبر سیشن کو پھر سے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ وادی میں سردی کے حالات کے پیش نظر مارچ سیشن طلباء کےلئے نقصان دن دہ ثابت ہو رہا ہے۔
موجودہ سردی کی لہر کے بارے میں محققین اور سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے نا ہی کشمیریوں کےلئے یہ کوئی اچھنبے کا مقام ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ گرچہ کشمیری اس نوعیت کی سردی کے عادی ہیں لیکن عام طور پر 21دسمبر کے بعد چلہ کلان میں پڑنے والی کڑاکےکی سردی جب دو ایک ماہ قبل ہی وارد ہوجائے اورہر امیر و غریب کشمیری کو اچانک دھردبوچ لے تو اس پر ہاہاکار مچ جانا کوئی حیران کن معاملہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں قابل ذکر ہے کہ درجہ حرارت کےنقطہِ انجماد سے گرجانے، یخ بستہ ہوائوں اور پانی کے ساتھ ساتھ گہری دھند نے حالات کی سنگینی کو اور بھی بڑھادیا ہے۔برمحل ہے کہ ایسے میںلوگوں کو جس فکر نے سب سے زیادہ گھیر رکھا ہے وہ اسکول اور کالج جانے والے بچوں کی خیر و عافیت کا مسئلہ ہے۔ صبح سویرے اور بعدِ سہہ پہر سردی کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے اور یہی اوقات ہیں کہ جب بچے بچیاں تعلیمی اِداروں کا رخ کرتے ہیں یا وہاں سے واپس ہوتے ہیں۔عوام الناس کی اسی بے چینی کو زبان بخشتے ہوئے کئی نجی اور سرکاری اداروں میں داخلہ لینے والے طلباء نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ تمام اسکولوں کے لیے موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان کرے۔ ان بچوں کا کہنا تھا کہ ہڈیوں تک کو ٹھنڈا کرنے والی سردی کے درمیان گرمی کے ناقص بلکہ مفقود انتظامات نے ان کے لیے کلاسوں میں جانا مشکل بنا دیا ہے۔طلاب کے والدین اور سرپرستوں نے بھی انتظامیہ سے کشمیر میں سردیوں کی جلد آمد کے پیش نظر تمام اسکولوں میں موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان کرنے اپیل کی ہے۔والدین کا دعویٰ ہے کہ صبح سویرے بسوں میں سوار ہو کر اپنے اسکولوں کو جانا طلباء، خاص طور پربچوں اور بچیوںکے لیے ایک مشکل کام ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گرچہ سرینگر میونسپل حدود کے اندر اور باہر اسکولوں کے اوقات میں تبدیلی کرنے کے حکومت کے حالیہ فیصلے سے طلباء کو کچھ راحت ملی ہے، لیکن صبح کے وقت شدید سردی اور گھنی دھند جو دیر گئے تک رہتی ہے کی وجہ سے بچوں کا اسکول جانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ابرار احمد، جن کا5سالہ بچہ سرینگر کے ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم ہے کا کہنا ہے کہ سخت سردی کے ہوتے اپنے بچے کو صبح سویرے اٹھا کر بس میں سوار کرادینا اور اسکول بھیجنا ان کےلئے ایک بڑا چیلنج ہے جس نے ان کو جذباتی طور پر متاثر کررکھا ہے۔ابرار احمد کا کہنا ہے کہ ننھے منے بچوں پر اس کڑاکے کی سردی میں اسکول جانے اور واپس آنے کا عمل کسی معرکے سے کم نہیں ہے اور ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ کم از کم ابتدائی کلاسوں کے لیے موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان کریں تاکہ بچوں کو سردی، فلو اور سانس کی دیگر بیماریوں سمیت عام بیماریوں سے بچایا جا سکے۔ ایک پرائیویٹ ملازم کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے8 سالہ بچے کو سخت سردی میں اسکول چھوڑنا پڑتا ہے، خاص طور پر صبح کے وقت۔’’