13 ستمبر2023ء کو میڈیا کے مختلف ذرائع سے خبر نشر ہوئی کہ کوکرناگ کے دوردراز اور دشوار علاقے گڈول میں ایک انکاؤنٹر کا آغاز ہوچکا ہے اور کئی شدت پسندوں کو فوج اور پولیس نے گھیرے میں لے لیا ہے ۔ ابھی اس خبر کو چلے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ پولیس اور فوج کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ مذکورہ معرکے کے آغاز پر ہی کئی اعلیٰ فوجی اور پولیس آفیسران زخمی ہوگئے ہیں۔پولیس کے مطابق صبح سویرے جموں و کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے کوکر ناگ علاقے میں سیکورٹی فورسز اورعسکریت پسندوںکے درمیان تصادم کے بعد فوج اور جموں و کشمیر پولیس کے افسران زخمی ہو گئے ۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم’’ ایکس‘‘ پر اپنے آفیشل ہینڈل پر جموں و کشمیر پولیس نے پوسٹ کیا کہ’’ اننت ناگ کے کوکرناگ علاقے میں ایک انکاؤنٹر شروع ہوا ہے۔ فوج اورجموں و کشمیر پولیس کے اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ تفصیلات اس کے بعد میں آئیں گی‘‘۔ بعد ازاں تین آفیسروں جن میں فوج کے ایک کرنل، ایک میجر اور پولیس کے ایک ڈپٹی ایس پی کے انتقال کی خبر دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سیکورٹی فورسز کو اس علاقے میں چھپے ہوئے شدت پسندوں کی جیسے ہی اطلاع ملی انہوں نے سرعت کے ساتھ انہیں دھر دبوچنے کےلئے آپریشن کا آغاز کردیا تھا۔ پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ اور فوج کے راشٹریہ رائفلز پر مشتمل آفیسر اور جوان جیسے ہی گھنے جنگلات پر مشتمل اس دشوار علاقے میں چھپے ہوئے ملی ٹینٹوں کے نزدیک پہنچے تو ان پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں من پریت سنگھ ،میجر آشیش دھونچک اور ڈی ایس پی ہمایوں مظفرسمیت کچھ دوسرے سپاہی زخمی ہوگئےتھے جو بعدازاں جان کی بازی ہار گئے۔
اعلیٰ آفیسروں سمیت کئی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد فوج اور پولیس نے اس پورے علاقے کو محاصرے میں لے لیا اور چھپے ہوئے شدت پسندوں کو مارگرانے کےلئے ایک طویل آپریشن لانچ کردیا گیا جو قریب سات روز تک جاری رہا ۔ فوج کے مطابق جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے گڈول کوکرناگ کے گھنے جنگل علاقے میں7دنوں تک جاری رہنے والا ملی ٹنسی مخالف آپریشن بدھ کے روز اختتام پذیر ہوا۔اس آپریشن کے دوران ایک فوجی کرنل، ایک میجر، ایک ڈی ایس پی اور لشکر طیبہ کے ایک کمانڈر سمیت کم سے کم6افراد ہلاک ہوگئے۔سرینگر نشین فوج کی چنار کور نے’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ملی ٹینٹوں کی موجودگی کے متعلق اطلاع موصول ہونے پر فوج اور جموں وکشمیر پولیس کی ایک ٹیم نے اننت ناگ کے گڈول علاقے میں 13 ستمبر سے 19ستمبر تک مشترکہ آپریشن چلایا۔انہوں نے کہا’طرفین کے درمیان 13ستمبر کو پہلا رابطہ ہوا جس کے نتیجے میں تصادم آرائی شروع ہوئی اور آپریشن بھی طویل ہوا جو19ستمبر تک جاری رہا‘۔فوج نے پوسٹ میں کہا’اس آپریشن کے دوران 2عسکریت پسندوں کو مار گرایا گیا جن کی تحویل سے 2اے کے 47رائفلیں، 1پستول اور دوسرا جنگی سامان بر آمد کیا گیا‘۔پوسٹ میں کہا گیا’چنار کور کرنل من پریت سنگھ، ڈی ایس پی ہمایوں بٹ اور میجر آشیش دھونک اور سپاہی پردیپ سنگھ کی اعلیٰ بہادری اور عظیم قربانی کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے فوج اور پولیس کی کی اعلیٰ روایات کے مطابق قوم کی خدمت میں اپنی جانیں نچھاور کیں‘۔پوسٹ کے مطابق مشترکہ آپریشن اختتام پذیر ہوا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اے ڈی جی پی وجے کمار کو منگل کے روز جب اس آپریشن کے اختتام پذیر ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی لشکر کمانڈر عزیر خان سمیت دو شدت پسندوں کی ہلاکت کا ذکر کیا تھا اور بتایا تھاکہ فی الحال تلاشی آپریشن جاری رہے گا۔انہوں نے بتایا تھا کہ تصادم کی جگہ اور اردگرد علاقوں میں بارودی شیل بکھرے پڑے ہوئے ہیں جس کے پیش نظر لوگوں سے تلقین کی جاتی ہیں کہ وہ جنگل میں جانے سے فی الحال گریز کریں۔
