بجلی بحران سے نمٹنے کے لئے انتظامیہ کے اقدامات سست روی کا شکار،
اضافی بجلی نہ خریدنے اور پھر عوامی غصے کے بعداضافی 500میگاواٹ خریدنے کا وعدہ؛
بجلی کی بلوں میں اضافے اور ہر گھر اسمارٹ میٹر تنصیب کی دھمکیاں ؛
کیا یہی اقدامات بجلی بحران کا حتمی حل ہیں ؟
سردی کی شدید ترین لہر اور یخ بستہ ہوائوں نے جہاں کشمیر باسیوں کو بے حال کررکھا ہے وہیں بجلی کے شدید ترین بلکہ کہا جائے تو تاریخ ساز بحران نے عوام الناس کی تکالیف میں دوگنا اضافہ کررکھا ہے ۔ میٹر کے بغیر علاقوں کا حال تو بے حال ہے ہی لیکن جو علاقے اسمارٹ سٹی کےا سمارٹ میٹر سے لیس ہیں اور بجلی کے بل کی ادائیگی میں کچھ منٹ بھی دیر نہیں کرسکتے کیونکہ فوراً بجلی کٹ جاتی ہے،وہاں بھی بجلی کی آنکھ مچولی بدترین شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی انتظامیہ کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور وہ بالکل بے بس ہے۔ عوام الناس کی تکالیف کو دور تو نہیں کیا جارہا لیکن ایسے میں محکمہ بجلی کے اعلیٰ عہدیداران عوام کو دلاسا دینے کے بجائے بجلی بحران کا ذمہ دار عوام کو ہی ٹھہرارہے ہیں اور کبھی بجلی کے نرخوں میں اضافے کی نوید سنائی دیتی ہے تو کبھی ہر گھر میں اسمارٹ میٹر نصب کرنے کو اس مسئلے کا حل قرار دیا جارہا ہے۔
حال ہی میں محکمہ بجلی کے پرنسپل سیکریٹری راجیش پرساد نے اعلان کیا کہ جموں وکشمیر کے ہر گھر میںا سمارٹ میٹر نصب کئے جائیں گے۔ڈوڈہ میں نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے پرنسپل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ بجلی کے کٹوتی شیڈل پر من وعن عمل کیا جائے گا۔ان کا دعویٰ تھا کہ امسال بجلی کی فراہمی میں قدرے بہتری واقع ہوئی ہے اور یہ کہ ہر گھر میں سمارٹ میٹرکو نصب کیا جائے گا۔پرنسپل سیکریٹری کے مطابق مرکزی وزارت بجلی نے اضافی بجلی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔موصوف کا مذید کہنا تھا کہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کرنے کے وعدے پر سرکار کاربند ہے اور اس حوالے سے زمینی سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں۔پرنسپل سیکریٹری کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں امسال بجلی سپلائی میں بہتری واقع ہوئی ہے۔ ان کے مطابق اس وقت کشمیر صوبے میں1665میگاواٹ اور جموں صوبے میں1150میگاواٹ بجلی درکار ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ نے کٹوتی شیڈول مشتہر کیا جس پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرانے کے احکامات صادر کئے گئے ہیں۔پرنسپل سیکریٹری نے بتایا کہ اضافی بجلی خریدنے کی خاطر سرکار نے پاور کمپنیوں کے ساتھ بات کی ہے جبکہ مرکزی وزارت بجلی کے سیکریٹری کے ساتھ اس معاملے پر گفت و شنید کی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مرکزی وزارت بجلی کے سیکریٹری نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اضافی بجلی فراہم کی جائے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں پہلے بجلی فراہم کی جاتی اور بعد ازاں کمپنیوں کو پیسے دئے جاتے تھے لیکن آج کمپنیوں کو ایڈوانس میں ہی پیسے دینے پڑتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بجلی کے ضمن میں جموں وکشمیر حکومت پر31 ہزار کروڑ روپیہ بقایا ہے۔