میرا بچہ اکثر سردی سے کانپتا ہے اور کبھی کبھار اسے اسکول نہ بھیجنے کی التجا کرتا ہے۔ جب میں اسے صبح چھوڑتا ہوں تو مجھے واقعی اس کے لیے برا لگتا ہے‘‘۔ایسے بھی والدین ہیں کہ جنہوں نے اس ضمن میں سرکاری حکام سے بھی رابطہ کیا ہوا ہے ۔ ان میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ہم ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے حکام سے رابطہ کرتے ہیں تو جواب میں وہ اپنے سے بڑے مجاز آفیسر کا نام لے کر ہمیں ٹرکا دیتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس ذمہ داری کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتا ۔ ہر ایک یہی کہتا ہے کہ معاملہ ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
اس ضمن ہم نےکچھ ماہر ڈاکٹروں سے بھی رابطہ کیا اور ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ ڈاکٹروں کے مطابق شدید سردی کے نتیجے میں بچوں اور بزرگوں کو کئی طرح کی بیماریوں نے جکڑ لیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو جلد از جلدسردی کی شدت کو مد نظر رکھتے ہوئے پرائمری سطح تک کے سکولوں کےلئے سرمائی تعطیلات کا اعلان کرنا چاہئے کیوں کہ سکولوں میں چھوٹے بچے سردی کی وجہ سے بیمار ہورہے ہیںجبکہ دوپہر کا کھانا بھی سردی سے کافی ٹھنڈا ہوجاتا ہے جس کو کھانے سے بچے بیمار ہورہے ہیں ۔ڈاکٹروں کے مطابق وادی کشمیر میں موسم سرماشروع ہونے کے ساتھ ہی دن کے درجہ حرارت میں کافی گراوٹ دیکھی جارہی ہے اور صبح کے اوقات ایک تو سخت سردی محسوس کی جارہی ہے دوسرا سخت دھند ہوتی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بچے اور بزرگوں کو شدید پریشانی ہوتی ہے جبکہ اس سے بچے اور عمر رسیدہ افراد بیماریوں میں مبتلاءہورہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ سخت سردی کی وجہ سے بچے سکولوں میں نزلہ ، زکام اور کھانسی جیسی بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں ۔ ماہرین امراض اطفال نے اس ضمن میں کہا ہے کہ سخت سردی کے سبب چھوٹے بچوں کو جلد ہی چھاتی متاثر ہوتی ہے کیوں کہ ان کی چھاتی کافی نازک ہوتی ہے اور پھیپڑوں میں سرد ہوا کی وجہ سے ان کئی طرح کے امراض میں مبتلاءہورہے ہیں ۔
اسی اثناء میں پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن آف جموں و کشمیر نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ، منفی درجہ حرارت اور دھند کے حالات کی وجہ سےاسکولوں کے لیے موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان کرے، خاص طور پر نچلی کلاسوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر یہ اعلان کیا جانا چاہئے۔یہ درخواست متعدد والدین اور اسکولوں سے موصول ہونے والی نمائندگیوں کی بنیاد پر پیش کی گئی۔ ایسوسی ایشن کے مطابق ایک چار سالہ بچے کے لیے، اس موسم میں جلدی اٹھنا اور اسکول کے لیے تیار ہونا بہت مشکل ہے۔ اس ضمن میں ایسوسی ایشن کے صدر غلام نبی وار کا کہنا ہے کہ ’ ’ہم کوئی ترقی یافتہ قوم نہیں ہیں جہاں گھر، بسیں اور اسکول سبھی مرکزی طور پر گرم ہوں۔ ہمیں موسم کے مطابق ایڈجسٹ کرنا ہوگا‘‘۔انہوں نے کہا کہ شدید دھند کی کیفیت اور منفی درجہ حرارت کی وجہ سے بچوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اسکولوں میں بھی، زیر تعلیم بچے توجہ مرکوز کرنے کے قابل نہیں ہیں، اس طرح کلاسوں کی پوری مشق ضائع ہو جاتی ہے۔ وار کا کہنا ہے کہ اگر اسکولوں میں بچوں کو گرمی کا معقول و مناسب انتظام نہیں ملتاتو انہیں کھلا رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟ بہتر ہو گا کہ سردیوں کی چھٹیوں کا جلد سے جلد اعلان کر دیا جائے حکومت کو چاہئے کہ وہ بچوں کی صحت کے تحفظ کے لیے موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان کرے۔