درایں اثناء ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہمایوں مزمل بٹ کی جسد خاکی کو پولیس لائنز سرینگر میں رکھا گیا۔ یہاں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے مزمل بٹ کو خراج پیش کیا۔ اس موقع پر چیف سکریٹری ڈاکٹر ارون کمار، ڈی جی مہرا بھی موجود تھے۔ ڈی ایس پی ہمایوں کو پولیس کے اعلیٰ افسران نے بھی خراج پیش کیا۔ انکاونٹر میں مارے گئےڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہمایوں بٹ کی آخری رسومات سرکاری اعزازات کے ساتھ ادا کی گئیں۔ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے گڈول کوکرناگ جنگل علاقے میں آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے آفیسران اور سپاہیوںکو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔اس موقع پر انہوں نے کہا’میں اپنے بہادر آفیسروں اور جوانوں کی مثالی ہمت اور قربانی کے سامنے جھکتا ہوں، قوم ہمیشہ ان کی شہادت کی مرہون منت رہے گی‘۔ان کا مزید کہنا تھا’مصیبت کی اس گھڑی میں پوری قوم ان کے خاندان کے ساتھ کھڑی ہے۔‘ انکاونٹر میں شہید ہوئے جوانوں کی جسد خاکی پر جموں کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے پھولوں کا مالا ڈال کر خراج پیش کیا ۔
واضح رہے کہ اعلیٰ آفیسروں اور جوانوں کو کھو دینے کے بعد فوج اور پولیس نے علاقے کے محاصرے کو سخت کردیا اور گھنے جنگلات میں چھپے ہوئے شدت پسندوں کو مارگرانے کےلئے ایک طویل تصادم آرائی کا آغاز کیا۔ آل انڈیا ریڈیو اور دوسرے ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی تھی کہ آفیسروں کی ہلاکت میں مبینہ طور پر ملوث لشکر کمانڈر عزیر خان سمیت دوسرے شدت پسندوں کو گھیرے میں لےلیا گیا ہے ۔ وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کیا گیا جس میں فوجی ہیلی کاپٹر، اسرائیلی ساخت کے ڈرون اور جدید ترین اسلحہ جات اور گولہ بارود کو کام میںلاتے ہوئے شدت پسندوں کی مبینہ کمین گاہوں کو قریب سات روز تک نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اس دوران علاقے سے ایک جلی ہوئی لاش ملی جس کے ڈی این اے نمونے لے کر تحقیقات کےلئے بھیج دی گئیں۔ اس کے معاً بعد ایک اور لاش برآمد کی گئی جو ایک لاپتہ فوجی جوان پردیپ سنگھ کی تھی ۔ اطلاعات کے مطابق مہلوک سپاہی کی جسد خاکی کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ اپنے وطن بھیجا گا۔ فوج کی چنار کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اوپندرا دیویدی اور دیگر اعلیٰ فوجی افسروں نے بھی سپاہی پردیپ سنگھ کی میت پر یہاں بادام باغ فوجی چھائونی میں پھولوں کی چادریں چڑھا کر ان کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔چنار کور نے ‘ایکس’ پر ایک پوسٹ میں کہا’بہادر جوان سپاہی پردیپ کا تعلق فوجی19آر آر سے تھا جنہوں نے اننت ناگ گڈول آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے عظیم قربانی پیش کی‘۔پوسٹ میں مزید کہا گیا’اس شہید کے جسد خاکی کی آخری رسومات ان کے وطن میں فوجی اعزاز کے ساتھ انجام دی جائیں گی ‘۔پوسٹ میں مزید کہا گیا’مصیبت کی اس گھڑی میں فوج پسماندگان کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے وقار، بہبودی اور تحفظ کے لئے پر عزم ہے۔‘
