19 نومبر کو آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے فائنل میچ میں آسٹریلیا کے ہاتھوں بھارت کو شکست کے بعد جموں و کشمیر سے باہر کے طالب علم کو دھمکانے اور مبینہ طور پر پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کے الزام میں سات کشمیری طلبہ کو سخت قانون غیر قانونی سرگرمیاں روکتھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کیاگیا ہے۔ یہ معاملہ شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسزو ٹیکنالوجی گاندربل کا ہے جہاں سبھی سات طلباء زیر تعلیم ہیں۔
معاملہ کیا ہے؟
پولیس تھانے ناگبل میں درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق، طالب علموں پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 13 اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 505 اور 506 کے تحت عوامی فساد اور مجرمانہ دھمکی دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔اس حوالے سے مزید جانکاری فرہم کرتے ہوئے ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ’’پنجاب کے ایک طالب علم نے سکاسٹ (شوہامہ کیمپس) کے آخری سال کے سات طالب علموں کے بارے میں تحریری شکایت درج کروائی ہے کہ 19 نومبر کو کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے فائنل میں آسٹریلیا کی جانب سے بھارت کو شکست دینے کے بعد اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔‘‘افسر نے مزید بتایا کہ’’پنجاب کے رہنے والے یونیورسٹی کے ایک طالب علم سچن بینس کی تحریری شکایت کی بنیاد پر ناگبل پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر (317/2023) درج کی گئی ہے، جو کہ یونیورسٹی کے آخری سال کے سات طالب علموں کے خلاف ہے۔ شکایت کنندہ کے ذریعہ نامزد کشمیری طلبہ کی شناخت عمر، آصف، محسن، توقیر، خالد، سمیر اور عبید کے طور پر کی گئی ہے۔ اس معاملے کی مزید تفتیش فی الحال جاری ہے۔‘‘
طالب علم سچن نے اپنی شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے ویٹرنری سائنسز اور حیوانات کے شعبے میں زیر تعلیم سات کشمیری طلبہ نے اس کے ساتھ ’’بدسلوکی‘‘ کی اور’’دھمکی‘‘ دی کیونکہ اس نے بھارت کی حمایت کی تھی۔ شکایت میں مزید الزام لگایا گیا ہے کہ’’انہوں نے مجھے دھمکی بھی دی کہ چپ رہو ورنہ مجھے گولی مار دی جائے گی۔“اس کے علاوہ، شکایت کنندہ نے بھی دعوی کیا ہے کہ اس میچ کے بعد، ان طلبہ نے پاکستان کے حق میں نعرے لگائے،جس سے جموں و کشمیر کے یونین ٹیریٹری سے باہر کے طلبہ میں خوف پیدا ہوا۔
ڈین آف اسٹوڈنٹس ویلفیئر سکاسٹ، ڈاکٹر محمد ابوبکر احمد صدیقی نے انڈین ایکسپریس کو تصدیق کی کہ طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’بنیادی طور پر، سات طالب علموں کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن میرے پاس اس کیس کے بارے میں تازہ ترین معلومات نہیں ہیں۔ طلباء نے ہمیں کوئی شکایت نہیں لکھی۔“فیکلٹی آف ویٹرنری سائنسز کے ایک اہلکار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ 19 نومبر کی رات بھارت کے میچ ہارنے کے بعد انڈرگریجویٹ ہوسٹل میں طلباء کے درمیان آمنا سامنا ہوا۔انہوں نے کہا کہ’’ہاسٹل میں تقریباً 300 طلباء مقیم ہیں، جن میں سے تیس سے چالیس پنجاب، راجستھان اور دیگر ریاستوں سے ہیں۔19 نومبر کی رات کو کچھ آمنے سامنے آ گئے۔ کشمیر سے باہر کے طلباء نے الزام لگایا کہ مقامی طلباء نے (میچ میںبھارت کی ہار کے بعد) جشن منایا اور انہیں ہراساں کیا۔“ انہوں نے کہا کہ ’’بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وارڈن یا ادارے کے کسی دوسرے اہلکار سے کوئی شکایت نہیں کی گئی۔ طالب علم سیدھا پولیس کے پاس گیا۔ انہوں نے واقعے کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کیا یا نہیں، یہ صرف پولیس کو معلوم ہوگا۔“
