امت نیوز ڈیسک //
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے 2016 میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کی منسوخی کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر پیر کے روز اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے 2016 میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی منسوخی کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ جسٹس ایس اے نذیر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنایا۔ جسٹس عبدالنذیر کی سربراہی والی 5 ججز کی آئینی بینچ نے کہاکہ’ اقتصادی فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ SC
اس معاملے میں آئینی بنچ نے چار ایک کی اکثریت سے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ صرف جسٹس بی وی ناگرتنا نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو نوٹ بندی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جسٹس بی وی ناگارتنا نے کہاکہ مرکزی حکومت کے کہنے پر نوٹ بندی بہت زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ جس کا اثر معیشت اور شہریوں پر پڑتا ہے۔ غور طلب کہ مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد پورا ملک نوٹ بدلنے کے لیے لائنوں میں کھڑا رہا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دوران سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، شادیاں منسوخ ہوئیں، جھوٹے اور درمیان درجے کے کاروبار پر منفی اثر پڑا، روزگار کے مواقع میں کمی دیکھی گئی۔خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 7 دسمبر کو مرکز اور ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کو 2016 میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو منسوخ کرنے کے حکومت کے فیصلے سے متعلق متعلقہ ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔ بنچ نے مرکز کے 2016 کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی، آر بی آئی کے وکیل اور سینئر ایڈوکیٹ پی چدمبرم اور شیام دیوان سمیت عرضی گزاروں کے وکیل کی دلیلیں سنیں اور اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے کے فیصلے کو ‘سنگین طور پر خامی’ قرار دیتے ہوئے چدمبرم نے دلیل دی تھی کہ مرکزی حکومت قانونی ٹینڈر سے متعلق کوئی بھی قرارداد اپنے دم سے شروع نہیں کر سکتی اور یہ صرف آر بی آئی پر منحصر ہے۔ سفارش کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2016 میں نوٹ بندی کے قواعد پر نظر ثانی کرنے کے سپریم کورٹ کے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت نے کہاتھا کہ عدالت ایسے کس کا فیصلہ نہیں کرسکتی، جب گزرے وقت میں واپس جاکر کوئی ٹھوس راحت نہیں دی جاسکتی ہے۔’