امریکہ، جس نے1776 میں جنم لیا تھا،آج دنیا کا ٹھیکیدار ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس کا سکہ چلتا ہے۔ وہ ملک جس کی کوئی تاریخ نہیں ہے، آج پوری دنیا کو تواریخ اور جمہوریت کے دروس دے رہا ہیں۔ جمہوریت کے کھوکھلے دعوے دینے والا یہ ملک اصل میں سب سے بڑا’’ دہشت گرد‘‘ ہے۔ اس نے بہت سارے معصوموں کا خون بہایا ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک اور امریکہ نے جتنی دہشت گرد کاروائیاں کئی ہیں، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں اس نے بھوک، موت،امراض، بےچینیوں،وغیرہ کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ مکار لوگ دوستی اور دشمنی کے روپ دھار کر دنیا میں موت کا ناچ نچواتے ہیں۔ دنیا کی وہ تنظیمیں جو بظاہر امن کے لئے کوشاں ہیں، اس کی مٹھی میں ہے۔ یہ تنظیمیں سانس بھی اس ملک کے کہنے پر لیتی ہے۔ ان کا سارا خرچہ اس کے جیبوں سے آتا ہیں۔دنیا میں قوانین کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہوں،تو امریکہ اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ پہلے شہروں کو ویران کرو اور پھر معافی مانگو، یہ سب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا شیوہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کا مکروہ چہرہ زیادہ واضح ہوگیا ہے۔ کشمیر، اسرائیل، ویتنام، افغانستان، عراق، کویت، یمن، شام، فلسطین، سارا افریقہ، پاکستان، یوکرین، وغیرہ وہ کونسی جگہ نہیں ہے جہاں اس دہشت گرد ملک نے تباہی نہ مچائی ہوں۔
اس ملک نے 1948 میں اسرائیلی ریاست کا خنجر مشرق وسطی میںگھونپ دیا۔اس کا اصل مقصد مسلم ممالک پر کڑی نظر رکھنا تھا۔ فلسطینیوں سے ان کا جائز حق چھینا گیا۔اقوام متحدہ کی قرارداد کو بھی بالائی طاق رکھا گیا ۔ آج تک ہزاروں کی تعداد میں معصوم فلسطینیوں کو موت کی گھاٹ اتارا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی معصوم کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے صرف امریکہ کی کارستانی ہے۔ اسرائیل کے خلاف ایک آواز، پورے اقوام متحدہ اور یورپی ممالک میں شور و غل پیدا کرتی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے اپنوں نے بھی اس کار ناجائز میں اپنا کردار بِخوبی نبھایا ہے۔ مال کی ہوس نے ہمیں بھی اس قتل و غارت کا حصہ بنایا ہے۔
سرد جنگ:یہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ جو دو ممالک پچھلے لگ بھگ تیس سالوں سے ایک ہی تھالی میں کھاتے پیتے تھے، اچانک وہ دنیا کی نظروں میں دشمن ہوگئے۔ یہ بڑے ممالک کی کارستانی ہوتی ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر کوئی بھی سازش رچتے ہیں۔ اس جنگ نے امریکہ کو بہت سارے فوائد سے مالا مال کیا۔گھر سے دور اپنے فوجی اڑیں بنوائے۔ اصل مقصد یہی تھا کہ کیسے دنیا کے چوکیدار بنے۔ اب جب بھی امریکہ کو کسی بھی ملک کو تباہ کرنا ہوتا ہے، تو ان اڈوں سے کام لیا جاتا ہے اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتا ہیں۔ یوکرین کی جنگ اس کی نمایاں مثال ہے۔ سرد جنگ کی ذہنیت لے کر وہ یوکرین میں بھی اپنی فوجیں اتارنا چاہتا تھا اور کسی بھی وقت روس پر حملہ کرنے کی طاق میں تھا۔ اس کا نتیجہ روس اور یوکرین کی جنگ کی شکل میں نکل کر آیا ۔ اس سرد جنگ نے القاعدہ کو بھی جنم دیا۔ پھر اسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر افغانستان کو تباہ دیا۔ عقل والوںکے لئےیہ افسوس کا مقام ہے کہ کیسے imperialism اور colonialism ایک انسان کو درندہ بنا دیتی ہے۔ روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔ مگر امریکہ کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔ افغانستان مادنیت سے برا ملک ہے۔ یہ عالمی منڈیوں کے لئے بھی اہم ہے۔ دنیاوی نقشے پر اس کی افادیت کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا۔ روس نے بھی یہی سوچ کر حملہ کر دیا۔ امریکہ نے اس کو ہرانے کے لئے القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کو کھلایا پلاایا اور کھربوں روپے کا تباہ کن سامان مہیا کیا۔ جب روس وہاں سے نکل کھڑا ہوا تو اس تنظیم کو دہشت گردی کا لیبل لگا کر ان پر آنے والے سالوں میں حملہ کر دیا۔ یہ ہے منافقت کی انتہا۔
کویت اور عراق کی جنگ: امریکہ نے عراق کو اکسایا اور جنگ و جدل کا بازار گرم کروایا۔ مسلم ممالک نے بھی اس مہم میں امریکہ کی بھرپور حمایت کئی۔ نتیجہ کیا نکلا۔ عراق کو کویت سے نکلنا پڑا مگر عراق تباہی کا شکار ہوا۔
11ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملہ ہواتو امریکی صدرجارج بش نے war on terror کا نعرہ لگا کر پوری مسلم اُمت کو ہی دہشتگرد قرار دیا۔ نتیجتاً افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ بیس سال وہاں ضائع کرنے کے بعد 2021 میں آخر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی ذلیل ہوکر بوریا بستر گول کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کی ایک لاکھ سے بھی کم طالبانی افراد ان کو شکست دے کر وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہونگے۔ اسی طرح عراق میں ہوا۔ جب امریکہ کو لگا کہ صدام حسین کے پر نکل آئے ہیں، تو اس کے پر کاٹ دے گئے۔ عراق پر یہ جواز بنا کر حملہ کیا گیا کہ یہ مہلک ہتھیاروں کو چھپائے بیٹھا ہیں۔ یہ ہتھیار پوری دنیا میں تباہی مچا سکتے ہیں۔ اس کو سبق سکھانے کے لئے عراق پر 2003 میں بمباری شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا عراق خون کی ہولی میں رنگ گیا۔ لاکھوں کی موت اور خانہ جنگی نے اس ملک کی خوبصورتی کو بدصورتی کا ایسا پیراہن پہنا دیا ہے کہ خوبصورتی جیسے دور کہیں کھو گئی ہوں۔ پھر امریکہ کے حکام کا یہ بیان زخم پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی۔ عراق میں اس قسم کے ہتھیار نہیں تھے۔ مجھے آج بھی Hilary Clinton کا وہ بیان یاد ہے جس میں وہ صاف صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ ہم سے بڑی غلطی ہوئی کہ ہم نے عراق پر حملہ کیا۔
یمن اور شام کی لڑائیوں میں بھی امریکہ کا نمایاں ہاتھ ہے۔ شام میں پانچ لاکھ اموات اس لئے ہوئیں کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایسا جال بچھا دیا جس سے دوسروں کو نکلنا مشکل ہوگیا اور دونوں ممالک موت کی گہرائیوں میں دھنستے گئے۔ آج شام اور یمن کھنڈرات کے چہرے اختیار کرچکے ہیں۔
اب جن ممالک پر امریکہ کا قبضہ ہوا ہے وہ بھی بہت حدتک خود اس کے ذمہ دار ہے۔ ان ممالک نے چھوٹے چھوٹے مسائل پر ایک دوسرے کا گلا کاٹا۔ اختلافات کو سلجھانے کے بجائے، اسے اور اُلجھادیا۔ اس سے کیا ہوا کہ بڑے بڑے ممالک نے انہیں اپنا نوالا بنا دیا۔ اگران ممالک کے سربراہوں نےسوجھ بھوج سے کام لیا ہوتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ اب بھی موقع ہے کہیہ ممالک چھوٹے اختلافات کو بھول کر ایک ایسا block بنائیں جوانہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی چوکھٹ پر سر کو جکانے پر مجبور نہ کرے۔ اب بھی موقع ہےلوگ جاگ جائیں ورنہ امریکہ اور اس کے اتحادی انہیں ایک ایک کرکے موت کی گھاٹ اتارتے رہیں گے اور یہ فروعی مسائل میں الجھ کر تباہی کا شکار ہوتے رہیں گے۔