سیاسی جماعتوں کا ردعمل
سات طلباء کی گرفتاری پر کئی سیاسی لیڈران نے شدید مذمت کی ہے۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے یونیورسٹی کے سات طلباء کی گرفتاری کو’’حیران کن‘‘ قرار دیا اور لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے اس معاملے پر غور کرنے کی درخواست کی۔’’ ایکس‘‘ پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ’’پریشان کن اور چونکا دینے والی بات ہے کہ جیتنے والی ٹیم کی خوشی کو بھی کشمیر میں جرم قرار دیا گیا ہے۔ صحافیوں، کارکنوں اور اب طلباء پر یو اے پی اے جیسے سخت قوانین کو عام کرنا جموں و کشمیر میں نوجوانوں کے تئیں اسٹیبلشمنٹ کی بے رحم ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔“وہیں میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ” یو اے پی اے کا استعمال دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن حکومت نے سخت قانون کے تحت نوجوانوں،صحافیوں اور طلباء کو گرفتار کیا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے وزیر اعظم اور ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ میچ دیکھنے گئے ہیں اور جو ٹیم اچھا کھیلتی ہے، وہ مخالف ٹیم کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ” میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ ان طلباء نے جو کیا۔ لیکن یہ کہتے ہوئے کہ پولیس نے جس طرح سے اس کیس کو ہینڈل کیا ہے اس سے میں بھی متفق نہیں ہوں۔ اس سے’’دل کی دوری‘‘ میں کمی نہیں آئے گی جیسا کہ وزیر اعظم نے تصور کیا تھا۔“
وہیں اس معاملے میں کانگریس اور بھاجپا طلباء کے خلاف کی گئی کارروائی پر ایک پیج پر دکھائی دئے۔بی جے پی کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے کہا کہ” ہندوستان کی شکست کا جشن منانے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا چاہئے اور وہ کسی دہشت گرد سے کم نہیں ہیں۔“ جبکہ کانگریس لیڈررمن بھلا نے کارروائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے ’’انڈیا ٹوڈے ‘‘کو بتایا کہ جو لوگ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
دریں اثنا جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نامی طلبہ تنظیم نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا پر زور دیا کہ وہ سات طلباء کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے الزامات کو ختم کریں۔ ایسوسی ایشن کے قومی کنوینر ناصر کہوہامی نے کہا کہ سزا طلباء کے مستقبل کو تباہ کر سکتی ہے اور حکومت سے یو اے پی اے کے الزامات کو ختم کرنے پر زور دیا۔ ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا کہ یواے پی اے چارجز کے طلباء کے تعلیمی کیریئر پر سنگین نتائج ہوں گے اور یہ اہم نفسیاتی اثرات کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور انہیں واپس لیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ’’ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ طلباء کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع دیں اور آپ کے ادارے کی اخلاقی حیثیت اور ہندوستان کے آئین کے اصولوں پر اپنا اعتماد بحال کریں، تاکہ بچوں کو کچھ راحت ملے اور ان کا مستقبل محفوظ رہے۔‘‘
گرفتاریوں کی مذمت کے بعد گاندربل پولیس کا بیان