راجیش پرساد نے صارفین سے اپیل کی کہ وہ وقت مقررہ کے اندر اندر بجلی فیس ادا کریں تاکہ کمپنیوں سے اضافی بجلی خریدنے کی خاطر انہیں ایڈوانس میں ہی پیسے واگزار کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ بجلی کے بحران میں خراب ترسیلی نظام کو بھی ذمہ دار مانتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جموں وکشمیر میں خراب ترسیلی نظام کی وجہ سے پچاس فیصد بجلی ضائع ہو رہی ہیں‘۔ایک الگ بیان میں پرنسپل سکریٹری پاور ڈیولپڈ ڈپارٹمنٹ (پی ڈی ڈی) ایچ راجیش پرساد کا کہنا تھاکہ نئے 500میگاواٹ تھرمل پاور معاہدے کے تحت بجلی کے بل بڑھنے کا امکان اور ٹیرف میں اضافہ بھی ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ 500میگاواٹ تھرمل پاور خریدنے کے معاہدے کی قیمت میں ہائیڈروپاورکے موجودہ ٹیرف کے مقابلے میں فی یونٹ ٹیرف میں ایک روپے کا اضافہ ہونے کا امکان ہےاور یہ کہ نئے خریدے گئے 500میگاواٹ کو چینلائز کرنے کا عمل جلد ہی موصول ہو جائے گا۔پرنسپل سیکریٹری کا کہنا ہے کہ ہم ہائیڈرو پاور پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، ہم نے پہلے ہی 1600میگاواٹ کی شمسی توانائی کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے جو پن بجلی سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا، دسمبر2024ء تک،جموں کشمیر میں بھی شمسی توانائی پیدا ہوگی تاہم شمسی توانائی میں سورج کی روشنی کے دن اور دیگر مدھم دنوں میں تغیر واقع ہوتا ہے اس لیے اس کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کوئلے یا گیس سے صرف تھرمل بجلی کی پیداوار ہی موسم کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ تھرمل انرجی کے تحت ہمارے پاس 24گھنٹے بجلی کی فراہمی ہوگی۔ مسٹرپرساد کا مذید کہنا تھاکہ500 میگاواٹ بجلی کی خریداری کے ضمن میںحکومت پہلے ہی اسکی اجازت دے چکی ہے۔500میگاواٹ کے نئے بجلی کی خریداری کے معاہدے کے لیے فی یونٹ نظرثانی شدہ ٹیرف کے بارے میں پوچھنے پر پرساد نے کہا کہ یہ معاہدہ تھرمل پاور کے لیے ہے۔تھرمل پاور کی بنیادی شرح ممکنہ طور پر ہائیڈرو اور سولر پاور سے تھوڑی زیادہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پن بجلی کی قیمت تقریباً 4روپے 50 پیسے فی یونٹ ہے تاہم تھرمل بجلی کی قیمت موجودہ شرح سے تقریباً ایک روپے فی یونٹ بڑھ کر 5روپے 25پیسے یا 5روپے50پیسے ہو سکتی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر تھوڑا مہنگا ہوگا لیکن ہمیں سپورٹ کے لیے اس بوجھ کو اٹھانےکی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک بہت ہی معقول ریٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ 500میگاواٹ تھرمل انرجی کے پاور پرچیز ایگریمنٹ کے حوالے سے مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سپلائی آجائے گی۔پرساد نے کہا کہ اس دوران محکمہ پی ڈی ڈی پاور ایکسچینج سے بجلی خرید رہا تھاجو بہت غیر مستحکم ہے۔پرساد نے یہ بھی کہا، اگرچہ ہمیں 500میگاواٹ تھرمل پاور خریدنے کی اجازت مل گئی ہے، لیکن قیمت کی منظوری کے لیے مرکزی بجلی اتھارٹی سے کچھ طریقہ کار سے گزرنا باقی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عمل دو یا تین دنوں میں مکمل ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سیکریٹری موصوف نے اضافی بجلی کی خریداری کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امسال ایساکچھ نہیں کیا جائے گا اور بجلی میں رکاوٹ کی بنیادی وجوہات میں سے بڑی وجہ بجلی بلوں کی عدم ادائیگی ہے اور جب تک عوام بل ادا نہیں کریں گے بجلی بھی مسیر نہیں ہوگی۔ اس کے بعد مختلف مقامات پر بجلی بحران کے خلاف عوامی احتجاج دیکھنے کو ملا جس کے خلاف کئی جگہ پر کاررووائیاں بھی کی گئیں لیکن بالآخر سرکار کو اپنی سوچ بدلنے کےلئے آمادہ ہونا پڑا اور اضافی بجلی خریدنے کےلئے اقدامات اٹھائے گئے۔ماقبل ڈویژنل کمشنر کشمیر وجے کمار بدھوری نے دعویٰ کیا تھا کہ وادی کشمیر میں بجلی کی صورتحال ایک ہفتے کے اندر بہتر ہو جائے گی۔ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے بدھوری نے کہا تھاکہ موسم سرما میں بجلی کی مانگ میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر میٹرڈ علاقوں میں میٹر والے علاقوں کی نسبت بجلی کی زیادہ طلب ہے اس وجہ سے بجلی ترسیلی نظام میں خلل واقع ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے یقین دہانی کی تھی کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور چیف سیکریٹری نے بجلی کی خریداری (درآمد) کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ ہم بجلی کے منظر نامے میں بہتری کی توقع کرتے ہیں اور اس سلسلے میں جلد ہی فیصلہ متوقع ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ غیر اعلانیہ بجلی کٹوتی زیادہ اذیت ناک ہے اور انتظامیہ شہریوں کی اذیت سے بخوبی آگاہ ہے۔
بہرحال مذکورہ یقین دہانی اب کئی دن پرانی ہوچکی ہے لیکن ابھی تک بجلی بحران جوں کا توں ہے اور اس کی وجہ سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہورہا ہے۔ایک اخباری رپورٹ کی مانیں تو کشمیر وادی پورے بھارت میں بجلی کٹوتی کے معاملے میں سرفہرست ہے اور یوںملک بھر میں اس معاملے میں بُرا نام کمارہا ہے۔خبر کے مطابق نیشنل پاور پورٹل کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (کے پی ڈی سی ایل) نے ستمبر کے دوران بجلی کی رکاوٹوں کی سب سےبڑی تعداد اور دورانیہ ریکارڈ کیا، جس سے یہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکام) کے درمیان بجلی کی باقاعدہ فراہمی کو یقینی بنانے میں سب سے کم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کمپنی قرار پائی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کشمیر میں رکاوٹوں کی ماہانہ اوسط تعداد حیرت انگیز طور پر اسی اعشاریہ انچاس ہے، جس میں رکاوٹوں کی مدت ایک سو پانچ گھنٹے اور بتیس منٹ تک پہنچ گئی ہے۔کے پی ڈی سی ایل کی بلاتعطل بجلی کی فراہمی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی مزید واضح ہو گئی ہے، کیونکہ بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے جبکہ سپلائی رفتار برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔پاور ریلائیبلٹی انڈیکس کے مطابق وادی کشمیر، سال بھر کے ایک مہینے کے برابر بجلی کی کٹوتی کا مشاہدہ کرتی ہے۔ اسی طرح سینٹرل الیکٹرسٹی اتھارٹی (سی ای اے) کے اعداد و شمار بھی کے پی ڈی سی ایل کی کارکردگی اور بجلی کے قابل اعتماد اشاریوں میں قومی اوسط کے درمیان خطرناک تفاوت کو بے نقاب کرتے ہیں جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ کشمیر بجلی کی ترسیل کے معاملے میں بدترین مسائل کا شکا ر ہے۔ٹائمز آف انڈیا (ٹی او آئی) کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 2004کے بعد سے بجلی کا یہ بدترین بحران ہے جب لوگوں نے دن میں ۱۸گھنٹے تک بلیک آؤٹ دیکھاتھا۔