جیسا کہ پہلے ہی لکھا جاچکا ہے کہ گھنے جنگلاتی علاقے میں چھپے جنگجووں کو مار گرانے کے لئے وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کردیا گیاتھا۔ آپریشن کے دوسرے دن کے اختتام پر پولیس حکام کا کہنا تھا کہ رات کو اندھیرے کے پیش نظر آپریشن معطل کر دیا گیا ۔لیکن تیسرے روزجمعرات کی صبح اضافی فورسز کو طلب کرکے آپریشن دوبارہ شروع کر دیا گیا اور پھنسے ہوئے ملی ٹنٹوں کے فرار ہونے کے تمام راستوں کو مسدود کر دیا گیا۔قبل ازیں کشمیر زون پولیس نے اپنے ایک ٹویٹ میں کرنل من پریت سنگھ،میجر آشیش دھونک اور ڈی ایس پی ہمایوں بٹ کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان افسروں نے غیر متزلزل بہادری کا مظاہرہ کرکے اس آپریشن کے دوران سب سے آگے لڑتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ٹویٹ میں کہا گیا’ہماری افواج غیر متزلزل عزم کے ساتھ قائم ہے انہوں نے عزیز خان سمیت لشکر طیبہ کے2 دہشت گردوں کو گھیرے میں لے لیا ہے‘۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گھنے جنگلی علاقے میں محصور ملی ٹینٹوں کو مار گرانے کی خاطر فوج کی خصوصی ونگ’مونٹین بریگیڈ‘ جنہیں پہاڑوں پر چڑھنے کی مہارت حاصل ہے کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ذرائع کے مطابق فوج، پولیس ، سی آر پی ایف کی اضافی نفری نے جنگلی علاقے کو پوری طرح سے سیل کرکے لوگوں کے چلنے پھرنے پر مکمل طورپر پابندی عائد کردی تھی۔دفاعی ذرائع نے بتایا کہ جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس فوج اور پولیس کی خصوصی ٹیمیں جنگلی علاقے میں خیمہ زن ہے۔ جمعرات کی سہ پہر تصادم کی جگہ ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں پورا علاقہ لرز اٹھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے اس کمین گاہ کو اڑا دیا جس میں ملی ٹینٹ محصور تھے تاہم اُس وقت کسی بھی ملی ٹینٹ کی لاش برآمد نہیں کی جا سکی تھی۔دفاعی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ گڈول کوکر ناگ کے جنگلی علاقے کو پوری طرح سے سیل کیا گیا ہے اور ہیلی کاپٹروں اور ڈرون کیمروں کی مدد سے علاقے میں نظر گزر رکھی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گڈول کوکر ناگ کا جنگلی علاقہ کافی بڑا ہے جس کے پیش نظر اضافی سیکورٹی فورسز کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی ہے۔
آپریشن کی طولانی نیز شدت و اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غالباً پہلی مرتبہ ملی ٹنٹنوں کے ساتھ تصادم آرائی کی نگرانی کےلئے چنار کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اوپندرا دیویدی خود میدان میں نظر آئے جنہوں نے گڈول جاکرشدت پسندوں کے ساتھ مقابلہ آرائی کی تیاریوں کا جائزہ لیا۔
ہلاک ہوجانے والے کشمیر پولیس کے 34 سالہ آفیسر ہمایوں مزمل بٹ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ملی ٹنٹ حملے میں زخمی ہوجانے کے بعد بھی اپنے اہل خانہ اور دوسرے لوگوں سے رابطے میں تھے۔ہمایوں بٹ نے اڑھائی بجے کے قریب، زخمی ہونے کے بعد اپنے خاندان اور ساتھیوں سے بات کرنے کے لیے واٹس ایپ ویڈیو کال کی تھی۔ پہاڑی سے اترنے کا مشورہ بٹ کے والد، ایک سابق پولیس افسر نے دیا تھا، لیکن ان کے اعضاء مفلوج تھے۔انہوں نے اپنے والد سے کہا تھاکہ وہ اپنی ٹانگیں ہلانے سے بھی قاصر ہیں ۔ ایک پولیس افسر کے مطابق عسکریت پسند جنگل میں موجود تھے جس کی وجہ سے موقع پر موجود فوجیوں کے لیے انہیں بچانا ناممکن ہو گیا تھا۔جان بحق ہوجانے والے ہمایوں مزمل بٹ کے والد غلام حسن بٹ بھی کشمیر پولیس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں ۔ جان بحق آفیسرجن کی گزشتہ سال شادی ہوئی تھی نے، پسماندگان میں اہلیہ فاطمہ، نوزائیدہ بیٹی، والدین اور ایک بہن چھوڑی ہیں۔ 2018ءمیں امتحان پاس کرنے کے بعد، ہمایوں، جنہوں نے سماجی بہبود کے محکمے کے لیے مختصر کام کیا جس کے بعد وہ چھ سال قبل پولیس فورس میں بھرتی ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ وہ شائستہ فطرت کے حامل تھےجس کےلئے ان کے دوست اور جاننے والے انہیں یاد رکھیں گے۔