7 طلباء کی گرفتاری پر کئی سیاسی جماعتوں کی مذمت کے چند روز بعد گاندربل پولیس نے سماجی رابطہ گاہ ’’ایکس ‘‘پر تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس صرف پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کے متعلق نہیں بلکہ یہ اس پورے تناظر کے بارے میں ہے جس میں نعرہ بازی کی گئی۔گاندربل پولیس کی طرف سے سماجی رابطہ گاہ’’ایکس‘‘ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ’’ورلڈ کپ کرکٹ میچ کے اختتام کے بعد ایک یونیورسٹی میں ہندوستان مخالف نعرہ بازی اور ان کے ساتھ متفق نہ ہونے پر دیگر افراد کو دھمکانے کے واقعات کی قانونی کارروائی پر متعدد آرا اور تبصرے کئے گئے ہیں۔‘‘بیان میں کہا گیا کہ اس سلسلے میں دو پہلوؤں کو عوام کی جانکاری میں لایا جاتا ہے۔پولیس نے کہا کہ’’یہ (کیس) محض پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ اس پورے تناظر کے بارے میں ہے جس میں نعرہ بازی کی گئی۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’یہ نعرے، جسیا کہ عام طور پر کچھ منتخب غنڈوں کا کیس ہے، ان کو دھمکانے کے لئے لگائے گئے جو اختلاف کرتے تھے اور ان کی نشاندہی اور توہین کرنے کے لئے لگائے گئے جو ایک فاصلہ اختیار کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، یہ ایب نارنل کو نارمل کرنے کے لئے لگائے گئے کہ ہر کوئی (جو حکومت اور بر سر اقتدار جماعت سے مختلف ہیں) ہندوستان کے ساتھ نفرت کرتا ہے۔‘‘پولیس کا کہنا ہے کہ’’یہ ایب نارمل اور غلط چیز علاحدگی پسندوں اور عسکری نیٹ ورک کی ایما پر عمل میں لائی جاتی ہے بہ الفاظ دیگر اس کا مقصد کسی خاص ٹیم کی ذاتی ترجیحات کو نشر کرنا نہیں ہے۔‘‘پولیس نے کہا کہ ’’یہ اختلاف رائے یا حق آزادی اظہار کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کا مسئلہ ہے جو ہندوستان حامی یا پاکستان مخالف جذبات کو پروان چڑھا رہے ہیں یا اختلاف رائے رکھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ‘اس کے ثبوت میں تحریری شکایتیں موصول ہوئیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ اس کیس کا دوسرا پہلو یو اے پی اے ایکٹ کے اطلاق کا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’یو اے پی اے کی دفعہ 13 علاحدگی پسند نظریہ کو بھڑکانے، اس کی وکالت کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے متعلق ہے یہ دہشت گردی کی حقیقی کارروائیوں کی منصوبہ بندی، مدد اور ان کو انجام دینے کے متعلق نہیں ہے یہ ایکٹ ایسی کارروائیوں کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ’’دفعہ کی دوسری پرویژنز کے برعکس یہ ایک نرم پرویژن ہے۔‘‘پولیس نے کہا’’لہذا شکایات کے مواد کے مطابق ایف آئی آر زیر نمبر 317/2023 درج کی گئی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو اکسانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے یو اے پی اے کی دفعہ 13 کا استعمال کیا گیا۔‘‘انہوں نے کہا کہ آئی پی سی کے دفعہ 505 اور 506 کو بھی بالترتیب عوامی فساد اور ‘مجرمانہ دھمکی کے لئے استعمال کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ’’یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایف آئی آر موصول ہونے والی تحریری شکایت کی بنیاد پر درج کیا گیا اور شکایت کے مندرجات کے مطابق متعلقہ دفعات کا استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
واضح رہے جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں میں کرکٹ میچوں کے دروان مقامی اور غیر مقامی طلبہ کے درمیان جھڑپ کے اس سے قبل بھی کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔جبکہ جموںو کشمیر سے باہر دیگر ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری طلباء کو میچوں کے دوران ہراساں کرنے کے واقعات بھی ماضی میں پیش آئے ہیں۔سنہ2021ء میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت جموں اور کشمیر پولیس نے میڈیکل کالج کے عملہ اور طالب علموں کو گرفتار کیا جنہوں نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کا جشن منایا تھا۔اسی طرح سے اکتوبر 2021ء میں پاکستان کی جیت پر واٹس ایپ سٹیٹس رکھنے کے الزام میں تین کشمیری انجینئرنگ کے طالب علموں کوگرفتار کیا گیا تھا اور پھر اپریل 2022ءمیں رہا کیا گیا۔