بجلی کے بحران نے عوام الناس کا تو کچومر نکال ہی دیا ہے لیکن اس سے سب سے زیادہ بیمار اور بزرگ ہورہے ہیں جن کی زندگیاں تک دائو پر لگ چکی ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں بجلی کا بحران بوڑھوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو دائمی رکاوٹ پلمونری بیماری( سی اور پی ڈی )میں مبتلا ہیں ان کےلئے بے حد مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔اخباری رپورٹر کے ساتھ بات کرتے ہوئے سرینگر میں ایک شو روم کے مالک کا کہنا تھا کہ ان کے والد، جو70برس کے ہیں سی او پی ڈی بیماری کے مریض ہیں ۔’’ ہمیں ایک جنریٹر خریدنا پڑا تاکہ ان کی آکسیجن کنسنٹیٹر مشین بغیر کسی رکاوٹ کے چل سکے۔ مجھے نہیں لگتا کہ تمام خاندان جنریٹر برداشت کر سکتے ہیں۔‘‘ انکا کہنا ہے کہ بجلی کی طویل کٹوتی ایسے مریضوں کے لیے موت کا الارم ہے ۔
گزشتہ ہفتوں سے بجلی کی قلت سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، نجی کلنک مالی خسارہ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ڈائیگناسٹک مراکز، ڈائلسز سنٹر سمیت دیگر نجی لیبارٹریز بجلی پر ہی منحصر ہیں تاہم برقی رو کی عدم دستیابی سے یہ ادارے آج کل مالی بحران سے گزر رہے ہیں۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق، بجلی کی کٹوتیوں نے صنعت، سیاحت، دستکاری، تجارت اور صحت کی دیکھ بھال سمیت کئی شعبے متاثر کیے ہیں۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر جاوید احمد ٹینگہ کا کہنا ہے کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے۔’’یہ حیران کن ہے کہ حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود، صورت حال نہ صرف بہتر ہونے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس نے خطہ کو مزید خرابی اور طویل اندھیرے کی طرف موڑ دیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ بجلی کی فراہمی کی سطح2004ءمیں ریکارڈ کی گئی طلب سے خطرناک حد تک کم ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ گہرے ہوتے ہوئے بحران کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط نہ کرنا ایک اہم عنصر ہے جس نے موجودہ صورتحال میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے صنعت، سیاحت، دستکاری، تجارت، پرچون کاروبار، باغبانی، صحت کی خدمات اور تعلیم کو کافی نقصان پہنچا ہے اور اس کے علاوہ بیماروں ،بیماربچے اور بوڑھے، گھر والے وغیرہ بے شمار مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔کے سی سی آئی نے اس صورت حال کوصحت عامہ خاص طور پر ’تشویشناک صحت کی دیکھ بھال کے نظام‘ کے لیے خطرے سےتعبیر کیا اور متعلقہ حکام پر زور دیا کہ وہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے تیزی سے اور مؤثر طریقے سے تعاون کریں، تاکہ لوگوں کی فلاح و بہبود اور وادی کشمیر میں کاروبار کے مستقل کام کو یقینی بنایا جا سکے۔اسی طرح کشمیر ٹریڈ الائنس نے بھی موجودہ بحران کو معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ رہائشیوں کی روزمرہ کی زندگی کےلئے نقصان دہ قرار دیا ہے ۔ کے ٹی اے کے صدر اعزاز شاہدار کا کہنا ہے کہ ’’محکمہ بجلی کی طرف سے اس یقین دہانی کے باوجود کہ شمالی گرڈ سے اضافی500میگاواٹ بجلی کی سپلائی خریدی جائے گی، کشمیر میں بجلی کی غیر مقررہ کٹوتیوں کا سلسلہ جاری ہے جو اس کے مکینوں کی روزمرہ کی زندگیوں میں افراتفری پیدا کر رہی ہے‘‘۔