اسی کے ساتھ ساتھ کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (جے کے ایس اے) نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان کریں۔ایک بیان میں، ایسوسی ایشن کے قومی کنوینر ناصر کھیوہامی نے کہا،’’لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کو موسم میں ہونے والی ان تبدیلیوں پر غور کرنا چاہیے۔ شدید سردی اور دھند میں بچوں کے لیے اسکول جانا بہت مشکل ہے‘‘۔درخواست میں خاص طور پر8ویں جماعت تک موسم سرما کی تعطیلات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایک ماہر تعلیم عبدالقیوم سےجب اس حوالے سے بات کی اورڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کشمیر کے حال ہی میں دئے گئے بیان انہیں سیشن کے 220تعلیمی دن مکمل کرنے کی ضرورت ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے میں حکومت کیا کرے۔ مذکورہ ماہر تعلیم کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن کشمیر زمینی صورتحال سے واقف نہیں ہیں۔ طلباءا سکولوں میں کانپ رہے ہیں اور حکام انہیں بغیر کسی معقول انتظام کے پڑھانے پر بضد ہیں۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکام تعلیمی سیشن کی تبدیلی اور ایسے ہی دوسرے یک طرفہ اقدامات کو صحیح ثابت کرنے کےلئےبچوں کے مستقبل کے ساتھ ہورہے تماشے سے نابلد ہیں۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ طلباء و طالبات کی فلاح و بہبود کے ساتھ قوموں اور ملکوں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ماہر تعلیم کا مذید کہنا ہے کہ کشمیرایک سرد علاقہ ہے اور یہاں اکتوبر نومبر میں اسکولی سیشن مکمل ہوکر بچوں کے امتحانات ہوجایا کرتے تھے اور یوں سردیوں کے دوران ‘ جب کہ حالات سخت ہوتے ہیں، بجلی نہیں ہوتی، یخ بستہ ہوائیں اورسرد ترین پانی پر گزارا کرنا پڑتا ہے‘ طلاب اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتے تھے لیکن اچانک برسوں سے جاری ایک عمل کو یک طرفہ طور پر بدل دیا گیا اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔ نہ ہی بچوں کا سیلبس مکمل ہوا ہے اور نا ہی سیشن کےلئے متعین ایام کو سخت سردی کے دوران پورا کرنے کے ذرائع بہم ہیں ۔بس ایک ضد ہے کہ جس کی تکمیل کےلئے سب کچھ کیا جارہا ہے۔ مذکورہ ماہر تعلیم کا مذید کہنا ہے کہ موجودہ انتظامیہ اور اس سے ماقبل کئی ادوار کی انتظامیہ نے بارہا سردیوں میں اسکولوں کو کھلا رکھنے اور تعلیمی سرگرمیوں کو یورپ و امریکہ کی مانند برف باری کے دوران بھی جاری رکھنے کےلئے اقدامات اٹھانے کی باتیں کیں تھیںلیکن کچھ نہیں کیا گیا ۔ یہاں عام لوگوں کو ضرورت کی بجلی اور ایندھن مہیا کرنا ممکن ہورہا ہے تو کجا آپ اسکولوں کے اندر معقول ہیٹنگ سسٹم لگاکر تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں ‘یہ ناممکنات میں سے ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر میں سرد موسم کے اچانک آغاز نے اسکولوں کے موجودہ مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے کیونکہ موجودہ سردی کے دوران اسکولوں میں ناکافی انفراسٹرکچر کی وجہ سے بچوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اسلئے جتنا جلد اسکولی بچوں کو سردی کی چھٹیاں دی جائیں گی اتنا ہی ان کی صحت اور تعلیم کےلئے بہتر ہوگا۔