ادھربھارت بھر کی کئی سیاسی جماعتوں سمیت جموںو کشمیر کی کئی سیاسی شخصیات اور جماعتوں نے بھی آفیسران اور فوجیوں کی ہلاکت پر دکھ اور غم کا اظہار کیا۔بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ترون چُگ نے جو جموں و کشمیر کے پارٹی انچارج بھی ہیں، نے اننت ناگ انکاؤنٹر میں اعلیٰ سیکورٹی افسران کی ہلاکت کی سخت مذمت کی اور کہا ہے کہ ’’ہمارے بہادروں کے قاتل سزا کے بغیر نہیں جائیں گے۔کرنل من پریت سنگھ، 19آر آر کے کمانڈنگ آفیسر، میجر آشیش دھونچک، ڈی وائی ایس پی ہمایوں بٹ، سابق ڈی آئی جی کشمیر غلام حسن بٹ بیٹے کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، چْگ نے کہا کہ یہ دہشت گردوں کی ایک مایوس کن کارروائی ہے جو دباؤ کی وجہ سے مایوس ہو رہے ہیں۔ ان کا مذید کہنا تھاکہ ہماری بہادر افواج کے اہلکاروں کی قربانی ’’ناقابل فراموش‘‘ہے اور قاتلوں کو بغیر سزا نہیں جانے دیا جائے گا۔نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں ملی ٹنسی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت وقت سے یہ بر بادی چل رہی ہے اور مجھے اس کا خاتمہ کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ ہمہامہ میں نامہ نگاروں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے، جہاں وہ کوکرناگ انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی ہمایوں بٹ کی رہائش گاہ پر تعزیت پرسی کے لئے آئے تھے، فاروق عبداللہ نے کہا کہ ‘فوجی کرنل، میجر اور ڈی ایس پی کی زندگیوں کا زیاں بہت بڑا صدمہ ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بربادی کافی وقت سے ہو رہی ہے لیکن مجھے اس کا خاتمہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ’حکومت زور سے چلا رہی ہے کہ ملیٹنسی ختم ہوئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے کیونکہ روز یہاں کبھی راجوری میں کبھی کہیں دوسری جگہ انکاؤنٹر ہو رہے ہیں‘۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ جب تک دو ممالک آپس میں بات چیت نہیں کریں گے تب تک امن قائم نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ لڑائی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے بلکہ بات چیت سے قیام امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے ا س واقعے پر دکھ کا اظہا رکرتے ہوئے کہا گیا کہ اس خبر نے پورے ملک کو سوگورا کردیا ہے ۔ ہمارے جوان ملک کی سلامتی کی خاطر ہم سے دُور ہوگئے ۔ ان کی قربانی کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گی۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ ، پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی اور بی جے پی نے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ کوکر ناگ میں فرائض کی انجام دہی کے دوران تین آفیسران نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کوکر ناگ سے ایک خوفناک خبر آرہی ہے کہ وہاں پر کرنل ، میجر اور جموں وکشمیر پولیس کا ڈی ایس پی فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مشکل وقت میں جاں بحق ہوئے آفیسران کے گھر والوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔جموں وکشمیر اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری نے بھی کوکر ناگ میں تین اعلیٰ آفیسران کی ہلاکت پر رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے سوگوار خاندانوں کے ساتھ اپنی دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔الطاف بخاری نے سیکورٹی ایجنسیوں پر زور دیا کہ ملوث دہشت گردوں کو جلدازجلد انجام تک پہنچایا جائے۔