کشمیر کی سیاسی جماعتیں بھی بجلی بحران پر خاصی نالاں نظر آرہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بجلی بحران کے ضمن میں کشمیر میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور حزب اختلاف نے بھی روزانہ بلیک آؤٹ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہے۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے کئی رہنماؤں نے حال ہی میں سرینگر میں پارٹی ہیڈکوارٹر میں احتجاجی مظاہرہ کیااور بجلی کی کٹوتی پر جموں وکشمیر کے ایل جی کو نشانہ بنایا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے تو ایل جی مسٹرسنہا پر عیش و عشرت کا الزام تک لگایا ہے ۔ عمر عبداللہ نے لیفٹیننٹ گورنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آپ جہاں بھی جائیں ڈبل انجن (حکومت) کی بات کرتے ہیں لیکن ہمیں یہاں ایک بھی انجن نہیں ملتا۔ اگر راج بھون کو کچھ خریدنا ہے تو ٹینڈر کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلی بار ایک حکم آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ گورنر صاحب کی آسائشوں پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے اور ٹینڈر جاری کیے بغیر ان کے لیے چیزیں فوری طور پر خریدی جانی چاہئیں‘‘۔ ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ نے مرکز سے جموں و کشمیر کے پاور پروجیکٹس کو’’واپس‘‘ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’ انہوں نے (مرکزی حکومت) ہماری بے بسی کا فائدہ اٹھایا۔ ہم (وسائل کی کمی کی وجہ سے) پراجیکٹس نہیں بنا سکے۔بہت ساری کمیٹیوں، ورکنگ گروپس اورگول میزکانفرنسوںنے کہا ہے کہ ان پروجیکٹوں کو جموں و کشمیر کو واپس کیا جانا چاہئے لیکن آپ کو ہمارے پروجیکٹ ہمیں واپس دینے سے کیا روک رہا ہے‘‘۔ جموں وکشمیر اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے بجلی کے حالیہ بحران کو’’اجتماعی تعذیب‘‘ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں ذمہ داری کا تعین کرنا ہوگا۔ افسران نے پانی کے اخراج میں کمی کے بارے میں اَلارم کیوں نہیں اٹھایا اور ناردرن گرڈ سے خریداری کی تجویز کیوں تیار نہیں کی۔ یہ بحران راتوں رات پیدا نہیں ہوا ہے‘‘۔الطاف بخاری کے مطابق اگر منتخب حکومت ہوتی تو ایسا بحران پیدا نہ ہوتا اور ذمہ داری کا تعین کیا جاتا۔روزنامہ دی ہندو کے مطابق الطاف بخاری کا کہناتھا کہ ’’یہ اجتماعی سزا ہے‘‘۔لیفٹیننٹ گورنر کو دہلی جانا چاہئے اور مرکز سے مدد طلب کرنی چاہئے اور اس صورت حال پر قابو پانے کی جستجو کرنی چاہئے۔
بہرحال خشک سالی، دریائوں میں پانی کی کمی ،ناقص ترسیلی نظام ،فیسوں کی عدم ادائیگی، ناجائز اور غیر قانونی ہوکنگ وغیرہ کے سرکاری دعوے سب اپنی جگہ درست ہونگے لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ کشمیر اُن معدودجگہوں میں شامل ہے جہاں سے بجلی فیسوں اور جرمانوں کی ادائیگی کی صورت میں موٹی رقوم حاصل کی جاتی ہیں۔ پھر کشمیر کا خطہ پانی اور گلیشروں کی آماجگاہ ہے جہاں سے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ قدرت کے اس انمول تحفے کے باوجود بھی اس سرزمین کے باسی بجلی کی روشنی کو ترس رہے ہیں جو کسی المیہ سے کم نہیں۔ سردیوں میں آبی ذخائر منجمد ہونے اور مقدار میں کمی ہونے کے باعث بجلی بننے کی مقدار ضرور کم ہوجاتی ہے لیکن اس صورت کا حاکموں کو پہلے سے ہی اندازہ ہوتا ہے اور یہی ہونا بھی چاہئے اور انتظامیہ ہی کو اس ضمن میں پیشگی اقدامات اُٹھاکر بحرانی کیفیت سے بچنے کی تدابیر کرنا ہوتی ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ حاکم اور اپوزیشن نیز انتظامیہ مل بیٹھ کر اس دیرینہ مسئلے کا پائیدار اور حتمی حل نکال کر عوام الناس کو راحت بخشنے کی سعی کریں گے اور کبھی نہ کبھی کشمیری بھی سردیوں کے ایام میں اپنے روز و شب روشن دیکھ پائیں گے۔