سرینگر: جموں و کشمیر کے سرینگر میں ایک آل پارٹی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں وادی میں غیر مقامی افراد کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے مسئلے پر بات چیت کی گئی۔ میٹنگ کے اختتام پر فاروق عبداللہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے یہ احکامات ان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں اور وہ اس کی بھر پور مخالفت کریں گے۔
فاروق عبداللہ کہا کہ آل پارٹیز میٹنگ میں تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے رہی کہ ہم سب اس نئے قانون کی متحد ہو کر مخالفت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ غیر مقامی باشندوں کو ووٹنگ کا حقوق دینے سے ان پر مزید حملے ہوں گے اور غیر مقامی افراد کے لیے اسمبلی کا دروازہ کھل جائے گا۔ سیاسی جماعتوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس فیصلے سے کشمیر میں پنڈتوں اور غیر مقامی مزدوروں پر حملے بڑھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسی ہی ایک اور میٹنگ وہ جموں میں بھی کریں گے اور لوگوں کو سمجھائیں گے کہ اس سے کیا نقصانات ہوں گے۔ انہوں نے بلند آواز میں کہا کہ ہم کل رہیں یا نہ رہیں لیکن لڑائی بند نہیں ہوگی۔ بھارت کو دو سو سال آزادی کی لڑائی میں لگے۔ ہم بھی لڑیں گے- ہم بھاگنے والے نہیں ہیں۔ یہاں کے عوام کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے، ہم اس کے خلاف لڑیں گے۔
فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہمیں خدشات ہیں بی جی پی یہاں کا تشخص ختم کرے گی اور اس کے پیچھے ان کا یہی مقصد ہے۔ اس میٹنگ میں پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر شاہ، سی پی آئی ایم کے لیڈر، کانگرس کے جموں و کشمیر کے صدر وقار رسول، کانگریس کے قائم مقام صدر رام بلہ، جموں و کشمیر شیو سینا کے صدر منیش ساہنی اور اکالی دل کے نریندر سنگھ نے میں شرکت کی۔ پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون اور اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے اس میٹنگ میں جانے سے انکار کیا اور کہا کہ سرکار نے اس مسئلہ پر گذشتہ روز صفائی دے دی ہے.
ووٹ کا حق دینے کے الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کی مخالفت کرنے کا فیصلہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ غیر مقامی لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینا نا قابل قبول ہے اور اس فیصلے کے خلاف ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ آج جن غیر مقامی لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے ان کی تعداد 25 لاکھ ہے اور کل یہ تعداد 50 لاکھ یا ایک کروڑ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کی شناخت پر راست حملہ کیا جا رہا ہے۔ ان فیصلوں کی وجہ سے کشمیری، ڈوگرہ، سکھ اور دیگر کمیونٹی کے لوگ اپنی پہچان کھو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر مقامی لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی کل غیر مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔
غیر مقامی لوگوں کا ووٹ ڈالنے کا حق دینے کا فیصلہ نا قابل قبول: ڈاکٹر فاروق عبداللہسابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں نے پانچ روز قبل لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے ساتھ فون پر بات کی اور انہیں امر ناترھ یاترا معاملے پر منعقد کی گئی آل پارٹی میٹنگ کی نوعیت کی میٹنگ طلب کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایل جی سے آل پارٹی میٹنگ بلانے کی گذارش کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر نے پچھلی بار کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر کے لیڈروں کو میٹنگوں میں دعوت دیتے رہیں گے لیکن ایسا پھر نہیں ہوا۔ مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں پوچھے جانے پر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’ضرورت پڑنے پر الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے.
انہوں نے کہا ’میں حیران ہوں کہ اس (فیصلے)کے لئے جموں وکشمیر کو کیوں چنا گیا اس کے پیچھے کوئی مقصد ہوسکتا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ماہ ستمبر میں قومی پارٹیوں کے لیڈروں کو سری نگر یا جموں مدعو کریں گے اور انہیں جموں وکشمیر کی موجودہ صورتحال اور مرکز کی یہاں کے لوگوں کی شناخت تبدیل کرنے کی کوششوں کے بارے میں بریف کریں گے۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر ہردیش کمار سنگھ نے بدھ کو جموں میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یونین ٹریٹری میں ‘دی ریپریزنٹیشن آف پیوپلز ایکٹ 1950 اور 1951 لاگو ہوا ہے جس کے تحت ملک کا کوئی بھی باشندہ یہاں کے اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہے جس طرح ملک کی دیگر ریاستوں میں جائز ہے۔اس بیان سے جموں و کشمیر میں بی جے پی کے بغیر تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے ردعمل ظاہر کیا۔ تاہم انتظامیہ نے گزشتہ روز اخبارات میں اشتہار دیا جس میں انہوں نے اس معاملے کی صفائی دی کہ الیکشن کمیشن الیکٹورل روئزن میں پچیس لاکھ نئے ووٹز کو شامل کرنی کی بھر پور کوشش کرے گی۔