قابل ذکر ہے کہ تصادم آرائی کے بعد کئی سابق فوجی اور پولیس آفیسروں نے اس واقعے کو ملی ٹنٹنوں کی جانب سے گھات لگاکر حملہ قرار دیا گیا تھا جس کی پولیس نے سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔ خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ ایس کے دلت نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حملہ شدت پسندوں کی طرف سے ایک گھات لگاکر کیا گیا حملہ تھا۔ دلت سنگھ کا کہنا تھا ’ انہیں لگتا ہے کہ یہ ایک گھات لگاکر حملہ تھاجس کے نتیجے میں کئی آفیسروں کی جان چلی گئی ہے‘۔ ان کا مذید کہنا تھا کہ اسی برس پونچھ میں اسی قسم کے حملے کے بعد انہوں نے ایسے خدشات کا اظہار کررکھا ہے کہ شاید اس قسم کے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔اسی طرح ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے ساتھ بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس کے سابق ڈی جی شیشپال وید کا کہنا تھا کہ ’جس جگہ آپریشن جاری ہے وہ بہت مشکل جگہ ہے۔ یہاں جنگلات، اونچی پہاڑیاں اور چڑھائیاں ہیں۔ ‘ان کا مذید کہنا تھا ’میرا خیال میں یہ ممکن ہے کہ حکام کو خود اس جگہ کا علم نہ ہو جہاں یہ شدت پسند چھپے ہوئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان کے جال میں پھنس گئے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ مارے جانے والے افسران علاقے کو گھیرے میں لینے کے بعد سیدھے ادھر چلے گئے ہوں اور انھیں شدت پسندوں کی پوزیشن کا علم نہیں ہو۔شیشپال وید کہتے ہیں: ’یہاں مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپریشن جس کے ان پٹ پر کیا گیا تھا، کبھی کبھار وہ ڈبل ایجنٹ ہوتا ہے۔ مخبر دوسری طرف (شدت پسند) سے بھی ملے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ جس نے بھی معلومات دی، کیا اس کا تعلق شدت پسندوں سے تو نہیں تھا؟ آپریشن کے بعد اس پر غور کرنا چاہیے۔‘‘اس قسم کے دعوؤں اور بیانات کوفوج اور پولیس دونوں نے مسترد کیا ۔ اس ضمن میں جموں و کشمیر پولیس نے ٹویٹ کیا اور بڑے واضح انداز میں کہا کہ ’سابق پولیس/فوج کے افسران کو’گھات لگا کر حملہ‘ کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ مکمل طور پر اِن پُٹ پر مبنی آپریشن ہے، جو اب بھی جاری ہے اور تمام دویا تین دہشت گرد ختم کر دیے جائيں گے۔‘
جیسا کہ پہلے ہی بتایا گیا ہے کہ مذکورہ تصادم سری نگر سے تقریباً ۱۰۰کلومیٹر دور جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ(اسلام آباد) کے گھنے جنگلات میں سات روز تک جاری رہا۔یہ علاقے اونچی پہاڑیوں اور گھنے جنگلات پر مشتمل ہے جس کے نچلے حصوں میں بستیاں آباد ہیں۔ اس علاقے میں گھنے جنگلات ہیں جبکہ دائیں بائیں کھیت اور کھلیان ہیں۔ضلع اننت ناگ(اسلام آباد) کو عبور کرنے کے بعد سیاحت کے لیے معروف قصبہ کوکرناگ آتا ہے اور کوکرناگ سے تقریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر گڈول کا علاقہ ہے، جہاں سرچ آپریشن جاری رہا۔اننت ناگ اور کوکرناگ کے درمیان 30کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور یہ انکاؤنٹر جنگلوں کے بیچ میں ہوا جہاں تک پہنچنے کے لیے اوپر چڑھنا پڑتا ہے۔جموں خطے کے بانہال اور رام بن علاقے اس پہاڑی کے عقبی حصے میں واقع ہیں جبکہ علاقے میں پھیلے ہوئے پہاڑ اور جنگلات پھیلتے ہوئے کشتوار اور ہماچل تک وسیع ہیں۔سیکورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے ممکنہ ٹھکانوں پر ماٹر شیل، راکٹ اور دوسرے بڑے ہتھیار بھی استعمال کئے ۔ اس پورے علاقے میں کئی مقامات پر فلڈ لائٹس بھی لگادی گئیں تھیں تاکہ شدت پسندوں کو بھاگنے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔ شدت پسندوں کی تلاش کے لیے ڈرون کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا گیا۔کہا جارہا ہے کہ وادی میں یہ تصادم آرائی غالباً پچھلی دو دہائیوں میں سب سے لمبی اور خطرناک تصادم آرائی تھی ۔
واضح رہے کہ13جون2023سے اب تک کشمیر میں کل آٹھ انکاؤنٹر ہو چکے ہیں۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ان مقابلوں میں 15شدت پسند مارے گئے ہیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ ان شدت پسندوں میں کچھ غیر ملکی بھی شامل تھے۔ان آٹھ مقابلوں میں تین فوج اور پولیس افسران سمیت چھ فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ انکاؤنٹر کشمیر کے کپواڑہ، پلوامہ، کولگام اور اننت ناگ میں ہوئے۔