ہم نے جب یہ معروضات تعلیم محکمے کے ایک سینئر آفیسر کے سامنے رکھے تو ان کا کہنا تھا کہ اچانک سردی آجانے کی وجہ سے مسائل ہیں لیکن اسکولوں کی چھٹیاں ہوتے ہی یہی بچےکیسے اور کیونکر نجی ٹیوشن سینٹروں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ حتی المقدور کوشش کررہا ہے کہ بچوں کے مستقبل اور صحت دونوں کا خیال رکھا جائے۔ ہم نے ماہر تعلیم عبدالقیوم کے سامنے آفیسر کی یہ بات رکھی تو اُن کا کہنا تھا کہ اکتوبر نومبر سیشن میں بچے نئے کلاس میں پہنچ جاتے تھے اور اسکولوں اور کالجوں میں ان کے سامنے نئے کلاس کا سیلبس آجاتا تھا۔ وہ نہ صرف اس کا ایک حصہ پڑھ لیتے تھے بلکہ سردیوں کی تعطیلات کے دوران بھی انہیں معقول موقع مل جاتا تھا کہ وہ سیلبس کے بڑے حصے کو مکمل کرسکیں۔ لیکن نئے تعلیمی سیشن نے اس سب انتظام کو گویا درہم برہم کردیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ چھٹیاں ہوتے ہی یہی بچے پرائیویٹ ٹیوشن سینٹروں پر پہنچ جاتے ہیں لیکن ظاہر ہے ان سینٹروں پر جانے والوں کی تعداد بھی مقابلتاً کم ہے اور وہاں ان کی سہولیات کا بھی اچھا انتظام ہوتا ہے۔ یہاں سوال سرینگر یا دوسرے بڑے قصبوں میں رہنے والے طلاب کا ہی نہیں بلکہ طلاب کی اس کثیر اور بڑی تعداد کا بھی ہے جو دوردراز گائوں جات اور علاقوں میں رہتے ہیں۔ آپ شہروں کی چکاچوندمیں موجود اقلیت سے نظریں ہٹادیں تو آپ کوگائوں جات اور پہاڑی علاقوں میں موجود متاثرہ طلاب کی وہ اکثریت نظر آجائے گی کہ جن پر حکام کے فیصلوں کا اثر سب سے زیادہ پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتےکے دوران ہی وادی کشمیر میں رواں موسم سرما کی سرد ترین رات ریکارڈ کی گئی اور درجہ حرارت منفی صفر اعشاریہ8 تک گرگیاجبکہ سوموار کے روز دن کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرات6ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ اننت ناگ ،شوپیاں اور پلوامہ میں رات کا درجہ حرارت منفی ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ ادھر ماہرین موسمیات نے کہا ہے کہ ماہ نومبر میںدن کے درجہ حرارت میں اس قدر تنزلی25برسوں بعد دیکھی گئی ہے ۔سرینگر سمیت وادی کے دیگر اضلاع میں صبح کے وقت سخت دھند کی وجہ سے سڑکوں پر ربور و مروربھی مشکل ہوگیا ہے اور گاڑیاں صبح کے اوقات فاگ لائٹ جلاکر آہستہ آہستہ چلتی دیکھی جارہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موسمی حالات سخت ہیں اور خود محکمہ موسمیات کے مطابق بھی سردی کی شدت مذید بڑھ جانے کا اندازہ ہے اور دوسری جانب اسکولوں ،کالجوں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں گرمی کے سرے سے کوئی انتظامات ہی نہیں ہیں تو تعطیلات کا اعلان کرنے کے سواچارہ ہی کیا ہے۔ اُمید ہے کہ حکام حالات کی نزاکت کو سمجھ کرنیز گومگو کی کیفیت سے نکل کر فوری فیصلے لیں گے تاکہ نونہالوں کے تعلیمی مستقبل کو بھی بچایا جاسکے اور ان کی صحت و عافیت کا بھی تحفظ ممکن ہوجائے۔